وفی التنویر وشرحیہ لایتوقف الایجاب علی قبول غائب عن المجلس فی سائر العقود من نکاح وبیع وغیرھما بل یبطل الایجاب ولا تلحقہ الاجازۃ اتفاقا ۲؎ ۔
اور تنویر اورا س کی دونوں شرحوں میں ہے کہ ایجاب مجلس سے کسی غائب شخص کے قبول کرنے پر موقوف نہ ہوگا، تمام عقود، نکاح وبیع وغیرہما کا یہی حکم ہے کہ ایجاب بالاتفاق باطل ہوجاتا ہے اور اس کو اجازت لاحق نہیں ہوتی۔ (ت)
(۲؎ درمختار شرح تنویرا لابصار باب الکفاءۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/۱۹۶)
اور اگر توکیل ٹھہرائیں تو اس کی طرف بھی راہ نہیں، توکیل دوسرے کو کسی تصرف جائز معلوم میں اپنا نائب بنانا ہے انابت کا اصلاً کوئی ذکر نہ کلام شخص مذکور میں تھا نہ کلام مخطوبہ میں، تو اس کا حاصل صرف اس قدر ہو اکہ مخطوبہ نے اس کے سامنے زید کے ساتھ اس قدر مہر پر اپنے نکاح کی رضا ظاہر کی، یہ تو کیل نہ ہوئی۔
تنویر الابصار میں ہے:
ھوا قامۃ الغیر مقام نفسہ فی تصرف جائز معلوم ۱؎۔
وہ یہ کہ غیر کو کسی تصرف جائز معلوم میں اپنے قائم مقام بنانا۔ (ت)
(۱؎ درمختار شرح تنویر الابصار کتاب الوکالۃ مطبع مجتبائی دہلی ۲/۱۰۳)
علماء فرماتے ہیں زید و عمرو سے کہا کاش! تو میرا نکاح فلاں عورت سے کردیتا، اس نے کردیا، یہ نکاح، نکاحِ فضولی ہوا، حالانکہ یہاں صراحۃً عمرو سے استعانت تھی تو مجرد اس قدر کہ اس نے کہا تو فلاں سے نکاح پر راضی ہے؟ اس نے کہاں ''ہوں'' کیونکر توکیل ہوسکتی ہے۔
فتاوٰی خیریہ میں ہے:
سئل فی رجل قال کل امرأۃ اتزوجھا فھی طالق ثم قال بمجلس لرجل لیتک تزوجنی فلانۃ ھل اذازوجہ یحنث ام لااجاب لایحنث لانہ لم یتزوج بل زوج والمزوج فضولی بلاشک والحال ھذہ ۲؎ الخ۔
ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جس نے کہا ہو کہ جس عورت سے بھی نکاح کروں اس کوطلاق ہے، پھر اس شخص نے کسی مجلس میں ایک آدمی کو کہا کاش تو فلاں عورت سے میرا نکاح کردے، تو اس آدمی نے اس کا نکاح اس عورت سے کردیا، تو کیا حانث ہو گا یعنی اس عورت کو طلاق ہوجائیگی یا نہیں؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ طلاق نہ ہوگی کیونکہ اس نے خود نکاح نہیں کیا بلکہ اس کا نکاح ایک غیر شخص (فضولی) نے کیا ہے اور بلاشک معاملہ یہی ہے الخ (ت)
(۲؎ فتاوٰی خیریہ کتاب النکاح فصل فی نکاح الفضولی دارالمعرفۃ بیروت ۱/ ۲۷)
بالجملہ اس وقت تک کی جو کارروائی تھی لغو وفضول گئی، اب رہا وہاں سے واپسی کے بعد شخص مذکور کا خاطب سے خطاب، یہاں ضرور تحقیق عقد ہی مقصود ہے کہ ان کے زعم میں مجلس مخطوبہ مجلس توکیل تھی اب کہ یہ اپنےنزدیک وکیل بن کر آیا اس مجلس عقد میں عقد کرتا ہے تو یہ استفہام حقیقۃً ایجاب ہوا اور زوج کا کہنا قبول کیا قبول۔
