Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح)
13 - 1581
ہمارے بلاد میں عام لوگوں خصوصاًشریفوں خصوصا اغنیاء میں اگرچہ یہ اکثر باتیں شب زفاف بلکہ مدت تک اس کے بعد بھی واقع نہیں ہوتیں۔ اور بوس وکنار ومساس وجماع جو اس شب ہوتے ہیں غالباً نہایت اظہار کراہت ونفرت کے ساتھ ہوتے ہیں جن کے باعث انھیں دلیل رضا ٹھہرانے میں دقت ہے مگراس میں شبہہ نہیں کہ شوہر کو شبِ زفاف تنہا مکان میں اپنے پاس آنے دینا اور اس خلوت پر سوا شرم کے کوئی اثر مترتب نہ ہونا یقینا ہوتاہے نکاح نافذ ہوجانے کے لیے اسی قدر بس ہے اوریہ امر قطعاً پیش از جماع واقع ہوتا ہے تو جماع بعد نفاذ ولزوم نکاح واقع ہوا اور اولاد حلال ہوئی بلکہ اگرمقاصد شرع مطہرہ اور اپنے بلاد کے حالات کو پیش نظر رکھ کر نگاہ دقیق فقہی سے کام لیجئے تو شب اول شوہر کو اپنے ساتھ جماع پر قدرت دینا بھی حقیقۃً رضا ہےاگرچہ بظاہر ہزار اظہار تنفر کے ساتھ ہوں کہ یہ کراہتیں جیسی ہوتی ہیں سب کو معلوم ہے حقیقۃً حال یوں منکشف ہو کہ اس مرد کی جگہ کسی اجنبی کو فرض کیجئے جس سے  اس کانکاح نہ کیا گیا اس وقت بھی ایسی ہی ظاہر کراہتوں پر قناعت کرکے بالآخر جماع پر قدرت دے دے گی، حاشا وکلاّ، تو صاف ثابت ہوا کہ یہ سب امور حقیقۃً قبول نکاح سے ناشی ہوتے بلکہ اس سے پہلے رخصت ہوکر جانا بھی اگرچہ بوجہ مفارقت اعزہ وخانہ مالوفہ نہایت گریہ وبکا کے ساتھ ہو انصافاً دلیل رضا ہے کہ اگر اسے اپنا شوہر ہونا پسند نہ کرتی اجنبی جانتی ہر گز زفاف کے لیے رخصت ہو کر اس کے یہاں نہ جاتی بلکہ اس سے بھی پہلے آرسی مصحف یعنی جلوہ کی رسم جہاں ہے بشرطیکہ عورت پہلے سے اس کے سامنے نہ آتی ہو وہ بھی دلیل قبول ہے کہ اگر غیر مرد سمجھتی زنہار منہ دکھانے پر راضی نہ ہوتی اسی طرح مٹھی کھلوانے وغیرہ کی رسمیں بھی کہ جلوہ سے بھی پیشتر ہوتی ہیں دلالت وعلامت قرار پاسکتی ہیں اور ان تمام باتوں میں بکروثیب یکساں ہیں کہ ان میں صرف مسئلہ سکوت میں فرق ہے باقی دلالتیں دونوں برابر ہیں
تبیین الحقائق میں ہے:
لافرق بینھما فی اشتراط الاستئذان والرضا وان رضا ھما قد یکون صریحا وقد یکون دلالۃ غیران سکوت البکر رضا دلالۃ لحیائھا دون الثیب ۱؎۔
باکرہ اور ثیبہ دونوں کا معاملہ اجازت طلب کرنے اور رضا حاصل کرنے میں مساوی ہے ہاں صرف اجازت کے موقعہ پر سکوت کے بارے میں فرق ہے کہ باکرہ کا سکوت اس کے حیاء کی وجہ سے رضا کی دلیل ہے مگر ثیبہ کے لیے نہیں۔ (ت)
 ( ۱؎ تبیین الحقائق    باب الاولیاء والاکفاء    المطبعۃ الکبرٰی الامیر یۃ مصر        ۲/۱۱۹)
غرض جب شرع سے قاعدہ کلیہ معلوم ہو لیا کہ جس فعل سے اس نکاح پر عورت کی رضا ثابت ہو اذن و اجازت ہے اور بنظر تحقیق وانصاف جب اس شخص اور مرد اجنبی کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں تو یہ امور دلیل رضا وقبول نکلتے ہیں تو نفاذ نکاح کاا نکار نہ کرے گا مگر جاہل بلکہ جب یہ طریقہ نکاح ہمارے بلاد میں عام طورپر رائج اور معلوم ہے کہ وکیل خود نہ پڑھا ئے گا بلکہ دوسرے سے پڑھوائے گا تو کہہ سکتے ہیں کہ ضمن اذن میں دوسرے کو اذن دینے کا بھی عرفاً اذن مل گیا
فان المعروف کا لمشروط کما ھو من القواعد المقررۃ والفقھیۃ
(جیسا کہ فقہی قواعد میں ہے کہ معروف مشروط کی طرح ہے (یعنی عرف میں مقررہ امور بغیر ذکر بھی معتبر ہوں گے۔ ت) اور وکیل کو جب اذن تو کیل ہوتو بیشک اسے اختیار ہے کہ خود پڑھائے یا دوسرے کو اجازت دے
فی الاشباہ لایوکل الوکیل الاباذن اوتعمیم ۲؎ الخ
 (اشباہ میں ہے کہ کوئی وکیل اپنا نائب وکیل مؤکل کی اجازت یا عمومی اختیار کے بغیر نہیں بنا سکتا ہے۔ ت)
 (۲؎ الاشباہ والنظائر    کتاب الوکالۃ    ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی    ۲/۶)
