اور اگر تطوّع یا مطلق تصدق کی نیّت تھی اور سب تصدق کردے تو بالاتفاق زکوٰۃ ساقط ہوگئی۔ ہندیہ میں ہے:
من تصدّق بجمیع نصابہ ولا ینوی الزکوٰۃ سقط فرضھا عنہ وھذا استحسان کذا فی الزاھدی ولافرق بین ان ینوی النفل او لم تحضرہ النیۃ۔ ۱؎
جس نے تمام مال صدقہ کردیا اور زکوٰۃ کی نیت نہ کی تو اس سے فرض ساقط ہوجائےگا اور یہ استحسان ہے جیساکہ زاہدی میں ہے اور اس میں کوئی فرق نہیں کہ اس نے صدقہ نفلی کی نیّت کی یا ذہن نیت سے خالی تھا۔(ت)
اور اگر بعض تصدّق کیے تو امام محمد رحمہ اﷲتعالٰی کے نزدیک جس قدر صدقہ کیا اُس کی زکٰوۃ ساقط اور باقی کی لازم، مثلاًدوسو۲۰درہم پر حولانِ حول ہوگیا اور زکوٰۃ کے پانچ درہم واجب ہولئے، اب اس نے سو درہم ﷲدے دئے تو ان سَو کی زکوٰۃ یعنی ڈھائی درہم ساقط ہوگئی دین رہے،
وھو روایۃعن صاحب المذھب رضی اﷲ تعالٰی عنہ کما فی الزاھدی والعنایۃوغیرھما وعن الامام ابی یوسف ایضا کما فی القھستانی عن الخزانۃ ۔
اور یہی صاحبِ مذہب (امام اعظم )رضی اﷲتعالٰی عنہ سے روایت ہے جیسا کہ زاہدی اور عنایہ وغیرہ میں ہے اور امام ابویوسف سے بھی یہی مروی ہے ، جیساکہ قہستانی نے خزانہ سے نقل کیا ہے ۔
قلت : وبہ جزم القدوری فی مختصرہ والسمعانی فی خزانۃالمفتین عن شرح الطحطاوی ولما قال الاکمل روی ان الامام مع محمدفی ھذہ المسئلۃ ۲؎ قال الطحطاوی عن ابی السعود عن شیخہ وھذا کالتصریح با رجحیتہ۳؎ اھ وقد نص فی القھستانی والھندیۃ اثرین عن الزاھدی انہ الاشبہ. ۴؎
قلت(میں کہتا ہُوں)اسی پر قدوری نے مختصر میں، سمعانی نے خزانۃالمفتین میں شرح طحطاوی سے جزم کیا ہے، اکمل نے کہا کہ امام صاحب اس مسئلہ میں امام محمد کے ساتھ ہیں، طحطاوی نے ابوالسعود سے انہوں نے اپنے شیخ سے نقل کیا کہ یہ راجح ہونے پر تصریح کی طرح ہے اھ قہستانی اور ہندیہ میں زاہدی سے یُوں نقل کیا کہ یہی اشبہ ہے(ت)
(۲؎ العنایۃعلی ھامش فتح القدیر کتاب الزکوٰۃ مکتبہ نوریہ رضویہ سکّھر ۲ /۱۲۶)
(۳؎ حاشیہ طحطاوی علی درالمختار کتاب الزکوٰۃ دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۳۹۵)
(۴؎ فتاویٰ ہندیۃ کتاب الزکوٰۃ نورانی کتب خانہ پشاور ۱ /۱۷۱)
مگرامام ابویوسف رحمہ اﷲتعالٰی کے نزدیک بعض کا تصدق مطلقاً مثل استہلاک ہے کہ کسی نیت سے ہو اصلاً زکوٰۃ سے کچھ نہ گھٹے گا، تو صورتِ مذکورہ میں اگر چہ سو روپیہ خیرات کردے زکوٰۃ کے پانچ درہم بدستور واجب رہے، یہ مذہب زیادہ قوی و مقبول و شایانِ قبول ہے۔
اقول : فقد اعتمد عامۃالمتون کالوقایۃ، والنقایۃ والکنزوالصلاح ، و المنتقی والتنویرو غیرھا حتی لم یتعرض کثیر منھم لخلافہ اصلا و اقرتھم علیہ الشروح کذ خیرۃ العقبیٰ والبر جندی و تبیین الحقائق والایضاح و مجمع الانھر، والدرالمختار وغیرھاوقدمہ قاضی خان وابراھیم الحلبی فی متنہ وھما لایقد مان الاالاظھرالاشھرالارجح کما نصا علیہ فی خطب الکتابین وکذا قدمہ فی الخلاصۃومعلوم ان التقدیم یشعر بالاختیار کما فی کتاب الشرکۃمن العنایۃ والنھر والدرالمختار واخردلیلہ فی الھدایہ وھولایؤخرالادلیل ما ھوالمختارعندہ لیکون جواباًمن دلیل ما تقدم واقرہ علی ھذا اشارۃالمحقق فی الفتح وکذا ذکر الزیلعی فی التبیین دلیل القولین وشید دلیل ابی یوسف واجاب عن دلیل محمدونسب فی الایضاح والملتقی والدرالمختار الخلاف لمحمدوھوتضعیف لہ کماعرف من محاوراتھم واقر الدر علی ذٰلک الشامی وقواہ ببعض ماذکرنا ھناوھو صنیع الملتقی و تقدیم قاضی خان وتاخیر الھدایۃفقد ترجح ھذا ۔
