مسئلہ ثالثہ: اگر آئندہ زیور کم ہو جائے تو کس حساب سے کمی کی جائے؟بینوا توجروا
الجواب : زکوٰۃ صرف نصاب میں واجب ہوتی ہے، نہ عفومیں، مثلاًایک شخص آٹھ تولے سونے کا مالک ہے تو دو ماشہ سونا کہ اس پر واجب ہوا، وُہ صرف۷تولے کے مقابل ہے نہ کہ پورے آٹھ تو لے کے،کہ یہ چھ ماشے جو نصاب سے زائد ہے عفو ہے ۔ یُوں ہی اگر ۱۰ تولے کا مالک ہو تو زکوٰۃ صرف ۹ تولہ یعنی ایک نصاب کامل اورایک نصاب خمس کے مقابل ہے،دسواں تو لہ معاف۔ ملتقی الابحر میں ہے :
الزکوٰۃ تتعلق بالنصاب دون العفو فلو ھلک بعد الحول اربعون من ثمانین شاۃ تجب شاۃ کا ملۃ اھ ۲؎ ملخصاً۔
زکوٰۃکا تعلق نصاب سے ہوتا ہے عفو سے نہیں،اب اگر سال کے بعد اس کی بکریوں میں سے چالیس۴۰ ہلاک ہوگئیں تو اب بھی ایک کامل بکری زکوٰۃ لازم ہوگی اھ ملخصاً۔(ت)
عفو میں زکوٰۃ نہیں اور یہ ہر حال میں وہ مقدار و حصّہ ہے جو نصابوں کے درمیان ہوتاہے(ت)
(۳؎ درمختار باب زکوٰۃ الغنم مجتبائی دہلی ۱ /۱۳۳)
پس اگر نقصان مقدارِ عفو سے تجاوز نہ کرے یعنی اُسی قدر مال کم ہوجائے جتنا عفو تھا، مثلاًمثال اوّل میں ۶ ماشہ اور دوم میں ایک تولہ، جب تو اصلاًقابل لحاظ نہیں کہ اس قدر پر تو پہلے بھی زکوٰۃ نہ تھی کل واجب بمقابلہ مال باقی تھا وُہ اب بھی باقی ہے تو زکوٰۃ اسی قدر واجب ہے اور کمی نظر سے ساقط
کما مثل لہ فی المنتقی
(جیسا کہ منتقی میں اس کی مثال دی گئی ۔ت) اور اگر مقدار عفو سے متجاوز ہو یعنی اُس کے باعث کسی نصاب میں نقصان آئے خواہ یُوں کہ ما ل میں جس قدرعفو تھا نقصان اس سے زائد کا ہوا۔ جیسے امثلہ مذکورہ میں دو ۲ تولے یا یُوں کہ ابتداءً مال صرف مقادیر نصاب پر تھا عفو سرے سے تھا ہی نہیں جیسے ۱۵ یا ۳۰ یا۵۰ تولے سونا کہ اس میں رتی چاول جو کچھ گھٹے گا کسی نہ کسی نصاب میں کمی کرے گا۔ ایسا نقصان دو۲ حال سے خالی نہیں یا حولان حول سے پہلے ہے یا بعد، بر تقدیرِ اوّل دو ۲حال سے خالی نہیں ، یا سال تمام پر رقم نصا ب ہائے پیشیں پھر پُوری ہوگئی یا نہیں ، اگر پُوری ہوگئی تو یہ نقصان بھی اصلاً نہ ٹہرے گا اور اس مجموع رقم پر حولان حول سمجھا جائے گا، مثلاًایک شخص یکم محرم ۷کو ۱۵ تولے سونا کا مالک تھا بعدہ اس میں سے کسی قدر قلیل خواہ کثیر ضائع ہوگیا یا صَرف کردیا یا کسی کو دے ڈالا اور تھوڑا سا اگر چہ بہت خفیف باقی رہا، پھر جس قدر کم ہوگیا تھا سلخ ذی الحجہ سے پیشتراگر چہ ایک ہی دن پہلے پھر آگیا تو پورے ۱۵ ۱۵ تولہ دو نصاب کامل کی زکوٰۃ دینی ہوگی کہ ایک مثقال سوناہے یونہی اگر مثلاً آٹھ تولے سونے کا مالک ہے اور وسط میں تولہ پھر گھٹ گیا کہ نصاب بھی پوری نہ رہی ، ختم سال سے پہلے چھ سات