Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۰(کتاب الزکٰوۃ، صوم، حج)
9 - 198
درمختار میں ہے:
   لا شئ فی عفو ولا فی ھالک بعد وجوبھا تعلقھا با لعین لا بالذمۃ وان ھلک بعضہ سقط حظہ ویصرف  الھالک الی العفو او لاً ثم الی نصاب یلیہ ثم و ثم بخلاف المستھلک لوجودالتعدی والتوی بعد القرض والاعادۃ ھلاک اھ۱؎ملتقا۔
عفو میں کوئی شَے لازم نہیں، وجوبِ زکوٰۃ کے بعد ہلاک ہوجانے والے مال پر زکوٰۃ نہیں کیونکہ زکوٰۃ کا تعلق اس مال سے تھا نہ کہ ذمہ کے ساتھ ، اور اگر تھوڑا ہلاک  ہوا تو اس کے مطابق زکوٰہ ساقط ہوگی اور ہلاک ہونے والے کو پہلے عفو کی طرف پھر اس سے متصل نصاب کی طرف پھیراجائے گا۔ اسی طرح آگے سلسلہ ہوگا بخلاف ہلاک کیے جانے والے کے، کیونکہ یہاں زیادتی ہے، قرض لینے والے کے انکار، اور دوبارہ ادا کرنے کا نقصان ہلاک کہلائے گا اھ ملتقطا(ت)
 (۱؎ ردمختار             باب زکوٰۃ الغنم        مطبع مجتبائی دہلی        ۱ /۱۳۳)
  ردالمحتار میں ہے:
والتو ی  ھنا ان یجحد ولا بینہ علیہ او یموت المستقرض لا عن ترکۃ۔۲؎
''توٰی'' سے یہاں مراد یہ ہے کہ مقروض، گواہ نہ ہونے پر قرض سے انکارکردے یا مقروض قرضہ کی ادائیگی کے لیے ترکہ چھوڑے بغیر فوت ہوجائے(ت)
 ( ۲؎ ردالمحتار         باب زکوٰۃ الغنم      داراحیاء التراث العربی بیروت   ۲ /۲۱)
اُسی میں ہے :
من الاستھلاک ما لوأبرأمدیونہ الموسر بخلاف المعسر اھ۳؎
   ہلاک کیے جانے والے مال کی ایک صورت یہ ہے کہ کوئی آدمی اپنے امیر مقروض کو معاف کردے بخلاف تنگدست کو معاف کردینے کے۔
 (۳؎ ردالمحتار باب زکوٰۃ الغنم      داراحیاء التراث العربی بیروت   ۲ /۲۱)
اقول :وما اشار الیہ فی الدر من الترتیب فی الصرف الی النصب فھو مذھب سیّدناالامام الاعظم رضی اﷲتعالٰی عنہ خلافا للامام  ابی یوسف رحمہ اﷲ تعالٰی فانہ یصرف الھالک بعدالعفو الی جمیع النصب شائعا ولکنی لم الم بذکرہ ھٰھنا لان الکلام فی الذھب والفضۃ وفیھما لاثمرۃ لھذاا لعدم تفاوت نصبھا فی الواجب اصلافا نہ ربع العشر علی الاطلاق وانما تظھر فی السوائم اما لا ختلاف الواجب فیھا با ختلاف النصب فقد یکون شاۃ و تارۃ بنت مخاض واخری بنت لبون وھکذا فمن ملک ستۃ وثلثین من الابل فھلک احدی عشرۃ فالو اجب عند الامام بنت مخاض وعند الثانی (۳۶/۲۵ ) بنت لبون ای خمسۃ وعشرون جزء من ستۃ و ثلثین جزء من اجزاء بنت لبون واما لا نعدام المثلیۃ فیتصور تفاوت الحسابین کمن ملک مائتی شاۃٍو شاۃً فالواجب ثلٰث شیاہ ھلکت منھا ثما نون فالواجب عندالامام شاتان صرفا للھلاک الی اقرب النصب وعند ابی یوسف (۲۰۱/۱۲۱)ثلٰث شیاہ ای مائۃ واحد و عشرون جزء من مائتی اجزاء وجزء من ثلٰث شیاہ ولا یجب ان یکون ھذا کمثل شاتین ویظھر ذلک عند التقویم فان دفع القیٰمۃ جائز فی الزکوٰۃ قطعاً فلنفرض ان شاۃ بسبعۃ وستین قر شا فقیمۃ الواجب عند الامام ۱۳۴  قرشا و عندابی یوسف ۱۲۱ وھٰکذا اماھٰھنا فالتعیین والشیوع سواء بلا تفاوت اصلافان من ملک مثلا۴۴   مثقالامن ذھب فالواجب مثقال وقیراطان لان کل مثقال عشرون قیراطا فاذا ھلک ۲۴  مثقالاًمثلاًوبقی۲۰   فالواجب علی طریقۃالامام نصف مثقال وعلیٰ طریقۃ ابی یوسف(۱۱/۵)ا ی خمسۃ اجزاء من احد عشر جزء من اجزاء مثقال و قیراطین فاذا جنسنا حصل۲۲   قیراطافحصتھا المذکورۃ عشرۃ قراریط و ذلک نصف مثقال وکذا اذا ملک ۱۸  تولجۃ من ذھب وھو نصابان وخمسان فالواجب ۵  ماشہ (۳-۵/۱) سرخ فاذاھلک ۳ تولجات مثلا بقی نصابان فالواجب علی طریقۃ الامام ۴ ماشہ۴   سرخ وعلی طریقۃ ابی یوسف۶ /۵  من الواجب الاول فاذا جعلنا الکل اخماس حبۃ کانت ۲۱۶ خمسانا خذ منھا۶/۵یحصل ۱۸۰  خمسا وھو ۴ ماشہ ۴ سرخ سواءً بسواء وان شککت فا نظرالی ھذاالعمل:

۳۶)۲۱۶ (۶                                                                                

۵                                                                                                  

۳۶)۱۸۰ (۵                                                                               

ماشہ۴) ۳۶(۸                                                                       



ثم اعلم ان ابراء المدیون الغنی ایضاقد یکون ھلاکاً وذلک اذا کان الدین ضعیفا وھو الذی لیس فی مقابلۃ ۴  سرخ مال کالمہر  والدیۃ و بدل الخلع و تمام الکلام علیہ فی ردالمحتار  واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
اقول :  در میں نصاب کے مصارف کی جس ترتیب کی طرف اشارہ ہے وُہ سیّدنا امام اعظم رضی اﷲتعالٰی عنہ کامذہب ہے۔ اس میں امام ابویوسف رحمہ اﷲتعالی کا اختلاف ہے کیونکہ وہ عفو کے بعد ہلاک ہونے والے حصّہ کو مشترکہ طور پر تمام نصابوں کی طرف لوٹاتے ہیں لیکن میں نے یہاں اسے ذکر نہیں کیا کیونکہ کلام سونے اور چاندی میں ہے اور ان دونوں میں اس کا کوئی فائدہ نہیں اس لیے کہ ان کے وجوبِ نصاب میں اصلاًتفاوت نہیں ، وہ تو مطلقاً چالیسواں حصہّ ہے ، ہاں چارپایوں میں ثمرہ (اختلاف) ظاہر ہوگا، یا تو اس میں اختلافِ نصاب اختلافِ واجب کی وجہ سے ہوگا، مثلاً کبھی بکریاں ہوں گی کبھی بنت مخاض اور کبھی بنت لبون، پس جو شخص چھتیس اونٹوں کا مالک بنا، ان میں سے گیارہ ہلاک ہوگئے، امام کے نزدیک  یہاں بنت مخاض لازم ہے اور دوسر ے کے نزدیک بنت لبون کا ۳۶/۲۵  یعنی بنت لبون کے چھتیس اجزاء میں سے پچیس اجزاء لازم ہوں گے، یا وہاں مثلیت معدوم ہونے کی وجہ سے دونوں حسابوں میں تفاوت متصوّر ہوگا، مثلاً ایک شخص دوسوایک ۲۰۱ بکری کا مالک ہے اب تین بکریاں لازم ہوگئیں مگر ان میں سے اسّی ہلاک ہوگئیں تو امام کے نزدیک اقرب نصاب کی طرف لوٹنے کی وجہ سے یہاں دو۲ بکریاں لازم ہوں گی اور امام ابویوسف کے نزدیک تین بکریوں کا ۲۰۱/۱۲۱ یعنی