اقول : اکثر متون نے اسی پر اعتماد کیا ہے مثلاً وقایہ، نقایہ،کنز،اصلاح،منتقی،تنویروغیرہ، حتیّٰ کہ اکثریت نے اس میں کسی قسم کے اختلاف کا تذکرہ تک نہیں کیا اور شروحات نے بھی انھیں کے قول کو ثابت رکھا ہے مثلاًذخیرۃ العقبی، بر جندی،تبیین الحقائق، ایضاح،مجمع الانہر اوردرمختاروغیرہ۔ قاضی خان اور ابراھیم حلبی نے اپنے متن میں اسے مقدم رکھا ہے اور وُہ دونوں حضرات اظہر، اشہر اور ارجح قول کو ہی مقدم ذکر کرتے ہیں جیسا کہ اُنھوں نے اپنی کتب کے خطبہ میں اس پر تصریح کی ہے ،اور خلاصہ میں بھی اسے مقدم رکھا اور یہ مسلّمہ ہے کہ تقدیم مختار ہونے پر دال ہے جیسا کہ عنایہ، نہر اور درمختار کی کتاب الشرکت میں ہے، اور ہدایہ میں اس قول کی دلیل کو مؤخربیان کیا ہے اور وہ مختار قول کی دلیل ہی کو موخر ذکر کرتے ہیں تاکہ ما قبل دلیل کا جواب بن سکے۔ محقق علی الاطلاق نے بھی فتح القدیرمیں اسی کو اشارۃًثابت رکھا ہے، اسی طرح زیلعی نے تبیین میں دونوں اقوال کی دلیل بیان کی اور امام ابو یوسف کی دلیل کو مضبوط کرتے ہُوئے امام محمد کی دلیل کا رَد کیا،ایضاح، ملتقی اور درمختار میں کہا کہ اس میں امام محمدکو اختلاف ہے اور وہ اس قول کے ضعیف ہونے پر دال ہے جیسا کہ محاوراتِ فقہاء سے واضح ہے، امام شامی نے در کے قول کو اسی طرح ثابت رکھا اور بعض ہمارے مذکورہ دلائل سے اس کو تقویت دی اور وُہ ملتقی کا طریقہ ہے ، تقدیم قاضی خان اور تاخیر طریقہ ہدایہ ہے، لہذا یہ قول ترجیح پائے گا ۔
اوّلاًبتظافرعامۃ المتون علیہ۔
اوّلا : تو اس لئے کہ اس پر اکثر متون ہیں۔
و ثانیاً : بجلالۃ شان من اعتمد وہ و اقروہ کا لامام فقیہ النفس الذی قالو افیہ انہ لا یعدل عن تصحیحہ والامام المحقق صاحب الھدایۃ و عصریھما الامام صاحب الخلاصۃ والامام النسفی صاحب الکنز فالامام برھان الدین محمود وحفیدہ الامام صدرالشریعۃ والامام المحقق حیث اطلق والامام الفخرالزیلعی والعلامۃ الامام ابن کمال الوزیر وھم جمیعاًمن ائمۃالاجتہادبوجہ اقرلہم بذلک علماء معتمدون ولاکذلک من عددنافی القول الاول الاالقدوری وشارح الطحاوی اماالسمعانی فلم ارمن اعترف لہ بذلک وابوا لسعودھذا لیس ھوالامام المحقق علامۃ الوجودخاتمۃ المجتہدین محمدافندٰی مفتی الدیارالرومیۃ فانہ متقدم علی صاحب البحرالمقدم علی الشرنبلالی السابق علی السیّدابی السعود ھذاالمتکلم علی کتب الشرنبلالی تحشیا وتعلیقا فتصحیح ھٰؤلاء الجلۃولوالتزاماً لا یقاومہ قو ل المجروح المطروح ان غیرہ اشبہ ثم ما فیھم وفی من تبعھم من اعاظم المتاخرین من الکثرۃکما عملت یقضی بترجیحہ فانماالعمل بماعلیہ الاکثر کما فی العقود الدریۃ و غیرہا،