اقول وباللہ التوفیق، تحقیق مقام یہ ہے کہ استفہام ہنگام ارادہ تحقیق مفید معنی امر ہوتا ہے
قال اﷲ تعالٰی فھل انتم منتھون ای انتھوا ۳؎
اللہ تعالٰی نے فرمایا: کیا تم باز آؤگے؟ اس سے مراد یہ ہے کہ باز آؤ۔
تو ''تونے قبول کیا''؟ بمعنٰی ''قبول کر'' ہے، اور امر میں اگرچہ ہمارے علما مختلف ہوئے کہ وہ توکیل ہے یا ایجاب۔
فی الدر المختار زوجنی او زوجینی نفسک اوکونی امرأتی لیس بایجاب بل توکیل ضمنی وقیل ایجاب ورجحہ فی البحر ۳؎ اھ مختصرا
درمختار میں ہے: تو میرا نکاح کردے، اے عورت تو میرا نکاح کر، یا اس کو کہا تومیری بیوی ہوجا، تو یہ کلمات ایجاب نہ ہوں گے بلکہ ضمناً توکیل ہوگی، بعض نے کہا کہ یہ ایجاب ہے، اور بحر میں اس کو ترجیح دی ہے ا ھ مختصراً،
(۳؎ درمختار کتاب النکاح مجتبائی دہلی ۱/۱۸۵)
وفی ردالمحتار مشی علی الاول فی الھدایۃ والمجمع ونسبہ فی الفتح الی المحققین وعلی الثانی ظاھر الکنز و اعترضہ فی الدرر بانہ مخالف لکلامھم واجاب فی البحر والنھر بانہ صرح بہ فی الخلاصۃ والخانیۃ قال فی الخانیۃ و لفظۃ الامرفی النکاح ایجاب وکذا فی الخلع والطلاق والکفالۃ والھبۃ اھ قال فی الفتح و ھوالحسن ۴؎ الخ۔
اور ردالمحتار میں ہے کہ ہدایہ اور مجمع میں پہلے قول کو اپنایاہے اور اس کو فتح میں محققین کی طرف منسبو ب کیا ہے اور دوسرے پر کنز نے ظاہر کہا ہے، ا ور اس پر درر میں اعتراض کیا ہے کہ یہ علماء کے قول کے مخالف ہے، اوراس کا جواب بحر اور نہر میں یہ دیا گیا کہ خلاصہ اور خانیہ میں اس پر تصریح کی ہے، اور خانیہ میں فرمایا کہ امر کا لفظ نکاح میں ایجاب ہوتا ہے اور خلع، طلاق، کفالہ اور ہبہ میں بھی ایجاب ہے، اور فتح میں فرمایا کہ یہ احسن ہے الخ (ت)
(۴؎ ردالمحتار کتاب النکاح داراحیاء التراث العربی بیروت ۲/۲۶۳)
اورقول توکیل پر یہاں انعقاد نکاح میں دقت ہوتی کہ یہ شخص خاطب کو وکیل کرنے والا کون، نکاح کا وکیل بالنکاح تو دوسرے کو وکیل کر سکتا ہی نہیں، فضولی کیا چیز ہے،
خلاصہ یہ ہے اگر وکیل نے کسی کو کہا کہ تو اپنی لڑکی فلاں کو دے، تو باپ نے جواب میں ''میں نے دی'' کہا، تو جب تک اس کے بعد وکیل ''میں نے فلاں کے لیے قبول کی'' نہ کہے نکاح منعقد نہ ہوگا۔ کہ وکیل از خود دوسرے کو وکیل نہیں بنا سکتا اھ،
(۱؎ خلاصۃ الفتاوی کتاب النکاح مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۲/۳۰)