Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح)
17 - 1581
اس تحقیق انیق سے عبارات ملتئم ہوگئیں اور حکم منتظم وتمام الکلام علی مسألۃ الاستفہام فیما علقنا ہ علی ردالمحتار (اور مسئلہ استفہام پر مکمل کلام ردالمحتار پر ہمارے حاشیہ میں ہے۔ ت) جب یہ اصل متضح ہولی اب صورت مستفسرہ کی طرف چلئے، شخص مذکور کہ مجلس خاطب سے اٹھ کر مخطوبہ کے پاس جاتا ہے جبکہ اس سے پہلے نہ خاطب سے اذن لیا نہ مخطوبہ سے، اور وہ دونوں بالغ ہیں کہ ان کے معاملہ میں غیر کا اذن کوئی چیز نہیں تواسے وکالت سے کیا علاقہ، یقینا فضولی محض ہوتا ہے مگر ہمارے ائمہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نزدیک عقد فضولی محض فضول ونامقبول نہیں بلکہ منعقد ہوجاتا ہے اور اجازت صاحب اجازت پر موقوف رہتا ہے کما نصوا علیہ فی الکتب قاطبۃ (جیسا کہ فقہاء نے تمام کتابوں میں اس پر نص کی ہے۔ ت) پس اگر اس کلام سے کہ یہ فضولی مخطوبہ سے کہتا ہے تحقیق عقد مراد ومفہوم ہوتی تواس وقت انعقاد نکاح میں شبہہ نہ تھا اس کا کلام ایجاب ہوا اور مخطوبہ کا جواب قبول۔ عقد  موقوفاً منعقد ہوگیا۔ اس کے بعد جب فضولی مذکورہ خواہ دوسرے شخص نے خاطب کواس کی خبر دی اور اس نے اظہار قبول کیا، یہ صراحۃً اس عقد موقوف کی تنقیذ ہوئی اور نکاح تام ونافذ ہوگیا، ''قبول کیا میں نے'' اور ''قبول کیا'' دونوں یکساں ہیں کہ جب ''تونے قبول کیا'' کے جواب میں ''قبول کیا'' کہا تواس کے صاف یہی معنٰی ہوئے کہ ''میں نے قبول کیا'' لان السوال معاد فی الجواب (کیونکہ جواب میں سوال کا اعادہ معتبر ہوتا ہے۔ ت)
ذخیرہ وہندیہ میں ہے:
قیل لامرأۃخویشتن رابفلاں بزنے دادی فقالت داد وقیل للزوج پذیر فتی فقال پذیر فت ینعقد النکاح وان لم تقل المرأۃ دادم والزوج پذیرفتم ۱؎۔
اگر کسی عورت کوکہا کہ ''تونے اپنے کوفلاں کی بیوی بنادیا'' توعورت نے جواب میں کہا ''بنادیا'' توخاوند کوکہا گیا ''تونے قبول کیا'' اس نے کہا ''قبول  ہے'' تونکاح ہوجائیگا اگرچہ عورت اور مرد نے ''میں نے قبول کیا'' یا ''میں نے اپنا نکاح دیا'' نہ کہا ہو۔ (ت)
 (فتاوٰی ہندیہ     کتاب النکاح    الباب الثانی    نورانی کتب خانہ پشاور    ۱/۲۷۱)
اصلاح وایضاح میں ہے:قولھما داد پذیرفت بعد دادی وپذیر فتی جواب وقبول لمکان العرف فان جواب مثل ھذا الکلام قد یذکر بالمیم وبدونہ کفر وخت وخرید فی البیع ۲؎۔
''تونے دی، تونے قبول کی'' کے الفاظ کے بعد صرف ''دی'' ''قبول کی'' کہنا عرف کی بناپر ایجاب وقبول ہے، کیونکہ ایسی کلام کے جواب میں متکلم کا صیغہ ضروری نہیں ہے۔ جیسے بیع میں صرف ''خرید وفروخت'' کا لفظ استعمال کر لیاجاتا ہے۔ (ت)
(۲؎ اصلاح وایضاح)
اقول جب فارسی میں داد ودادم وپذیرفت وپذیر فتم کا ایک حکم ہے تواردومیں بدرجہ اولٰی
فان صیغۃ الماضی بالفارسیۃ للغائب غیرھا للمتکلم بخلاف لساننا فانما ھی صیغۃ واحدۃ للغائب والحاضر والمتکلم جمیعا وانما یفرق بالضمائر اوذکر الظاھر الاتری ان الفرس تقول اوکرد و توکردی ومن کردم ونحن نقول فی الکل اس نے کیا، تونے کیا، میں نے کیا ومن کذٰلک فی الفعل اللازم وہ آیا تو آیا میں آیا وانما یفرق فیہ بین الواحد والجمع والمذکر والمؤ نث فصیغہ فی اللازم اربع آیا آئی للواحد المذکر والمؤنث وآئے آئیں للجمعین کذلک وفی المتعدی صیغۃ واحدۃ للکل وھوکیا مثلاً سواء اسندتہ الی اس او انھوں او تو او ہم للذکر اوالذکور اوالاثنی اوالاناث اولہم ذکرانا اواناثا ولافرق بین الغائب والحاضر والمتکلم فی شیئ منھما اصلا بہ تبین بطلان زعم من یزعم ان قول الخاطب قبول کی بدون میں نے لاینعقد بہ النکاح لعدم تعین القابل۔