تین بکریوں کے دوسوایک ۲۰۱  اجزاء میں سے ایک سواکیس  ۱۲۱ لازم ہوں گے اور اس کا دو۲ بکریوں کی مانند ہونا لازم نہیں اوراس چیزکا اظہار قیمت لگانے کے وقت ہی ہوگا کیونکہ قیمت دینے سے زکوٰۃ بالیقین ادا ہوجاتی ہے، مثلاً ہم فرض کرتے ہیں کہ بکری کی قیمت سڑسٹھ۶۷ قرش ہے تو امام کے نزدیک ایک سو چونتیس ۱۳۴ قرش اور امام ابویوسف کے نزدیک ایک سو اکیس۱۲۱ قرش زکوٰۃ لازم ہوگی، اسی طرح باقی قیاس کرلیں، لیکن زیر نظر مسئلہ میں تعیین اور اشتراک برابر  ہیں ان میں کوئی تفاوت ہی نہیں، جو شخص مثلاً چوالیس ۴۴ مثقال سونے کا مالک بنا تو اس پر ایک مثقال اور دو قراط زکوٰۃ لازم ہے کیونکہ ہر مثقال بیس۲۰ ۲۰ قیراط ہوتا ہے،مثلاًچوبیس ۲۴ مثقال ہلاک ہوگیا اور باقی بیس ۲۰ رہ گیا توامام کے طریق پر نصف مثقال اور امام ابو یوسف کے مطابق ۱۱/۵ یعنی گیارہ۱۱ مثقال اور دو۲ قیراط کے اجزاء میں پانچ اجزاء لازم ہوں گے، جب ہم انھیں ہم جنس قراردیں تو یہ بائیس۲۲ قیراط بن جائیں گے، اب ان میں حصّہ مذکورہ دس۱۰ قیراط ہوگا اور یہ نصف مثقال ہے۔ اسی طرح مثلاً کوئی شخص اٹھارہ تولے سونے کا مالک بنا تو یہ دو۲ نصاب اور دو۲ خمس ہیں تو اب پانچ ماشے(۳-۵/۱) رتی بنے گا تو اب اگر تین ۳ تولے مثلاًہلاک ہوگیا تو دو۲نصاب باقی رہ گئے۔ اب امام کے طریق کے مطابق چار۴ ماشے اور چاررتی، اور امام ابویوسف کے طریقہ پر ۶/۵ واجبِ اول کا ہوگا، تو اگر ہم سب کو حبہ کے خمس بنائیں تو کل ۲۱۶ خمس ہوئے ان میں سے۶ /۵ لے لیں تو ۱۸۰ خمس حاصل ہوئے اور ۴ ماشے ۴ رتی ہُوئے جو برابربرابر ہیں، اگر تمھیں شک ہوتو اس عمل کو دیکھو:

۳۶)۲۱۶ (۶

۵

۳۶)۱۸۰ (۵

ماشہ۴) ۳۶(۸

پھر معلوم ہونا چاہئے کہ کسی غنی مقروض کو بری کرنا بھی کبھی ہلاک قرار پاتا ہےاور یہ جب ہوگا کہ قرض یا دین بہت کم ہو اور وہ یہ۴ رتی سے کم ہوتو مال نہ قرار پائیگا جیسا کہ مہر، دیت، خلع کے بدل میں اس مقدار کو مال نہیں دیا جاتا، اس کی مکمل بحث ردالمحتار میں ہے۔ واﷲسبحانہ وتعالٰی اعلم(ت)
Flag Counter