Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح)
14 - 1581
قال ط قولہ فمقتضاہ عدم الجواز قد یقال ان الوکیل فی النکاح وان تعدد سفیر ومعبر الحقوق ترجع الی الموکل فاذا لاضیر فی تعددہ لاسیما والزوج والمھر معلومان ویؤید ذٰلک ماذکرہ المص والشارح فی الوکالۃ حیث قالا الوکیل لایوکل الاباذن اٰمرہ الااذا وکلہ فی دفع زکاۃ فوکل اٰخر و الوکیل بقبض الدین اذا وکل من فی عیالہ والاعند تقدیر الثمن من المؤکل للوکیل فیجوز التوکیل بلااجازۃ لحصول المقصود اھ ففی مسئلتنا ھذہ تظھر ھذہ العلۃ و ھی کالمسئلۃ الاخیرۃ بجامع التعیین فی کل فتکون مستثناۃ فتعین الجواب الثانی فی الشرح فتأمل ۱؎ اھ مافی ط۔
اس پر طحطاوی نے فرمایا کہ اس کا قول، عدم جواز چاہئے، اس پر یوں کہا جا سکتا ہے کہ نکاح کا وکیل صرف سفیر اور معبر ہوتا ہے، وہ اگر متعدد بھی ہوں تو حقوق صرف مؤکل کی طرف راجح ہوتے ہیں، تو یہ زیادہ بھی ہوں تو کوئی مضر نہیں خصوصاً جبکہ لڑکی کو خاوند اور مہر کا علم ہوجائے، اس کی تائید مصنف اور شارح کے اس بیان سے ہوتی ہے جو انھوں نے وکالت کی بحث میں ذکر کیا ہے جہاں پر انھوں نے فرمایا کہ وکیل بغیر اجازت دوسرا وکیل نہیں بنا سکتا مگر جب کسی وکیل نے زکوٰۃ دینے کے لیے کسی کو اور قرض وصول کرنے میں وکیل نے اپنے عیال کو اور وکیل کے لیے موکل کی طرف سے ثمن طے کردینے کے بعد کسی دوسرے کو وکیل بنایا تو بلااجازت یہ وکالت جائز ہوگی کیونکہ اس سے مقصد پورا ہوجا تا ہے اھ تو ہمارے اس مسئلہ میں بھی یہی علت ظاہر ہوئی اور یہ آخری مسئلہ کی طرح ہے کہ ان میں جامع علت مقصد کی تعیین ہے اس لیے یہ مستثنٰی قرار پائے گا۔ اور شارح کا جواب ثانی متعین ہوجائے گا، غور کر۔ طحطاوی کابیان ختم ہوا۔ (ت)
 (۱؎ حاشیہ الطحطاوی علی الدرالمختار کتاب النکاح باب الولی دارالمعرفۃ بیروت        ۲/۳۰۔ ۲۹)
اور اگر بحالت استیذان غیر اقرب سکوت ہوا تو روایت امام کرخی رحمہ اللہ تعالٰی موجود کہ مطلقا سکوت کافی ہے۔
فی ردالمحتار تحت قولہ استأذنہا غیر الاقرب فلاعبرۃ لسکوتھا الخ وعن الکرخی یکفی سکوتھا فتح اھ ۲؎۔
ردالمحتار میں ''لڑکی سے اجازت حاصل کرے کوئی غیر اقرب شخص، توا س صورت میں لڑکی کے سکوت کا اعتبار نہیں الخ'' کے تحت فرمایا، امام کرخی سے ایک روایت میں ہے کہ اس کا سکوت رضا مندی کے لیے کافی ہے فتح اھ (ت)
 (۲؎ ردالمحتار        کتاب النکاح     باب الولی            داراحیا ء التراث العربی بیروت    ۲/۳۰۱)
مقاصد شرع سے ماہر خوب جانتاہے کہ شریعت مطہرہ رفق وتیسیر فرماتی ہے نہ معاذاللہ تضییق وتشدید، ولہٰذا جہاں ایسی دقتیں واقع ہوئیں علمائے کرام انھیں روایات کی طرف جھکے ہیں جن کی بناء پر مسلمان تنگی سے بچیں۔
ردالمحتار کی کتاب الحدود میں ہے:
ھو خلاف الواقع حرج عظیم لانہ یلزم منہ تاثیم الامۃ ۳؎۔
یہ لوگوں میں مروج کے خلاف ہے اور بہت بڑا حرج ہے کیونکہ اس سے پوری امت کو گنہگار ٹھہرانا لازم آتا ہے۔ (ت)