ثانیاً: اس پر بزرگ ترین شخصیات نے اس کی تصریح کی اور اسے ثابت رکھاہے، مثلاًامام فقیہ النفس جن کے بارے فقہاء نے تصریح کی ہے کہ ان کی تصحیح سے عدول نہیں کیا جاسکتا امام محقق صاحبِ ہدایہ اور اُن کے معاصرین امام صاحب الخلاصہ اور امام نسفی صاحب الکنز پھر امام برھان الدین محموداور ان کے پوتے امام صدر الشریعۃ، امام محقق علی الاطلاق ، امام فخر زیلعی اور علامہ ابن کمال الوزیر اور یہ تمام بالوجہ ائمہ اجتہاد ہیں، جس کا اقرا ر کرنے والے علمائے معتمدین ہیں ، اور قول ِاوّل میں ہمارے شمار کا معاملہ اس طرح نہیں ماسوائے قدوری اور شارح الطحاوی کے۔ رہا معاملہ سمعانی کا ، تومیں ان کیلئے اجتہاد کا اعتراف کرتے ہوئے کسی کو نہیں دیکھا اور ابو سعود سے امام محقق علامۃالوجود خاتمۃ المجتہدین محمدآفندی مفتی دیارِروم مراد نہیں کیونکہ وہ صاحب بحر سے پہلے گزرے ہیں اور صاحبِ بحر شر نبلالی سے مقدم اور شر نبلالی سیّدابوالسعودسے مقدم ہیں جنھوں نے کتبِ شرنبلالی پر حواشی و تعلیقات تحریر کی ہیں، پس ان عظیم علماء کی تصحیح اگر چہ التزاماً ہوکا مقابلہ کوئی مجروح ومطروح قول نہیں کرسکتا اس بات میں کہ اس کا غیر مختار ہے، پھر ان علماء اور ان کے متبعین علماءِ متاخرین کی کثرت جیساکہ معلوم ہوچکا ہے بھی ترجیح کا تقاضا کرتی، کیونکہ عمل اس پر ہو تا ہے جس پر اکثریت ہو جیساکہ عقودالدریہ وغیرہ میں ہے۔
ثالثاً: اس کی دلیل قوی ہونے کی وجہ سے جیسا کہ تبیین وغیرہ کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے۔
ورابعا : ان فرض تساوی القولین من جھۃ الترجیح فیترجح ھذا بانہ قول ابی یوسف کما عرف ذٰلک فی رسم المفتی ۔
رابعاً : اگر جہت ترجیح کی وجہ سے دونوں ااقوال میں مساوات فرض کر لیں تب بھی یہی قول ترجیح پاجائے گا کیونکہ یہ امام ابو یوسف کا قول ہے جیسا کہ رسم المفتی میں معلوم ہوچکا ۔
وخامساً : بانہ الاحوط فان فیہ الخروج عن العھدۃبیقین، و سادساً : بانہ الا نفع للفقراء وقد علم ان للعلماء بذٰلک اعتناءً عظیماً فی الزکوٰۃ والاوقاف ھذا ماظہرلیِ فانظر ماذاترٰی، واﷲتعالٰی اعلم۔
خامساً : احوط یہی ہےکیونکہ اس صورت میں ذمہ داری سے بالیقین نکلا جاسکتا ہے، سادساً : یہ فقراء کیلئے زیادہ سُود مند ہے اور یہ معلوم ہے کہ علماءِ زکوٰۃ و اوقاف میں اس کا بہت زیادہ اہتمام کرتے ہیں مجھ پر تو یہی واضح ہوا ، آپ کی کیا رائے ہے، واﷲتعالٰی اعلم۔(ت)
رہی صورتِ ثالثہ یعنی ہلاک، اس میں بالاتفاق کم یا بہت جس قدر تلف ہو بحساب اربعہ متناسبہ اُتنے کی زکوٰۃ ساقط ہوگی اور جتنا باقی رہے اگر چہ نصاب سے بھی کم، اُتنے کی زکوٰۃ باقی، مثلاًدوسوبیس۲۲درہم شرعی کا مالک تھا حولان حول کے بعد ۵ درہم واجب الادا ہُوئے، ابھی نہ دئے تھے کہ ۴۰ درہم ہلاک ہوگئے تو اب نیم درہم ساقط اور ۴ واجب کہ ۲۰ تو عفو تھے جن کے مقابل زکوٰۃ سے کُچھ نہ تھا وُہ تو بیکار گئے، نصاب میں سے صرف بیس۲گھٹے، وہ نصاب کی عشر ہیں تو زکوٰۃ کا بھی دسواں حصّہ یعنی آدھا درہم ساقط ہوگا باقی باقی، یا یُوں دیکھ لیا کہ نصاب سے ۲۰ ہلاک ہوئے ہیں ان کا(۴۰/۱ )نیم درہم ہے اُسی قدر ساقط ہوگیا ، یا یُوں خیال کرلیا کہ ایک سواسّی ۱۸۰ باقی ہیں ان کا(۴۰/۱) ساڑھے چار ہیں اسی قدر واجب رہا، تینوں کا حاصل ایک ہے ،اور اگر صورت مذکورہ میں ۲۱ درہم ضائع ہو ئے ہیں تو زکٰوۃ سے درہم کا صرف بیسواں حصہ کہ کل واجب کا نصفِ عشر عشر یعنی (۲۰۰ /۱) ہے ساقط ہو گا باقی (۲۱/۱۹)واجب کہ نصاب سے فقط ایک درہم ہلاک ہوا ہے یہ نصاب کا(۲۰۰/۱)تھا، اور اگر ( ۲۱۹ ) تلف ہُوئے تو درہم کا فقط( ۲۰/۱)۰ دینا آئے گا باقی ساقط کہ اسی حساب سے حصّہ نصاب باقی ہے وعلی ھذا القیاس۔