ماشے مل گیا تو وہی زکوٰۃ تمام وکمال لازم آئے گی کہ چھ ماشہ جوعفو تھا جس طرح اس کےہلاک کا اعتبار نہیں یونہی بعد ہلاک اس کا عود در کا ر نہیں صرف اس قدر چاہئے کہ شروع سال میں ایک یا زائد جتنی نصابوں کا مالک ہوا تھا، ختم سال پر وُہ نصابیں پُوری ہوں تو جس قدر زکوٰۃ کا وجوب بحالتِ استمرار ہوتا اُسی قدر پُوری واجب ہوگی اور نقصان درمیانی پر نظر نہ کی جائے، ہاں اتنا ضرور ہے کہ اصل مال سے کوئی پارہ محفوظ رہے سب با لکل فنا نہ ہوجائے ورنہ مِلک اوّل سے شمار سال جاتا رہے گا اور جس دن ملک جدید ہوگی اُس دن سے حساب کیا جائے گا، مثلاًیکم محرم کو مالکِ نصاب ہُوا صفر میں سب مال سفر کر گیا، ربیع الاوّل میں پھر بہار آئی تو اسی مہینہ سے حول گنیں گے حسابِ محرم جاتا رہا۔
سال کےدونوں اطراف میں کمالِ نصاب کی شرط ہے ابتدا ء میں انعقاد اور انتہا ء میں وجوب کے لئے، درمیانی مدّت میں کمی نقصان دہ نہیں۔ ہاں اگر سارا مال ہلاک ہوگیا تو سال باطل ہوجائے گا۔
(۱؎ درمختار باب الزکوٰۃ المال مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۱۳۵)
ردالمحتار میں ہے:
فان وجد منہ شیأ قبل الحول ولو بیوم ضمہ وزکی الکل۔ ۲؎
اگر کوئی شئ سال کے اختتام سے حاصل ہوئی خواہ ایک ہی دن پہلے ہو ا سے ملایا جائےگا اور تمام کی زکوٰۃادا کی جائےگی۔(ت)
( ۲؎ردا لمحتار باب زکوٰۃالغنم ادارۃالطباعۃالمصریۃمصر ۲ /۲۳)
اُسی میں ہے:
قولہ ھلک کلہ ای فی اثناء الحول حتی لو استفاد فیہ غیرہ استانف لہ حولا جدید۔ ۱؎
قولہ اگر سارا سا ل مال ہلاک ہوگیا، یعنی سال کے وسط میں، حتی کہ اگر اس مال کے علاوہ حاصل ہوتا ہے تو اس کے لئے نیا سال ہوگا۔(ت)
( ۱؎ ردالمحتار باب زکوٰۃالمال ادارۃالطباعۃالمصریۃمصر ۲ /۳۳)
اور اگر یہ نقصان مستمر رہا یعنی ختمِ سال پر وُہ نصابیں پُوری نہ ہوئیں تو اس وقت جس قدرموجود ہے اتنے کی زکوٰۃ واجب ہوگی اور وہی احکام حسابِ نصاب ولحاظ عفو کے اس قدر موجود پر جاری ہوں گے، جو جا تا رہا گو یا تھا ہی نہیں کہ حولانِ حول اسی مقدار پر ہُوا حتی کہ اگر یہ مقدار نصاب سے بھی کم ہے توزکوٰۃ راساً ساقط۔
وذالک لان الحولان شرط الوجوب فاذا نقص عن النصاب لم یجب شئ والا وجب فیما حال علیہ الحول ۔
کیونکہ سال کا گزرنا شرط وجوب ہے ،جب نصاب سے کم ہے تو کوئی شئ لازم نہ ہوگی اور اگر نصاب ہے تو جس پر سال گزرا ہے اس پر زکٰوۃ ہوگی ۔(ت) حدیث میں ہےحضورپُر نورسیّدعالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لازکوٰۃ فی مال حتی یحول علیہ الحول ۲؎ اخرجہ ابن ماجۃ عن ام المؤمنین الصدیقۃرضی اﷲتعالٰی عنہا۔