اس تقدیر پر یہ نکاح سرے سے نافذ ولازم واقع ہوا جس کی تنقیذ میں ان تدقیقات کی اصلاً حاجت نہ رہی مگریہ جب ہی کہہ سکیں گے کہ اس طریقہ نکاح کی شہرت ایسی عام ہو کہ کنواری لڑکیاں بھی اس سے واقف ہوں اورجانتی ہوں کہ وکیل خو د نہ پڑھائے گا دوسرے سے پڑھوائے گا۔
والالم یکن معروفا عند ھن فلایجعل کالمشروط فی حقہن تأمل وراجع مسئلۃ سعرالخبز وغیرہ فی البلد۔
ورنہ یہ لڑکیوں کے ہاں معروف نہیں ہوگا اس لیے ان کے حق میں مشروط کی طرح  نہ ہوگا، غور کرو اور شہر میں روٹی کے بھاؤ وغیرہ کے مسئلہ کی طرف رجوع کرو۔ (ت)
یہ سب اس تقدیر پر ہے کہ وکیل اصلی نے بعد نکاح کوئی کلمہ ایسانہ کہا جو اس نکاح کی اجازت ٹھہرے ورنہ خود اسی کے جائز کرنے سے جائز ہوجائے گا اگرچہ اسے اذن توکیل اصلاً نہ ہو۔
فی الاشباہ الوکیل اذا وکل بغیر اذن وتعمیم واجاز مافعلہ وکیلہ نفذ الاالطلاق والعتاق ۱؎۔
اشباہ میں ہے کہ اگر موکل کی اجازت کے بغیر یا عمومی اختیار حاصل کئے بغیر وکیل نے از خود دوسرا وکیل بنا لیا تو دوسرے وکیل کے لیے عمل کو پہلے وکیل نے جائز قراردیا تویہ عمل نافذ ہوجائے گا ماسوائے طلاق اور عتاق کہ ان میں نافذ نہ ہوگا۔ (ت)
 (۱؎ الاشباہ والنظائر        کتاب الوکالۃ         ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی    ۲/۱۱۔ ۱۰)
حموی میں ہے:
وکذا لو عقد اجنبی فاجاز الاول ۲؎۔
  یوں ہی اگر وکیل کے لیے کسی اجنبی نے عمل کیا تو وکیل نے اسے جائز قرار دیا۔ (ت)
(۲؎ غمز عیون البصائر شرح اشباہ والنظائر   کتاب الوکالۃ    ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی     ۲/۱۱)
غرض ہر طرح پیش از جماع ان نکاحوں کے نافذ اور لازم ہونے میں شبہہ نہیں تو اولاد قطعا اولاد حلال اور بالفرض ان باتوں سے قطع نظر کیجئے اور بتقدیر باطل ہی مان لیجئے کہ اصلا  ان امور سے کچھ واقع نہیں ہوتا تاہم جب ان بلاد میں عام مسلمین کو اس میں ابتلا ہے تو راہ یہ تھی کہ اس روایت پر عمل کریں جسے امام عصام نے اپنے متن میں اختیار فرمایا اور امام فقیہ النفس قاضی خاں نے اپنے فتاوٰی اور زاہدی نے قنیہ میں ا س پر جزم کیا اور علامہ سیدی احمد طحطاوی نے اس کی تائید کی یعنی وکیل بالنکاح جب دوسرے کو نکاح پڑھانے کی اجازت دے اور وہ اس کے سامنے پڑھادے تو نکاح جائز و نافذ ہوجائے گااگرچہ وکیل کواذن توکیل نہ ہو۔
اماروایۃ عصام فقد سمعت، واما الامام فقیہ النفس فقال فی وکالۃ الخانیۃ الوکیل بالتزویج لیس لہ ان یؤکل غیرہ فان فعل فزوج الثانی بحضرۃ الاول جاز ۱؎ اھ واما القنیۃ، ففی الدرلوا ستأذنھا فسکتت فوکل من یزو جھا ممن سماہ جازان عرفت الزوج والمھر کما فی القنیہ، واستشکلہ فی البحر بانہ لیس للوکیل ان یوکل بلااذن فمقتضاہ عدم الجواز او انھا مستثناہ ۲؎ اھ
 لیکن عصام کی روایت توآپ نے سن لی مگر امام فقیہ النفس (قاضی خاں) توانھوں نے خانیہ کے باب وکالت میں فرما یا کہ نکاح کے وکیل نے اگر کسی کو وکیل بنایا تو یہ اس کو جائز نہیں، اور بنالیا تو دوسرے نے اگر پہلے کی موجودگی میں  نکاح کیا توجائز  ہوگا اھ مگر قنیہ، تو د ر میں ہے کہ اگر وکیل نے لڑکی سے اذن لینا چاہا تو لڑکی خاموش رہی اور وکیل نے دوسرے شخص کو نامزد کیا تاکہ وہ اس لڑکی کا نکاح کرے تو لڑکی کو اگر زوج کا نام اور مہر معلوم ہوجائے تو اس دوسرے وکیل کا کیا ہوا نکاح جائز ہوگا۔ جیسا کہ قنیہ میں ہے اس پر بحر میں اشکال کیاکہ وکیل از خود دوسرا وکیل نہیں بنا سکتا، لہٰذ اس بنا پر دوسرے کا نکاح صحیح نہیں ہونا چاہئے، یا یہ صورت مستثنٰی قرار دی جا ئے اھ،
 (۱؎ فتاوٰی قاضی خاں    کتاب الوکالۃ    فصل فی التوکیل بالنکاح    نولکشور لکھنؤ         ۳/۵۸۰)

(۲؎ درمختار        کتاب النکاح    باب الولی        مطبع مجتبائی دہلی    ۱/۱۹۲)
Flag Counter