مگریہ اسی وقت ہے جبکہ ولی اقرب اس سے اذن لے ورنہ مجرد خاموشی اذن نہ ٹھہرے گی۔
فان استاذنھا غیر الاقرب کا جنبی او ولی بعید فلاعبرۃ لسکوتھا ۱؎ الخ۔
اگر باکرہ سے ولی اقرب کاغیر مثلاً کوئی اجنبی یا ولی بعید اجازت طلب کرے تو یہاں باکرہ کی خاموشی رضامیں معتبر نہیں الخ۔ (ت)
(۱؎درمختار باب الولی مطبع مجتبائی دہلی ۱/۱۹۲)
ا ور بیشک اکثر لوگ جو وکیل کئے جاتے ہیں اجنبی یاولی بعید ہوتے ہیں تو ایسی حالت میں اگر انھوں نے اذن لے لیا اور دوشیزہ نے سکوت کیا تو سرے سے انھیں کے لیے وکالت ثابت نہ ہوئی اور اگر اس نے صاف ''ہوں'' کہہ دیا یا ولی اقرب کے اذن لینے پر سکوت کیا تو اس کے لیے وکالت حاصل ہوگئی مگر وکیل بالنکاح کو شرعاً اتنا اختیار ہے کہ خود نکاح پڑھائے نہ کہ دوسرے کو پڑھانے کی اجازت دے جب تک ماذونِ مطلق یا صراحۃً دوسرے کو وکیل کرنے کا مجاز نہ ہو بغیر اس کے اگر اس نے دوسرے سے پڑھوایا توصحیح مذہب پر نکاح بلااذن ہوگا اگرچہ عقد اس کے سامنے ہی واقع ہو،
فی ردالمحتار عن العلامۃ الرحمتی عن العلامۃ الحموی عن کلام الامام محمد فی الاصل ان مباشرۃ وکیل الوکیل بحضرۃ الوکیل فی النکاح لاتکون کمبا شرۃ الوکیل بنفسہ بخلافہ فی البیع ۲؎ الخ
ردالمحتا رمیں علامہ رحمتی نے علامہ حموی کے حوالے سے اصل (مبسوط) میں ذکر شدہ امام محمد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا کلام نقل کیا ہے کہ نکاح میں خود وکیل کی موجودگی میں وکیل کی بات معتبر نہیں ہے، بیع کا معاملہ اس کے برخلاف ہے،
(۲؎ ردالمحتار باب الولی داراحیاء التراث العربی بیروت ۲/۳۰۰)
اقول نص الغمز عن الولوالجیۃ ھکذا لو وکل رجلافوکل الوکیل غیرہ وفعل الثانی بحضرۃ الاول فان کان بیعا اوشراء یجوز وماعدا البیع والشراء من الخصومۃ والتقاضی والنکاح والطلاق وغیر ذٰلک ذکر عصام فی مختصرہ انہ یجوز، وذکر محمد فی الاصل انہ لایجوز فانہ قال اذا فعل الثانی بحضرۃ الاول لم یجز الافی البیع والشراء وھو الصحیح ۱؎ اھ ملخصا،
اقول میں کہتا ہوں کہ غمز نے ولوالجیہ سے یوں نقل کیا ہے کہ اگر کسی نے کسی کو اپنا وکیل بنایا اور اگر دوسرے وکیل نے پہلے وکیل کی موجودگی میں عمل کیا توا یسی صورت میں اگر بیع وشراء کا معاملہ ہو توجائز ہے اوراس کے علاوہ دیگر امور مثلاً عدالتی مطالبہ، نکاح، طلاق وغیرہ ہوں توعصام نے اپنی مختصر میں ذکر کیا ہے کہ ان امور میں بھی اس کا عمل جائز ہے اور امام محمد رحمہ اللہ تعالٰی نے اصل میں ذکر کیا ہے کہ یہ جائز نہیں ہے تو یوں فرمایا کہ اگر دوسرا وکیل پہلے وکیل کی موجودگی میں عمل کرے توبیع وشراء کے علاوہ میں جائز نہیں ہے، اور یہی صحیح ہے اھ ملخصا،
(۱؎ غمزعیون البصائر شرح الاشباہ والنظائر کتاب الوکالۃ ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی ۲/۱۱)
فاذا کان ھذا ھو مفاد الاصل وقد ذیل بالتصحیح فانقطع الخلاف واضمحلت الروایۃ النادرۃ وسقط مافی الخانیۃ، فکیف بما فی القنیۃ وان ایدہ العلامۃ الطحطاوی وترکہ علامۃ البحر فی البحر والمحقق العلائی فی الدر مستشکلا ولاغرو فقد شہدت کلماتھم رحمھم اﷲ تعالٰی انہم لم یطلعوا اذ ذاک علی کلام الاصل، اصلاحیث لم یلموا بہ الماما ولااشموا منہ اشماما، ولکن العجب من خاتمۃ المحققین العلامۃ الشامی قدس سرہ السامی حیث اورد کلام الاصل ثم لم یسمح الاباستظہار عدم الجواز مریدا عدم النفاذ، اذ العقد عقد فضولی فکانہ اقتصر علی النقل عن العلامۃ مصطفی ولوراجع الغمز لرأی تصحیح الامام الولوالجی لما فی الاصل ومعلوم ان روایۃ الاصول اذا صححت سقطت کل روایۃ سواھا فکان السبیل الجزم دون مجرد الاستظھار، واﷲ ولی التوفیق۔
جب اصل (مبسوط) کا مفاد یہی ہے اور اسی ضمن میں اس کی تصحیح کردی گئی ہے توا س کا خلاف ختم اور نادر روایت کمزور ثابت ہوگئی اور خانیہ کا بیان ساقط ہوگیا۔ تو اب قنیہ کے بیان کی کیا حیثیت ہے اگرچہ علامہ طحطاوی نے اس کی تائید کی ہے اور پھر اس کو علامہ بحر نے بحر میں اور محقق علائی نے در میں باعث اشکال قراردیا ہے اور کوئی بعید نہیں ان حضرات نے اصل کے بیان پر اطلاع نہ پائی ہو جیسا کہ ان حضرات کے کلام سے عیاں ہو رہا ہے، کہ انھوں نے اصل کے مضمون کو چھوا تک نہیں ہے لیکن علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے بارے میں تعجب ہے کہ انھوں نے اصل کے بیان کو ذکر کرنے کے باوجود عدم جواز کے اظہار کے علاوہ کچھ تعرض نہ فرمایا حالانکہ وہ اس کے نفاذ کے خواہاں نہیں ہیں کیونکہ دوسرے وکیل کا نکاح میں یہ عقد فضولی ہے، معلوم ہوتا ہے کہ علامہ شامی نے علامہ مصطفی کی نقل کو کافی سمجھا اور اگر وہ غمز کی طرف رجوع کرتے تو امام ولوالجی کا اصل کی عبارت کو صحیح قرار دینا دیکھ لیتے ____ کیونکہ یہ بات مسلمہ ہے کہ جب اصول کی روایات کی تصحیح ہوجائے تو باقی تمام روایات ساقط قرار پاتی ہیں اس لیے مناسب تھا کہ علامہ شامی صرف اظہار کی بجائے اپنے جزم کو کلام میں لاتے، اور اللہ تعالٰی ہی توفیق کا مالک ہے۔ (ت)