فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۱(کتاب النکاح) |
اقول ومن علم الفقہ والحکمۃ فی اشتراط الشھادۃ فی عقد النکاح اتقن بھذا التوفیق فان من علم ان ھذا نکاح فقد شھد العقد وان لم یقف علی خصوص ترجمۃ الالفاظ ومن لم یفہم فکأن لم یسمع ومن لم یسمع فکأن لم یحضر وبتقریری ھذا یتضح لک ان الاجتزاء بذکر الحضور اوبہ وبالسماع اوذکر ھما مع الفھم کل یودی مودی واحدا عندالتدقیق واﷲ ولی التوفیق۔
اقول جس کو عقد نکاح میں گواہوں کے موجود ہونے کی شرط کی حکمت معلوم ہے وہ اس تطبیق کی توثیق کرے گا کیونکہ جس نے گواہوں میں سے یہ معلوم کرلیا کہ یہ نکاح ہے تونکاح کا گواہ اگرچہ اس نے الفاظ کا ترجمہ نہ سمجھا، اور جس کو نکاح کا فہم نہ ہوا گویا اس نے سنا ہی نہیں اور جس نے نہ سنا گویا وہ مجلس نکاح میں حاضر نہ ہوا۔ میری اس تقریر سے واضح ہوگیا کہ نکاح کے جواز میں صرف گواہوں کا حاضر ہونا، یا گواہوں کی حاضری اور سماع، یا ان دونوں کے ساتھ فہم کا ذکر حقیقۃً ان سب کا مقصد ایک ہی ہے، اور اللہ سبحانہ تعالٰی توفیق کا مالک ہے۔ (ت)
پس مسئلہ دائرہ میں جبکہ مرد وزن ان الفاظ سے قصد انشاء کریں اس کے ساتھ یہ بھی ضرور کہ دو شاہد بھی ان کی اس گفتگو کو عقدنکاح سمجھیں خواہ بذریعہ قرائن یاخود عاقدین کے مطلع کر رکھنے سے ورنہ اگر سب حضار نے اسے محض اخبار جانا تو ''فاھمین انہ نکاح'' صادق نہ آیا اور نکاح صحیح نہ ہوا۔
ھذا ما قلتہ تفقھا ثم رأیت فی ردالمحتار، قال حاصل مافی الفتح وملخصہ انہ لابد فی کنایات النکاح من النیۃ مع قرینۃ او تصدیق القابل للموجب وفھم الشھود المراد اعلامھم بہ۱؎ اھ فاتضح المرام والحمد ﷲ ولی الانعام ،
یہ میں نے اپنی سمجھ سے کہا پھرمیں نے ردالمحتار میں دیکھا انھوں نے فرمایا کہ فتح کا ماحاصل اور خلاصہ یہ ہے کہ کنایات نکاح میں نیت مع قرینہ، یاقبول کرنے والے کا ایجاب کرنے والے کی تصدیق کرنا اور گواہوں کا مراد سمجھنا یا ان کو بتایاجانا ضروری ہے اھ پس مقصد واضح ہوگیا اور اللہ تعالٰی مالک انعام کے لیے تعریف ہے
(۱؎ ردالمحتار کتاب النکاح داراحیاء التراث العربی بیروت ۲/۲۶۹)
اقول وینبغی ان یکون الاعلام قبل العقد کما اشرت الیہ لیکونا جامعی شرائط الشھادۃ عند العقد الاتری ان فاھمین فی کلامھم حال ولابد من مقارنۃ الحال والعامل واﷲ تعالٰی اعلم ھذا کلہ ممافاض علٰی قلب الفقیر بفیض القدیر والمولٰی تعالٰی اذا شاء الحق الجاھل العاجز بالماھر الخبیر والحمد ﷲ علٰی حسن التوفیق والھام التحقیق والصلٰوۃ والسلام علٰی سید العالمین محمد واٰلہٖ وصحبہ اجمعین۔
اقول گواہوں کو نکاح کے بارے میں پہلے بتانا مناسب ہے تاکہ وہ نکاح کے وقت شہادت کی شرائط پوری کرسکیں۔ جیسا کہ میں نے اشارہ کیا ہے، کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ فقہاء نے گواہوں کے فاہم ہونے کو حال قرار دیا ہے جبکہ حال اور اس کے عامل کا مقارن ہونا ضروری ہے اوراللہ تعالٰی بہتر جانتا ہے۔ یہ سب کچھ اس فقیر کے قلب پر فیضان ہوا مولٰی تعالٰی قادر کے فیض سے، جب اللہ تعالٰی چاہے تو وہ جاہل عاجز کو ماہر خبیر سے ملحق کردیتا ہے اور اللہ تعالٰی کے لیے سب تعریفیں ہیں اس کے اچھی توفیق دینے پر اور تحقیق کے الہام پر، محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سید العالمین پر صلوٰۃ وسلام اور ان کی آل واصحاب پر، آمین! (ت)
پھر جس حالت میں انعقادنکاح کا حکم ہو ذکر مہر کی کوئی حاجت نہیں کہ نکاح بے ذکر بلکہ بذکر عدم مہر بھی صحیح ومنعقد ہے کما نصوا علیہ (جیسا کہ اس پر انھوں نے تصریح کی ہے۔ ت) واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم وعلمہ تعالٰی اتم واحکم۔
