فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح) |
مسئلہ ۸: ا ز رامپور افغاناں فرنگن محل بزریہ ملا ظریف مرسلہ مولوی علیم الدین صاحب چاٹگامی ۲۵ جمادی الاولٰی ۱۳۱۸ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس باب میں کہ اس ملک بنگالہ میں زمانہ قدیم سے درمیان عوام بلکہ اکثر خواص کے بھی یہی دستور ہے کہ بعد خواستگاری اور قول اقرار مربّیان طرفین اور قبل ایجاب وقبول کے مخطوبہ کو بعد ضیافت براتیان کے مکان میں لاکر اس طور پر نکاح کراتے ہیں کہ چندمربّیان عاقدین بالغین وچند بزرگان مجلس کی اجازت سے ایک شخص کواس مجلس والے وکیل مخطوبہ قرارد ے کر اور دو گواہ یا تین چار گواہ کوا س وکیل کے ساتھ کرکے دولھا کی مجلس سے مخطوبہ کے پاس جو قریب پردہ کے اندر بیٹھی ہوئی ہے روانہ کرتے ہیں اب یہ وکیل مخطوبہ کے قریب گواہوں کے ساتھ جاکر مخطوبہ سے اس طرح قبول کراتا ہے کہ اے فاطمہ، زید کی بیٹی! تو نے بکر کو جو خالد کا پسر ہے اس قدر مہر پر جو اس کے اوپر واجب الادا ہوگا اپنی زوجیت میں قبول کیا، تو فاطمہ بآواز بلند کہتی ہے کہ میں نے قبول کیا، یافقط "قبول کیا" کہہ دیا، اور اس قبول مخطوبہ کو گواہان نے بھی سن لیا ا ب پھر وہ وکیل خاطب کی مجلس میں اپنے گواہان کے ساتھ حاضر ہوتا ہے تو جو قاضی عقد کرانے کو دولھا کے پاس بیٹھا ہے وہ اس وکیل سے سوال کرتا ہے کہ تو کون ہے، تو وہ وکیل جواب دیتا ہے کہ میں فاطمہ مخطوبہ کا وکیل ہوں، تو قاضی دریافت کرتا ہے کہ توکیا جانتا ہے تو وہ عرض کرتا ہے کہ فاطمہ دختر زید نے بکر پسر خالد کو اپنی زوجیت میں قبول کیا ہے اور میں نے قبول کرایا ہے، پھر قاضی سوال کرتا ہے کہ تمھارا کوئی گواہ بھی ہے تو وکیل اپنے گواہوں کی طرف اشارہ کرکے بیان کرتا ہے کہ یہ لوگ گواہ موجود ہیں تو قاضی پھر ان گواہوں کی طرف متوجہ ہوکر ہر ایک گواہ سے الگ الگ سوال کرتا ہے اور گواہ لوگ اپنی سماعت بیان کرتے ہیں یعنی فاطمہ نے بکرکو قبول کیا، اب جب قاضی کو سماعت شہادت سے فراغت ہوئی تو بہ تعلیم قاضی یا خود وکیل مذکور بکر کو قبول کراتا ہے کہ تونے فاطمہ دختر کو اس قدر (سور وپے یا ہزار مثلاً) مہر اپنے ذمہ لے کر قبول کیا یا" قبلت" تو بکر اقرار کرتا ہے کہ میں نے ہندہ کو قبول کیا یا فقط قبول کیا یا "قبلت" کہہ دیاپھر قاضی خطبہ وغیرہ پڑھ کر مجلس عقد ختم کردیتا ہے تو اب صورت مذکورہ میں فاطمہ اور بکر کانکاح منعقد ہو ایا نہیں، برتقدیر اول بعض علماء کو یہ شبہہ ہے کہ یہ وکیل مذکور نہ تو خاطب کی طرف سے مقرر ہو انہ مخطو بہ کی طرف سے، حالانکہ یہ دونوں بالغ ہیں اور بالغ کا نکاح بلااذن عاقدین کیونکر ہوسکتا ہے، اور برتقدیر ثانی ہزاروں آدمی حرامزادے قرارپاتے ہیں، اور یہ ایجاب وقبول مذکور کیا قرار پائیں گے، کیا نکاح مذکور بالکل معدوم قرار دیا جائے گا۔ کیا نکاح فضولی سے خارج ہوگیا، بینوا توجروا۔
الجواب: اس مسئلہ میں ابانت جواب اور بتوفیقہ تعالٰی اصابت صواب محتاج نظر غائر وفکر دقیق۔
فاقول وبا للہ التوفیق تحقیق مقام یہ ہے کہ سفیر مذکور جسے وہ عوام وکیل مخطوبہ ٹھہراتے ہیں اس کا مخطوبہ وخاطب دونوں سے خطاب مذکور بصورت استفہام ہے اگرچہ حرف استفہام مقدر ہے اور استفہام وعقد اقسامِ انشاسے دوقسم متبائن ہیں تو جہاں حقیقت استفہام مقصود ومفہوم ہو وہ کلام ایجاب یا قبول نہیں قرار پاسکتا ہاں اگر صورۃً استفہام اور معنیً تحقیق عقد مستفاد ہو تو ایجاب یا توکیل متصور ہوگا مگر اس کے لیے قیام قرینہ درکار کما ھو شان کل مجاز (جیسا کہ ہر مجاز کا تقاضا ہے۔ ت) ولہذا علماء فرماتے ہیں اگر زید نے عمرو سے کہا تو نے اپنی بیٹی میرے نکاح میں دی اس نے کہا ''دی'' یا ''ہاں'' نکاح نہ ہوگا جب تک زید اس کے جواب میں ''میں نے قبول کی'' نہ کہے،