مال پر زکوٰۃ سال گزرنے سے پہلے لازم نہیں ہوتی ، اسے ابن ماجہ نے ام المومنین سیّدہ عائشہ رضی اﷲعنہا سے روایت کیا ہے۔(ت)
( ۲؎ سُنن ابن ماجہ ابواب الزکوٰۃ باب استفاد مالا ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۱۲۹)
حاشیہ شامی میں ہے :
لواستھلکہ قبل تمام الحول فلا زکوٰۃعلیہ لعدم الشرط۔ ۳؎ ۔
اگر اس نے مال سال گزرنے سے پہلے ہلاک کریا تو عدمِ شرط کی وجہ سے زکوٰۃ لازم نہ ہوگی۔(ت)
(۳؎ درالمحتار باب زکوٰۃالغنم ادارۃالطباعۃالمصریۃمصر ۲ /۲۱ )
بر تقدیر ثانی یعنی جبکہ مال پر سال گزرگیا اور زکوٰۃ واجب الاداء ہوچکی، اور ہنوز نہ دی تھی کہ مال کم ہوگیا، یہ تین حال سے خالی نہیں کہ سبب کمی استہلاک ہوگا یا تصدّق یا ہلاک۔ استہلاک کے یہ معنی کہ اس نے اپنے فعل سے اُس رقم سے کُچھ ااتلاف، صرف کر ڈالا، پھینک دیا، کسی غنی کو ہبہ کر دیا۔ اور یہاں تصدّق سے یہ مراد کہ بلا نیتِ زکوٰۃکسی فقیر محتاج کو دی دیا۔ اور ہلاک کے یہ معنی کہ بغیر اس کے فعل کے ضائع و تلف ہوگیا، مثلاًچوری ہوگئی یا زر و زیور کسی کو قرض و رعایت دے دیا وُہ مکر گیا اور گواہ نہیں یا مر گیا اور ترکہ نہیں یا مال کسی فقیر پر دین تھا مدیون محتاج کو ابراکر دیا کہ یہ بھی حکم ہلاک میں ہے۔
اب صورتِ اُولیٰ یعنی استہلاک میں جس قدر زکوٰۃ سال تمام پر واجب ہو لی تھی اُس میں سے ایک حبّہ نہ گھٹے گا یہاں تک کہ اگر سارا مال صرف کردے اور بالکل نا دار محض ہوجائے تاہم قرضِ زکوٰۃ بدستورہے، سراجیہ ونہایہ وغیرہما میں ہے:
لواستھلک النصاب لا یسقط۔ ۱؎
اگر نصاب کو کسی نے ہلاک کر دیا تو زکوٰۃ ساقط نہ ہو گی(ت)
لو وھب النصاب لغنی بعد الوجوب ضمن الواجب وھواصح الروایتین۔ ۲؎
اگر کسی نے نصاب کسی غنی کو وجوب کے بعد ہبہ کر دیا تو وُہ واجب (مقدار)کا ضامن ہوگا اور یہی دونوں روایات میں اصح ہے۔(ت)
( ۲؎ حاشیہ الطحطاوی علی الدرالمختار کتاب الزکوٰۃ دارالمعرفۃبیروت ۱ /۳۹۵)
محیط سرخسی وعالمگیریہ میں ہے:
فی روایۃ الجامع یضمن قدرالزکوٰۃ وھوالاصح۔ ۳؎روایۃالجامع
میں ہے کہ مقدار زکوٰۃکا ضامن ہوگا اور یہی اصح(ت)
(۳؎ فتاویٰ ہندیۃ کتاب الزکوٰۃ الباب الاول نورانی کتب خانہ پشاور ۱ /۱۷۱)
اور صورتِ ثانیہ یعنی تصدّق میں اگر نذر یا کفارے یا کسی اور صدقہ واجبہ کی نیت کی تو بالاتفاق اس کا حکم بھی مثلِ استہلاک ہے یعنی زکوٰۃ سے کچھ ساقط نہ ہوگا جو دیااور باقی رہا سب کی زکوٰۃ لازم آئیگی۔ درمختار میں ہے :
اذانوی نذراًاوواجباً آخریصح ویضمن الزکوٰۃ۔۴؎
جب کسی نے نذر کی نیّت کر لی یا کسی اور واجب کی تو صحیح ہے مگر زکوٰۃ کی ضمانت دینا ہو گی۔ (ت)
(۴؎ درمختار کتاب الزکٰوۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۳۰۰)