رسالہ ماحی الضلالۃ فی انکحۃ الھند وبنجالہ (۱۳۱۷ھ) (بنگال اور ہندوستان میں نکاحوں کے بارے میں کوتاہی کو مٹانے والا) بسم اللہ الرحمن الرحیم
مسئلہ ۷: ۱۲ جمادی الاولٰی ۱۳۱۷ہجریہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ فی زمانہ جو کہ عقد ہوتے ہیں کہ ایک شخص غیر کو ولی ہندہ نے وکیل قرار دے کر اور دو شخص اور ہمراہ اس کے واسطے گواہی کے مقرر کرکے واسطے اجازت لینے نکاح کے ہندہ کے پاس بھیجے وہ شخص کسی کا سر اور کسی کا پاؤں کچلتا ہوا ہنگامہ مستورات میں جاکر قریب ہندہ کے بیٹھا اور یہ کلمات کہے کہ تو مجھ کو واسطے عقد اپنے کے وکیل کردے وہ بے چاری بباعث رواج اس ملک اور شرم کے کب گویا ہوتی ہے اکثر مستورات اس کو فہمائش کرتی ہیں مگر وہ نہیں جواب دیتی اور بعض بعض کچھ گریہ یا ''ہوں'' کا اشارہ کردیتی ہیں۔ بعد کو وکیل صاحب باہر تشریف مع دونوں گواہوں کے لاکر، دولھا کے روبرو آکر بیٹھتے ہیں اور داہنے دولھا کے ایک شخص اور، کہ دعوٰی قضا کا رکھتے ہیں اور پیشہ کفش دوزی یا خیاطی یا نور بافی کا کرتے ہیں وہ بھی بیٹھتے ہیں۔۔۔۔۔ جوکہ وکیل صاحب مع گواہوں کے تشریف لائے تھے وہ قاضی صاحب سے سلام علیک کرکے رو برو دولھا کے بیٹھ گئے، قاضی صاحب نے وکیل صاحب کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ آپ کا آنا کہاں سے ہوا، وکیل صاحب نے جواب اس کے، ارشاد کیاکہ دختر فلاں نے واسطے عقد اپنے کے مجھ کو وکیل مقرر کرکے بھیجا ہے اور میری وکالت کے یہ دونوں اشخاص گواہ ہیں آپ اس کا عقد نوشہ ہذا کے ساتھ کردیجئے۔ قاضی صاحب نے بعد طے ہونے گفتگو عقد اور تعین مہر مبلغ ایک لاکھ روپے اور بیس دینار سرخ سوائے نان نفقہ کے نوشہ کی طرف متوجہ ہو کر خیال کیا کہ کنگنہ جو ہاتھ میں دولھا کے بندھا تھا وہ کھول کر علیحدہ رکھ دیا اور سہرا کولوٹ کر شملہ پر لپیٹ دیا اور یہ کلمات فرمائے کہ فلاں شخص کی دختر کو بوکالت فلاں شخص اور بہ گواہی فلاں شخص کے بالعوض اس قدر مہر سوائے نان نفقہ کے بیچ نکاح تیرے کے دی میں نے، قبول کی تونے، اس نے کہاقبول کی میں نے۔ بعد کو وکیل صاحب مع گواہوں کے چلے گئے، اورقاضی صاحب بھی اپنا حق نکاح خوانی مع دو رکابی پلاؤ کے لے کر تشریف لے گئے۔ دولھا نے وہ کنگنہ پھر اپنے ہاتھ میں باندھ لیا۔ آیا یہ نکاح درست ہوا یا نہیں؟ اور جو کہ اولاد ہوئی وہ حرام کی ہوئی یا حلال کی ہوئی؟ اور قول زید کا یہ ہے کہ نکاح درست نہیں ہوا اور جو کہ اولاد ہوئی وہ حرامی ہوئی اورشناخت حرام اور حلال کی یہ ہے کہ جو اولاد ایسے نکاحوں سے ہوتی ہے ان سے اکثر یہ فعل سرزد ہوتے ہیں جیسے زنا یا شراب خوری یا قمار بازی یا لواطت، سوا اس کے جو فعل ناشائستہ ہیں وہ سرزد ہوتے ہیں یاکہ والدین سے جنگ جدال کرنا اوربزرگ کا لحاظ پاس نہ کرنا۔ یہ فعل اولاد صالح اور حلال سے ہر گز عمل میں نہیں آئیں گے۔ اور قول عمرو کا یہ ہے کہ کچھ اس نکاح میں قباحت نہیں اور نہ اولاد حرام ہوسکتی ہے کیونکہ قدیم سے یہی رسم چلی آئی۔ اگر ایسا ہو توسب مخلوق خدا حرامی ہوگی، آیا قول زید کا درست ہے یا عمرو کا؟ اور قول زید کا یہ ہے کہ بالفرض کنگنہ بھی نہیں ہے اور نکاح بھی اصالۃً یا ولایۃً یا کہ جو وکیل ہے اسی نے ایجاب قبول کرایا اور بعد اس کے کلمات کفر کے طرفین سے خواہ شوہر یا عورت سے سرزد ہوئے اور ان کی تمیز نہیں ہے کہ یہ کلمات کفرہیں جب بھی نکاح جاتا رہے گا اور جو قبل از توبہ اور سرِنو ایجاب قبول کرنے کے اولاد ہوگی وہ بھی حرامی ہوگی۔ بینوا توجروا من اﷲ ۔