Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح)
12 - 1581
بہر حال مذہب راجح پر یہ نکاح نکاح فضولی ہوتے ہیں اور نکاح فضولی کو مذہب حنفی میں باطل جاننا محض جہالت وفضولی بلکہ باجماع ائمہ حنفیہ رضی اللہ تعالٰی عنہم منعقد ہوجاتا ہے اور اجازت اصیل پر (کہ یہاں وہ عورت ہے جس کے لیے بے اذن اس کا نکاح غیر وکیل نے کردیا) موقوف رہتا ہے اگر وہ اجازت دے نافذ ہوجائے اور رد کردے تو باطل۔
کما ھو حکم تصرفات الفضولی جمیعا عندنا کما صرح بہ فی عامۃ کتب المذھب۔
جیسا کہ فضولی کے تمام تصرفات کاہمارے ہاں حکم ہے جس کی تمام کتب مذہب میں تصریح ہے۔ (ت)
عالمگیری میں ہے:
لایجوز نکاح احد علی بالغۃ صحیحۃ العقل من اب اوسلطان بغیر اذنھا بکراکانت اوثیبا فان فعل ذٰلک فالنکاح موقوف علٰی اجازتھا فان اجازتہ جاز وان ردتہ بطل کذا فی السراج الوھاج ۱؎۔
عاقلہ بالغہ کی مرضی کے خلاف باپ یا حاکم کا کیا ہوا نکاح اس کی اجازت کے بغیر جائز نہیں ہوگا خواہ وہ عاقلہ بالغہ باکرہ ہو یا ثیبہ۔ اگر ایسا ہو توا س کی اجازت پر موقوف ہوگا۔ وہ جائز قرار دے تو جائز ہوگا ورنہ اگر رد کردے تو وہ نکاح باطل ہوجائے گا، سراج وہاج میں یوں ہی ہے۔ (ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ    کتاب النکاح    الباب الرابع فی الاولیاء    نورانی کتب خانہ پشاور    ۱/۲۸۷)
پھر اجازت جس طرح قول سے ہوتی ہے مثلاً عورت خبرنکاح سن کرکہے میں نے جائز کیا یا اجازت دی یا راضی ہوئی یا مجھے قبول ہے یا اچھا کیا یا خدا مبارک کرے الٰی غیر ذٰلک من الفاظ الرضا (علاوہ ازیں تمام وہ الفاظ جو رضا پر دلالت کرتے ہیں ۔ت)یوں ہی اس فعل یا حال سے بھی آگاہ ہو جاتی ہے جس سے رضامندی  سمجھی جائے مثلاً عورت اپنا مہر مانگے یا نقد طلب کرے یا مبارکباد لے یا خبر نکاح سن کر خوشی سے ہنسے یا مسکرائے یا اپنا جہیز شوہر کے گھر بھجوائے یااس کا بھیجا ہوا مہر لے لے یا اسے بلا جبر واکراہ اپنے ساتھ جماع یا بوس وکنار ومساس کرنے دے یا تنہا مکان میں اپنے ساتھ خلوت میں آنے دے یا اس کےکام خدمت میں مشغول ہو جبکہ نکاح سے پہلے اس کی خدمت نہ کیا کرتی ہو۔ ونحو ذلک من کل  فعل یدل علی الرضا (اوریونہی اس قسم کے تمام وہ افعال جو رضا مندی پر دلالت کرتے ہیں۔ ت) ان سب صورتوں میں وہ نکاح کہ موقوف تھا جائز ونافذ ولازم ہوجائے گا۔
عالمگیری میں ہے۔
کما یتحقق رضاھا بالقول کقولھا رضیت وقبلت واحسنت واصبت وبارک اﷲ لک اولناونحوہ یتحقق بالدلالۃ کطلب مھرھا ونفقتھا وتمکینھا من الوطی وقبول التھنئۃ والضحک بالسرور من غیر استھزاء کذا فی التبیین ۱؎۔
جیسا کہ، میں راضی ہوں، میں نے قبول کیا، تونے اچھا کیا، تونے درست کیا۔ اللہ تعالٰی تجھے برکت دے یاہمیں برکت دے جیسے الفاظ سے عاقلہ بالغہ کی رضامندی ثابت ہوتی ہے یوں ہی ان افعال سے دلالۃً رضا ثابت ہوگی مثلا مہر طلب کرنا، نفقہ طلب کرنا، وطی کی اجازت دینا، مبارکباد، قبول کرنا، خوشی سے ہنسنا وغیرہ، جیسا کہ تبیین میں ہے۔ (ت)