تنویر الابصار و درمختار میں ہے:
لو قال رجل لاٰخر زو جتنی ابنتک فقال الاٰخر زوجت اوقال نعم مجیبا لہ لم یکن نکاحا مالم یقل الموجب بعدہ قبلت لان زوجتنی استخبار ولیس بعقد بخلاف زوجنی لانہ توکیل ۱؎۔
اگر ایک شخص نے دوسرے سے کہا کہ تو نے اپنی بیٹی مجھے نکاح کردی، دوسرے نے جواب میں کہاکہ نکاح کردی، یا ''ہاں'' کہہ دیا تو نکاح نہ ہوگا جب تک ایجاب کرنے والا بعد میں یہ نہ کہے کہ میں نے قبول کی، کیونکہ پہلے کا یہ کہنا کہ تونے اپنی بیٹی مجھے نکاح کردی، یہ صرف طلبِ خبر ہے عقد نکاح نہیں ہے، اس کے برخلاف اگرپہلا یہ کہتا کہ تومجھے نکاح کردے، تو اس سے دوسرا وکیل بن جاتا اورا س کا''نکاح کردی'' کہنے سے نکاح ہوجاتا۔ (ت)
(۱؎ درمختار شرح تنویر الابصار کتاب النکاح مطبع مجتبائی دہلی ۱/۱۸۷)
خلاصہ وخزانۃ المفتین میں ہے: خلاصہ وخزانۃ المفتین میں ہے:
رجل قال لاٰخر دختر خویش فلانہ مرادہ بزنی فقال دادم وھی صغیرۃ ینعقد النکاح وان لم یقل الزوج قبلت ولوقال دادی لایجوز اذا قال دادم مالم یقل الزوج پذیر فتم۱؎ الخ۔
ایک شخص نے دوسرے کو کہا تو اپنی فلاں لڑکی مجھے بیوی کے طور دے دے، تو دوسرے نے کہا میں نے دی، اس صورت میں اگر وہ لڑکی نابالغہ ہو تو پہلے کے "قبلت" (میں نے قبول کی) کہے بغیر نکاح ہوجائے گا۔ اور پہلے نے یہ کہا کہ تونے مجھے دی ہے تو دوسرے کے ''دے دی'' کہنے سے نکاح نہ ہوگا جب تک پہلا ''میں نے قبول کی'' نہ کہے الخ (ت)
(۱؎ خلاصۃ الفتاوٰی کتاب النکاح مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۲/۴) (خزانۃ المفتین کتاب النکاح قلمی نسخہ ۱/۷۶)
فتاوٰی امام قاضی خان وہندیہ میں امام ابوبکر محمد بن عقیل الفضل سے ہے:
اذا قال لاب البنت زوجتنی ابنتک فقال زوجت اوقال نعم لایکون نکاحا الاان یقول لہ الرجل بعد ذٰلک قبلت لان زوجتنی استخبار ولیس بعقد بخلاف قولہ زوجنی لانہ توکیل ۲؎ اھ باختصار۔
جب ایک شخص نے لڑکی کے باپ کو کہا کہ تونے اپنی بیٹی مجھے نکاح کردی، تو دوسرے نے جواب میں کہا میں نے نکاح کردی یا ''ہاں'' کہا تو نکاح نہ ہوگا مگر یہ کہ بعد میں پہلا شخص ''میں نے قبول کی'' کہہ دے تو نکاح ہوجائیگا کیونکہ ''تونے نکاح کی'' کا لفظ خبر کے حصول کے لیے ہے اور عقد نکاح نہیں ہے، اس کے بخلاف اگر پہلا یوں کہتا ہے کہ ''تو مجھے نکاح کردے'' تو بطور توکیل نکاح ہوجاتا ہے اھ اختصاراً (ت)
(۲؎فتاوٰی قاضی خاں کتاب النکاح نولکشور لکھنؤ ۱/۱۴۹)
نیز خانیہ میں ہے:
رجل قال لغیرہ بالفارسیۃ دختر خویش را مرادادی فقال دادم لایکون نکاحا۔ ۳؎
ایک شخص نے دوسرے کو فارسی میں کہا کہ تونے اپنی لڑکی مجھے دی، تو جواب میں دوسرے نے کہا دے دی، تو نکاح نہ ہوگا۔ (ت)
( ۳؎ فتاوٰی قاضی خاں کتاب النکاح نولکشور لکھنؤ ۱/۱۴۹)
اسی طرح کتب معتبرہ کثیرہ میں ہے، یہ اصل استفہام کا حکم ہے،
فالا طلاق انما ھو بالنظر الی الحقیقۃاما لو اطلقت عہ فھی مقیدۃ حقیقۃ بما اذا لم یرد بہ التحقیق۔
کلام میں اطلاق حقیقی معنٰی کے لحاظ سے ہوتا ہے اور اگر عام کر دیا جائے تو پھر اس وقت حقیقی معنٰی مراد لینے کے لیے مجازی معنٰی (تحقیق عقد) مراد نہ ہونے کی قید ضرور ہوگی۔ (ت)
(عہ ای جعلت الکلام مطلقا شاملا للحقیقۃ والمجاز وبالجملۃ فالتقیید موجب للاطلاق والاطلاق موجب للتقیید فافھم ۱۲ منہ ـ غفرلہ۔ (م)
یعنی کلام کو اطلاق پر رکھ کر عام کردیا جائے یوں کہ حقیقت اور مجاز دونوں کو شامل ہو۔ خلاصہ یہ کہ کلام کو حقیقت سے مقید کرنا، دلالت میں اطلاق کو چاہتا ہے، اور کلام کو عام کرنا (حقیقت ومجاز کو شامل کرنا) عدم جواز کی قید کو چاہتا ہے، غور کرو۔ ۱۲منہ غفرلہ (ت)