کیونکہ فارسی میں ماضی غائب اور متکلم کاصیغہ علیحدہ ہے جبکہ ہماری زبان میں ماضی غائب، حاضر اور متکلم کا ایک ہی صیغہ ہے جو صرف ضمیر یا اسم ظاہر کی تبدیلی میں فرق پیدا کرتا ہے، آپ دیکھیں کہ فارسی والے اوکرد، تو کردی اور من کردم، ہر ایک کے لیے علیحدہ صیغہ استعمال کرتے ہیں، جبکہ ہم سب کے لیے صرف ''کیا'' کہتے ہیں، اس نے قبول کیا، تو نے کیا، میں نے کیا، اور یوں ہی ہماری زبان میں فعل کابھی ایک ہی صیغہ ہے جو ضمیر لگانے سے غائب، حاضر اور متکلم کا فرق ظاہر کرتا ہے مثلاً وہ آیا، توآیا، میں آیا، البتہ واحدو جمع اور مذکر ومونث کے لحاظ سے لازم کے چار صیغے ہیں، آیا، آئی واحد مؤنث ومذکر کے لیے آئے اور آئیں جمع مذکر ومونث کے لیے ہیں، اور فعل متعدی کا صرف ایک صیغہ ہے، اوریہ ،کیا، ہے اس کوبھی ضمیر لگا کر واحد مذکر ومونث، جمع مذکر ومونث کے ساتھ غائب، حاضر متکلم کا فرق کیا جاتا ہے مثلاً اس نے کیا، تونے کیا، میں نے کیا، غرضیکہ اردو میں فعل لازم اور متعدی کے لیے غائب، حاضر اور متکلم کا ضمیر وں کے بغیر کوئی فرق نہیں ہے، اس بحث سے واضح ہوگیا کہ بعض کا خیال غلط ہے کہ شادی کا پیغام دینے والے پہلے شخص کا دوسرے کے ''میں نے دی'' کے جواب میں صرف ''قبول کی'' کہنا کافی نہیں جب تک اس کے ساتھ ''میں نے'' ذکر نہ کرے کیونکہ اس سے قبول کرنے والے کا تعین نہیں ہوتا لہذا ''میں نے قبول کی''کہنا ضروری ہے (اس خیال کے غلط ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اردو میں غائب، حاضر متکلم کے لیے صیغہ کا فرق نہیں ہے)۔ (ت)
مگر تقدیر مذکور سوال سے ظاہر یہ ہے کہ فضولی کا مخطوبہ سے وہ کلام بقصد انشائے عقد نہیں ہوتا، نہ وہ مجلس مجلس عقد سمجھی جاتی ہے بلکہ اسے اپنے زعم میں ہندہ سے طلب اذن کی مجلس سمجھتے اور اس گفتگو کو استیذان جانتے اور مجلس عقد مجلس کو قرار دیتے ہیں جب یہ وہاں سے واپس آکر خاطب سے خطاب کرتا ہے

ولہذا پلٹ کر قاضی کے پاس جاتا ہے جو عقد کرانے کو دولھا کے پاس بیٹھا ہے اور اس کے سوال پر اپنے آپ کو وکیل مخطوبہ ظاہر کرتا ہے اوراس کے قبول یعنی رضا سے خبردیتا ہے، ان قرائن واضحہ سے مجلس مخطوبہ کا مجلس عقد نہ ہونا ظاہر، اور لا اقل اتناتو بدیہی کہ ارادہ عقد ظاہر نہیں، معنی مجاز مراد نہ ہوسکنے کو اس قدربس ہے۔
فان المجاز مفتقرالی قرینۃ تظھر ارادتہ فحیث لاقرینۃ ترجح جانبہ لاتصح ارادتہ کما علمت من قول المحقق علی الاطلاق بلااحتمال مسا وللطرف الاخر واذاکان الامر ماوصفنا لم یصح جعل الاستفہام تحقیقا کما دریت۔
کیونکہ مجاز ایسے قرینے کا محتاج ہے جس سے متکلم کا ارادہ واضح ہوسکے۔ تو جہاں ایسا قرینہ نہ ہو جو مراد کو واضح کرسکے وہاں اس معنی مجازی کو مراد نہیں لیا جاسکتا، جیسا کہ محقق علی الاطلاق کے قول ''غیر کا مساوی احتمال نہ ہو'' سے واضح معلوم ہوا، جب معاملہ یہ ہے جو ہم نے بیان کیا ہے تو استفہام کا مجازی معنٰی، تحقیق عقد قرینہ کے بغیر مراد لینا درست نہ ہوگا، جیسا کہ آپ نے سمجھ لیا۔ (ت)
اب قول مخطوبہ کو ایک رکن عقد یعنی ایجاب وقبول قرار دیجئے تو باطل محض ہے کہ اس ایجاب کا قبول جاکر دوسری مجلس خاطب میں ہوگا اور کوئی ایجاب مجلس سے باہر قبول پر موقوف نہیں رہ سکتا۔
کما نصوا علیہ فی عامۃ الکتب وفی النھر والدر من شرائط الایجاب والقبول اتحاد المجلس ۱؎
جیسا کہ فقہاء کرام نے عام کتب میں اس کی تصریح کردی ہے۔ نہر اور در میں ہے کہ ایجاب وقبول کے معتبرہونے میں مجلس کا اتحاد ضروری ہے،
 (۱؎ درمختار         کتاب النکاح مطبع مجتبائی دہلی    ۱/۱۸۶)
Flag Counter