یہی علماء تصریح فرماتے ہیں کہ ہنگام ارادہ تحقیق عقدتام ہے۔ فتاوٰی ظہیریہ وخزانۃ المفتین میں ہے:
لو قال بالفارسیۃ دختر خویش مرادادی فقال دادم لاینعقد النکاح لان ھذا استخبار واستیعاد فلایصیر وکیلا الا اذا ارادبہ التحقیق دون الاستیلام ۱؎۔
اگر ایک نے دوسرے سے فارسی میں کہا کہ تونے اپنی لڑکی مجھے دی، تودوسرے نے کہا ''دی'' تو نکاح منعقد نہ ہوگا کیونکہ یہ پہلے کا کلام، طلب خبر ہے اور طلب وعدہ ہے لہذا ا س کلام سے دوسرا پہلے وکیل نہ ہوسکے گا۔ مگر یہ کہ پہلے نے اپنی کلام سے تحقیق عقد (مجازی معنٰی) مراد لیا ہو تو نکاح ہوجائے گا اور استفہام کا حقیقی معنی استفسار اور منگنی واستخبار ہو تو نکاح نہ ہوگا۔ (ت)
(۱؎ خزانۃ المفتین کتاب النکاح قلمی نسخہ ۱/۷۶)
وجیز امام کردری میں ہے:
قال لہ دختر خود فلانہ رابمن دہ فقال دادم وھی صغیرۃ انعقد وان لم یقل قبلت لانہ توکیل ولو قال بمن دادی لا، الا اذا قال دادم وقال الزوج پذیر فتم، الا اذا اراد بدادی التحقیق ۲؎۔
ایک نے دوسرے سے کہا کہ اپنی فلاں لڑکی مجھے دے، تو دوسرے نے جواب میں کہا میں نے دی، تو نابالغہ لڑکی ہو تونکاح ہوجائیگا اگرچہ پہلے نے اس کے بعد ''میں نے قبول کی'' نہ کہا ہو کیونکہ''اپنی لڑکی دے'' کہنا دوسرے کو وکیل بنانا ہے، اور اگر پہلے نے یہ کہا ہو کہ ''تونے مجھے دی'' تو پھر نکاح نہ ہوگا مگر اس صورت میں جب دوسرے نے ''میں نے دی'' کہا اور پہلے نے اس کے جواب ''میں نے قبول کی'' کہا ہو، ہاں اگر پہلے نے دادی کے لفظ سے استفہام کی بجائے تحقیق عقد مرادلی ہو۔ (ت)
منگنی پوچھنے والا جب تک لڑکی کے باپ کے جواب کے بعد ''میں نے قبول کی'' نہ کہے گا نکاح نہ ہوگا، مگر یہ کہ اس کے اس کہنے ''مجھے تونے اپنی لڑکی دی'' سے مراد منگنی نہ ہو بلکہ تحقیق مراد ہے الخ (ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب النکاح الباب الثانی نورانی کتب خانہ پشاور ۱/۲۷۱)
ذخیرۃ العقبی میں ہے:
قولہ دادی استخبار فلایثبت التوکیل بہ نعم اذا ارید بقولہ دادی التحقیق دون السوم ینعقد النکاح وان لم یقل الخا طب پذیر فتم الخ ۲؎۔
ایک کاکہنا ''تونے دی'' یہ طلب خبر ہے اس سے توکیل ثابت نہ ہوگی، ہاں اگر ''تونے دی'' سے مراد منگنی کی بجائے تحقیق ہوتو نکاح ہوجائے گا اگرچہ بعد میں یہ کہنے والا ''میں نے قبول کی'' نہ کہے الخ (ت)
(۲؎ ذخیرہ عقبٰی کتاب النکاح نولکشور کانپور ۲/۱۷۶)
یہی محل ہے اس فرع ذخیرہ و ہندیہ کا:
قیل لامرأۃ خویش رازن من کردی فقالت کردم ینعقد النکاح وکذالوقال خویش رازن من گردانیدی فقالت گردانیدم ۳؎۔