( ۱؎ فتاوٰی ہندیہ        کتاب النکاح الباب الرابع فی الاولیاء     نورانی کتب خانہ پشاور    ۱/۲۸۹)
اسی میں ہے:
وان تبسمت فھو رضا ھوالصحیح من المذھب ذکرہ شمس الائمۃ الحلوانی کذافی المحیط ۲؎۔
اگر وہ خوشی سے تبسم کرے تو وہ رضا ہے،یہی صحیح مذہب ہے۔ اس کو شمس الائمہ حلوانی نے ذکر کیا جیسا کہ محیط میں ہے۔ (ت)
 (۲؎ فتاوٰی ہندیہ        کتاب النکاح الباب الرابع فی الاولیاء     نورانی کتب خانہ پشاور     ۱/۲۸۷)
خانیہ میں ہے:
الرضا باللسان اوالفعل الذی یدل علی الرضا نحوا لتمکین من الوطی وطلب المھر وقبول المھر دون قبول الھدیۃ وکذافی حق الغلام ۳؎۔
رضا زبانی اور عمل دونوں طرح ہوتی ہے یہ ان امور میں ہے جو رضا پر دلالت کریں۔ جیسے وطی کی اجازت، مہر طلب کرنا، مہر کو وصول کرلینا، بخلاف ہدیہ قبول کرنے کے کہ یہ نکاح پر رضامندی نہ ہوگی، لڑکے کے بارے میں بھی ایسا ہی ہے۔ (ت)
 (۳؎ فتاوٰی قاضی خاں    فصل فی شرائط النکاح        نولکشور لکھنؤ        ۱/۱۵۸)
حاشیہ طحطاویہ میں زیرقول درمختار وقبول التھنئۃ والضحک سرور  اونحوذٰلک (مبارک باد قبول کرنا، ہنسناخوشی میں وغیرہ۔ ت) ہے کامرھا بحمل جھازھا الی بیت الزوج ۴؎ (جیسے لڑکی کاجہیز کے سامان کو خاوند کے ہاں منتقل کرنے کا کہنا۔ ت)
 (۴؎ حاشیہ طحطاوی علی الدرالمختار    کتاب النکاح باب الولی        دارالمعرفۃ بیروت    ۲/۳۲)
ردالمحتارمیں ہے:
فی البحر عن الظھیریۃ لوخلاھا برضا ھا ھل یکون اجازۃ لاروایۃ لھذہ المسئلۃ وعندی ان ھذا اجازۃ اھ فی البزازیۃ الظاھر انہ اجازۃ ۱؎ اھ مافی الشامیۃ اقول ومن ھٰھنا زدت المس والتعانق والتقبیل لان الخلوۃ برضاھا لما کانت امارۃ الرضا فھذہ الافعال اجد ر واحری کمالایخفی۔
بحرمیں ظہیریہ سے منقول ہے کہ لڑکی کی رضامندی سے وہ شخص خلوت کرلے تو کیا یہ لڑکی کی طرف سے نکاح کو جائز قرار دینا ہے یا نہیں تو اس مسئلہ کی روایت نہیں ہے اور میرے نزدیک یہ اجازت ہے اھ، بزازیہ میں ہے کہ ظاہر یہی ہے کہ یہ اجازت ہوگی اھ شامی کی عبارت ختم ہوئی۔ اقول یہاں پر میں نے چھونا، معانقہ، بوسہ کو مزید بڑھایا کیونکہ جب خلوت رضاکی دلیل ہے تو یہ امور رضاپر دلیل ہونے میں زیادہ واضح ہیں جیسا کہ ظاہر ہے۔ (ت)
(۱؎ ردالمحتار        باب الولی        داراحیاء التراث العربی بیروت    ۲/۳۰۱)
حاشیتین علامہ طحطاوی وشامی میں ہے:
قولہ بخلاف خدمتہ ای ان کانت تخدمہ من قبل ففی البحر عن المحیط والظھیریۃ ولوأکلت من طعامہ اوخدمتہ کما کانت فلیس برضی دلالۃ ۲؎ا ھ۔
ماتن کے قول ''لڑکی کاخدمت کرنا'' اس کے خلاف ہے یعنی اگر لڑکی  نکاح سے پہلے اس شخص کی خادمہ تھی تو اس بارے میں بحر، محیط اور ظہیریہ سے منقول ہے کہ اگر لڑکی نے اس شخص کاکھانا کھایا یا اس کی خدمت کی تو یہ رضا پر دلیل نہ ہوگی اھ (ت)
 (۲؎ ردالمحتار        باب الولی        داراحیاء التراث العربی بیروت    ۲/۳۰۲

حاشیہ الطحطاوی علی الدرالمختار    کتاب النکاح    دارالمعرفۃ بیروت        ۲/۳۲)
Flag Counter