 (۳؎ ردالمحتار         کتاب الحدود     مطلب  فیمن وطی من زفت الیہ  داراحیا ء التراث العربی بیروت       ۳/۱۵۵)
اسی کی کتاب الحظر میں ہے:
ھوارفق باھل ھذا الزمان لئلا یقعوا فی الفسق والعصیان ۱؎۔
یہ بات موجودہ زمانہ کے لوگوں کے لیے بڑی رعایت ہے تاکہ وہ فسق وگناہ میں مبتلا نہ قرار پائیں۔ (ت)
 (۱؎ ردالمحتار    کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی اللبس        داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵/۲۲۵)
اسی کی کتاب البیوع میں ہے:
لایخفی تحقق الضرورۃ فی زماننا ولاسیما فی مثل دمشق الشام، فانہ لغلبۃ الجھل علی الناس لایمکن الزامھم بالتخلص باحد الطرق المذکورۃ وان امکن ذٰلک بالنسبۃ الٰی بعض افراد الناس لایمکن بالنسبۃ الٰی عامتھم وفی نزعھم عن عادتھم حرج وما ضاق الامر الا اتسع ولایخفی ان ھذا مسوغ للعدول عن ظاھر الروایۃ کما یعلم من رسالتنا المسماۃ نشرالعرف فی بناء بعض الاحکام علی العرف فراجعھا ۲؎ اھ ملخصا۔
ہمارے زمانہ میں اس ضرورت کاپایا جانا واضح ہے خصوصاً شام میں دمشق جیسے شہر کے لیے کیونکہ لوگوں میں جہالت کے غلبہ کی وجہ سے ان کو مذکورہ طریقوں میں سے کسی طریقہ سے باز رہنے کا پابند نہیں کیا جاسکتا، اگرچہ بعض لوگوں کو پابند بنانا ممکن ہے مگر عام لوگوں کے لیے یہ ممکن نہیں ہے جبکہ عوام کو ان کی عادت سے منع کرنا ان کے لیے تنگی کا باعث ہے، اور جہاں معاملہ تنگ ہوتاہے تو وہ وسعت کا باعث ہوتاہے، اور یہ بات مخفی نہ رہے کہ ظاہر روایت سے اختلاف کی وجہ یہی چیز ہوتی ہے جیسا کہ ہمارے رسالہ ''نشر العرف فی بناء الاحکام علی العرف'' سے معلوم کیا جاسکتا ہے، تو اس کی طرف متوجہ ہونا چاہئے، اھ، ملخصاً۔ (ت)
 (۲؎ ردالمحتار    کتاب البیوع مطلب فی بیع الثمر والزرع الخ   داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴/۳۹)
پس روشن ہوگیا کہ اگر روایت عصام وکرخی ہی پر مسلمانوں کا ان سخت آفتوں سے بچانا منحصر ہوتا تو انھیں پر بنائے کار چاہئے تھی نہ کہ مذاہب صحیحہ مشہورہ معتمدہ پر بالیقین یہ نکاح جائز ونافذ ہوں پھر بزور زبان یہاں کے عام مسلمان مردوں ، مسلمان عورتوں، خدا کے پاکیزہ بندوں، ستھری بندیوں کو معاذاﷲ زانی و زانیہ و اولاد الزنا قرار دیا جائے، ایسی ناپاک جرأت نہ کرے گا مگر سخت ناخدا ترس۔
یعظکم اﷲ ان تعود والمثلہ ابدا ان کنتم مؤمنین ۳؎۔
اللہ تمھیں نصیحت فرماتا ہے کہ پھر ایسا نہ کہنا اگر ایمان رکھتے ہو۔ (۳؎ القرآن    ۲۴/۷۱)
اور اس کے باقی ہذیانات کہ ولد حلال وحرام کی تمیز چنیں وچناں  ہے کلمات جنوں سے بہت مشابہ جو بشدت اہوال قابل جواب نہیں البتہ اس قدر ضرور ہے کہ اس طریقہ نکاح میں ایک بے احتیاطی ہے جس کے باعث بعض دقتوں میں پڑنے کا احتمال تو اہل اسلام کو ہدایت چاہئے کہ اس سے باز آئیں، تین باتوں سے ایک اختیار کریں:
اولاً سب سے بہتر یہ ہے کہ جس سے نکاح  پڑھوانا منظور ہے عورت سے خاص اسی کے نام اذن طلب کریں اور ہمیشہ ہر طریقہ میں ملحوظ خاطر رہے کہ اذن لینے والا یا تو ولی اقرب یا اس کا وکیل یا رسول ہو یا عورت سے صراحۃً ''ہوں'' کہلوالیں، مجرد سکوت پر قناعت نہ کریں، اور بعض احمق جاہلوں میں جو بدستور سنا گیا ہے کہ دلہن کے سر سے بلاٹالنے کوپاس بیٹھنے والیوں میں سے کوئی ''ہوں'' کہہ دیتی ہے اس کا انسداد کریں۔
ثانیًا وکالت دوسرے ہی کے نام کرنا چاہیں تویوں سہی کہ جس طرح دلھن سے اس کی وکالت کا اذن مانگیں یونہی اسے اختیار توکیل دینا بھی طلب کریں یعنی کہیں تو نے فلاں بن فلاں بن فلاں کو فلاں بن فلاں بن فلاں کے ساتھ اس قدر مہر پر اپنے نکاح کا وکیل کیا اور اسے اختیار دیا کہ چاہے خود پڑھائے یا دوسرے کو اپنا نائب بنائے، دلھن کہے ''ہوں''

ثالثاً اگریہ بھی نہ ہو اور دوسرے ہی شخص نے وکیل کے سامنے نکاح پڑھایا تو جب وہ پڑھاچکے وکیل فوراً اپنی زبان سے اتنا کہہ دے کہ میں نے اس نکاح کو جائز کیا۔ اور اس کہنے میں تاخیر نہ کرے کہ مبادا ا س کے جائز کرنے سے دلھن کو خبر نکاح پہنچے اورا س کی ہم عمریں حسب عادت زمانہ اسے کچھ چھیڑیں اور وہ اپنی جہالت سے کوئی ایسی بات  کہہ بیٹھے جس سے یہ نکاح کہ اب نکاح فضولی تھا رد ہوجائے پھر وکیل تو وکیل خود دلھن کے جائز کئے بھی جائز نہ ہوگا فان الاجازۃ لاتلحق المفسوخ (کیونکہ فسخ شدہ نکاح کو بعد کی اجازت مفید نہیں ہے۔ ت) بخلاف ان تینوں شکلوں کے کہ بالکل اندیشہ ودغدغہ سے پاک ہیں۔
رہا زید کا کنگنے وغیرہ کو ذکر کرنا، وہ محض فضول کہ آخر یہ رسمیں کفر تو نہیں جن کے باعث نکاح نہ ہو۔ ہاں معاذاللہ اگر مرد یا عورت نے پش از نکاح کفر صریح کا ارتکاب کیا تھا اور بے تو بہ واسلام ان کا نکاح کیا گیا تو قطعاًنکاح باطل، اور اس سے جو اولاد ہوہوگی ولد الزنا، اس طرح اگر بعد نکاح ان میں کوئی معاذاللہ مرتد ہوگیا اوراس کے بعد کے جماع سے اولاد ہوئی تو وہ بھی حرامی ہوگی، اس کے سوا وہ کلمات جن پر فتاوٰی وغیر ہامیں خلافِ تحقیق حکم کفر لکھ دیتے ہیں اور وہ کلمات جن میں کوئی ضعیف مرجوع روایت بھی اگرچہ اور کسی امام کے مذہب میں عدم کفر کی نکل آئے ان کے ارتکاب سے گویا تجدید اسلام ونکاح کا حکم دیں مگر اولاد اولادِ زنا نہیں
فی الدرالمختار وغیرہ مایکون کفرا اتفاقا یبطل العمل والنکاح واولادہ اولاد زنا ومافیہ خلاف یؤمر بالتوبۃ والاستغفار وتجدید النکاح ۱؎ اھ، واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔
درمختار وغیرہ میں ہے جو چیز بالاتفاق کفر ہو اس کے ارتکاب سے عمل اور نکاح باطل ہوجاتا ہے اوراس کے بعد کی اولاد، ولدِ زنا ہوگی اور جس چیز کے کفر میں اختلاف ہو اس کے ارتکاب پر توبہ واستغفار اور تجدید نکاح کا حکم ہوگا اھ، واللہ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔ (ت)
 (در مختار کتاب الجھاد	باب المرتد مطبع مجتبائی دہلی 	۱/۳۵۹)
Flag Counter