اگر کسی عورت کو یہ کہا گیا تونے اپنے کو میری بیوی کردیا تو عورت نے کہا ''میں نے کردیا'' تو نکاح منعقد ہوجائے گا، اور یونہی اگر کسی نے عورت کو کہا تونے اپنے کو میری بیوی بنادیا، تو عورت نے کہا ''میں نے بنا دیا'' نکاح ہوجائے گا (ت)
(۳؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب النکاح الباب الثانی نورانی کتب خانہ پشاور ۱/۲۷۱)
اور اس فرع محیط وہندیہ کا:
سئل نجم الدین عمن قال لامرأۃ خویشتن را بہزاردرم بمن بزنی دادی فقالت بالسمع والطاعۃ قال ینعقد النکاح ولو قالت سپاس دارم لاینعقد لان الاول اجابۃ والثانی وعد ۱؎۔
نجم الدین سے سوال کیا گیا کہ جس نے کسی عورت کو کہا کہ تونے اپنے کو ہزار مہرکے بدلے میری بیوی کردیا تو عورت نے جواب میں کہا ''سناا ور اطاعت کی'' تو انھوں نے فرمایا: نکاح منعقد ہوگیا، اور اگر عورت نے جواب میں یوں کہا ''پسند کرتی ہوں'' تو نکاح نہ ہوگا کیونکہ پہلا جواب قبولیت ہے اور دوسرا صرف وعدہ ہے۔ (ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب النکاح الباب الثانی نورانی کتب خانہ پشاور ۱/۲۷۱)
لاجرم قول فیصل یہ قرار پا یا کہ مدار کا مفہوم ومستفاد بنظر احوال وقرائن استعمال پر ہے۔ زید نے کہا تو نے اپنی بیٹی مجھے دی، عمرو نے کہا دی، اگر مجلس منگنی کی تھی منگنی ہوئی اورنکاح کی تھی تو نکاح ہوگیا۔
درمختار میں ہے:
وکذا (ای فی کونہ ایجابا قولہ) انا متزوجک اوجئتک خاطبا لعدم جریان المساومۃ فی النکاح اوھل اعطیتنیھا ان کان المجلس للنکاح فنکاح وان للوعد فوعد ۲؎۔
یوں ہی الفاظ ایجاب میں سے یہ بھی ہیں ''میں تجھ سے نکاح کرنا چاہتا ہوں'' یا ''میں پیغام نکاح دینے کے لیے آیا ہوں'' یا ''کیا تونے مجھے اپنی لڑکی دی''، ان صورتوں میں اگر مجلس نکاح ہے تو نکاح قرار پائے گا اور اگر یہ مجلس منگنی ہو تو منگنی قرار پائے گی، کیونکہ نکاح میں بھاؤ جاری نہیں ہوتا (صرف منگنی یا نکاح ہوتاہے) (ت)
(۲؎ درمختار کتاب النکاح مجتبائی دہلی ۱/۱۸۵)
شرح مختصر الطحاوی للاسبیحابی پھر شرح قدوری للزاہدی پھر انقرویہ وواقعات المفتین میں ہے:
قال لہ ھل اعطیتنیھا فقال اعطیت فان کان المجلس للوعد فوعد وان کان لعقد النکاح فنکاح ۳؎۔
ایک نے دوسرے کو کہا تونے اپنی لڑکی مجھے دی ہے تو دوسرے نے کہا میں نے دی، تو اگر یہ مجلس نکاح ہو تو نکاح ہوگا اور مجلس منگنی ہو تو منگنی ہوگی (ت)
(۳؎ فتاوٰی انقرویہ کتاب النکاح دارالاشاعۃ العربیہ قندھار افغانستان ۱/۳۳)
فتح القدیر وردالمحتار میں ہے:
لما علمنا ان الملاحظۃ من جہۃ الشرع فی ثبوت الانعقاد ولزوم حکمہ جانب الرضی عدّینا حکمہ الی کل لفظ یفید ذٰلک بلا احتمال مسا و للطرف الاٰخر فقلنا لوقال بالمضارع ذی الھمزۃ اتزوجک فقالت زوجت نفسی انعقد وفی المبدوء بالتاء تزوجنی بنتک فقال فعلت عند عدم قصد الاستیعاد لانہ یتحقق فیہ ھذا الاحتمال بخلاف الاول لانہ لایستخبر نفسہ عن الوعد واذاکان کذالک والنکاح مما لایجری فیہ المساومۃ کان للتحقیق فی الحال فانعقد بہ لاباعتبار وضعہ للانشاء بل باعتبار استعمالہ فی غرض تحقیقہ واستفادۃ الرضی منہ حتی قلنا لوصرح بالاستفہام اعتبر فھم الحال، قال فی شرح الطحاوی لوقال ھل اعطیتنیھا فقال اعطیت ان کان المجلس للوعد فوعد وان کان للعقد فنکاح ۱؎ اھ۔
جب ہمیں معلوم ہوا کہ نکاح کے منعقد ہونے اور اس حکم کے لازم ہونے میں شریعت نے رضا والے پہلوکا لحاظ کیا ہے۔ توہم نے اس پر نکاح کے حکم کوایسے الفاظ تک پھیلایا جورضا کے اظہار کا فائدہ دے سکتے ہیں بشرطیکہ یہ رضا کے خلاف کا مساوی طور پر احتمال نہ رکھتے ہوں، اس لیے ہم نے یہ کہا کہ اگر کسی نے مضارع واحد متکلم کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے یوں کہا''میں تجھ سے نکاح کرتا ہوں'' تو عورت نے اس کے جواب میں کہا ''میں نے اپنا نکاح کیا'' تونکاح ہوجائے گا اگر کسی نے مضارع واحد مخاطب کے صیغہ کواستعمال کیا ا ور یوں کہا ''تواپنی بیٹی مجھ سے نکاح کردے گا'' توجواب میں دوسرے نے کہا ''میں نے کردیا'' جب اس سے وعدہ کا ارادہ نہ ہو تویہ الفاظ بھی چونکہ رضامندی کا احتمال رکھتے ہیں اس لیے نکاح ہوجائے گا، ا سکے بخلاف پہلی صورت میں وعدہ کا احتمال نہیں کیونکہ خود متکلم مضارع کے صیغہ سے اپنی ذات کے بارے میں وعدہ کی خبر نہیں دیتا، جب یہ معاملہ ہے تواس صورت میں فی الحال نکاح کوقائم کرنا مقصود ہے تواسی وقت نکاح ہوجائے گا، کیونکہ نکاح میں مذکورہ الفاظ سے بھاؤتومراد نہیں ہوسکتا، توایسے الفاظ سے نکاح کا انعقاد اس لیے نہیں کہ یہ الفاظ نکاح کے لیے وضع ہیں بلکہ اس لیے کہ ان الفاظ کا استعمال مقصد کوحاصل کرنے کی غرض سے کیا گیا اور ان سے رضامندی کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ حتی کہ ہم یہ کہیں گے اگر کسی نے ان الفاظ سے صراحۃً استفہام مراد لیا توپھر حال کا اعتبار کیا جائے گا، طحاوی کی شرح میں فرمایا کہ اگر کسی نے دوسرے کوکہا: ''کیا تونے اپنی بیٹی مجھے دی ہے'' تودوسرے نے جواب میں کہا کہ ''میں نے دی ہے'' تواس صورت میں اگر مجلس منگنی ہوتویہ منگنی ہوگی اور یہ مجلس نکاح ہوتونکاح ہوگاا ھ (ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب النکاح داراحیاء التراث العربی بیروت ۲/۲۶۴)