فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۰(کتاب الزکٰوۃ، صوم، حج) |
مسئلہ ثانیہ: زید کے پاس زیور ہے وہ اُس کی زکوٰۃ دیتا ہے آ ئندہ کو زیور زیادہ ہو تو کس حساب سے زرِ زکوٰۃ زیادہ کیا جائے؟بینواتوجروا
الجواب : شریعتِ مطہرہ نے سونے کی نصاب پر کہ حوائجِ اصلیہ سے فارغ ہو خواہ وُہ روپیہ اشرفی ہو، گہنا یا برتن یا ورق یا کوئی شَے، حولان حول قمری کے بعد چالیسواں حصّہ زکوٰۃمقرر فرمایا ہے، سونے کی نصاب ساڑھے سات تو لے ہے اور چاندی کی ساڑھے باون تو لے، پھر نصاب کے بعد جو کچھ نصابِ مذکور کے پانچویں حصہ تک نہ پہنچے معاف ہے اُس پر کچھ واجب نہیں
ھذاھومذھب صاحب المذھب رضی اﷲتعالٰی عنہ وھو الصحیح کما فی التحفۃ ثم مجمع الانہر
(یہی صاحبِ مذہب (امام اعظم) رضی اﷲتعالٰی عنہ کا مذہب ہے اور یہی صحیح ہے جیسا کہ تحفہ میں پھر مجمع الانہر میں ہے۔ت)جب خمس کامل ہوجائے اس پر پھر اس خمس کا چالیسواں حصہ فرض ہوگا یونہی ایک خمس سے دوسرے تک عفو اور ہر خمسِ کامل پر اس کا ربع عشر ، مثلاً ایک شخص کے پاس ۷تولے سونا اس پر ۲ ماشے سونا زکٰوۃ دیتاہے اور اگر ایک تولہ سے کم اس پر زائد ہے مثلاً ایک رتی کم ۹ تولہ ہے جب بھی وہی ۲ ماشے ۲ سُرخ واجب ہے یہ رتی کم ایک تولہ معاف ہے، ہاں اگر پورا چھ۶ماشے ایک تولہ ہے کہ خمس نصا ب ہے اور ہو تو اس کا بھی ربع عشر (۳/۵ء۳) سُرخ ،اور واجب ہو گا کل ۹ تولے پر ۶ماشے ،( ۳/۵ ء۵ )سُرخ ہے، پھر ایک تولہ پورا ہونے تک کچھ نہ بڑھے گا، جب ۱۰ تولے ۶ ماشے کامل ہو وہی(۳/۵ ء۵ )سُرخ'اور بڑھ کر ۳ ماشہ( ۱/۵ء۳ ) سُرخ واجب الادا ہوگا ، وعلیٰ ہذا القیاس۔ اسی طرح جس کے پاس( ۵۳ )تولہ ۶ ماشہ چاندی ہے اس پر ۱ تولہ ۳ ماشہ چاندی واجب ہے اور جب تک۱۰ تولے چاندی کہ خمس نصاب ہے نہ بڑھے، یہی واجب رہے گا۔ جب( ۶۳ )تولے کامل ہوجائے تواس ۱۰تولے کا (۱/۴۰ )یعنی ۳ ماشہ۱ (۱/۵ )سُرخ، اور زائد ہو کرایک تولہ ۱۰ ماشہ( ۲/۵ ) سُرخ کا وجوب ہوگا و علیہ قس۔
درمختارمیں ہے:
نصاب الذھب عشرون مثقالا والفضۃمائتا درھم کل عشرۃ درھم وزن سبعۃ مثاقیل والمعتبر وزنھما اداءً ووجوباً لا قیمتھما واللازم فی مضروب کل منھما ومعمولہ ولو تبراً وحلیاً مطلقاً مباح الاستعما ل اولا ربع عشر، وفی کل خمس بضم الخاء بحسابہ ففی کل اربعین درھمادرھم وفی کل اربعۃ مثاقیل قیراطان وما بین الخمس الی الخمس عفو وقالا مازادبحسابہ وھی مسئلۃ الکسور اھ ۱؎ ملخصاً۔
سونے کا نصاب بیس۲۰ مثقال اور چاندی کا دوسو۲۰۰ ایسے درھم ہے کہ ان میں سے دس ۱۰درہم سات ۷ مثقال کا وزن رکھتے ہوں، ان کا وزن ادا ئیگی اور وجوب میں معتبر ہے، ان دونوں کی قیمت کا اعتبار نہیں، پھر ان دونوں سے بنی ہُوئی اشیامیں چالیسواں حصہ زکوٰۃ لازم ہے اگر چہ یہ ڈلی کی صورت میں یا زیورات کی صورت میں ہوں، خواہ ان کا استعمال مباح ہو یا ممنوع ہو (یعنی مردون کیلئے )ہر خمس میں اس کے حساب سے زکوٰۃہوگی ، پس ہر چالیس دراہم میں ایک درہم اور ہر چار مثقال میں دو قیراط زکوٰۃ ہوگی جو خمس سے دوسرے خمس تک ہے، اس میں زکوٰۃ نہیں،صاحبین کے نزدیک جتنا اضافہ ہو اس میں اسی کے حساب سے زکوٰۃہوگی، یہی مسئلہ کسورکہلاتا ہے اھ ملخصاً(ت)
(۱؎ درمختار کتاب الزکوٰۃ باب زکوٰۃ المال مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۳۵-۱۳۴)
پھر جو شخص مالک ِ نصاب ہے اور ہنوز حولان حول نہ ہو ا کہ سال کے اندر ہی کچھ اور مال اسی نصاب کی جنس سے خواہ بذریعہ ہبہ یا میراث یا شرایا وصیّت یا کسی طرح اس کی ملک میں آیا تو وُہ مال بھی اصل نصاب میں شامل کرکے اصل پر سال گزرنا اُ س سب پر حولان حول قرار پائے گا اور یہاں سونا چاندی تو مطلقاًایک ہی جنس ہیں خواہ ان کی کوئی چیز ہو اور مال تجارت بھی انہی کی جنس سے گِنا جائیگا اگر چہ کسی قسم کا ہو کہ آخر اس پر زکوٰۃ یوں ہی آتی ہے کہ اس کی قیمت سونے یا چاندی سے لگا کر انھیں کی نصاب دیکھی جاتی ہے تو یہ سب مال زروسیم ہی کی جنس سے ہیں اور وسط سال میں حاصل ہوئے توذہب و فضّہ کے ساتھ شامل کردئے جائیں گے بشرطیکہ اس ملانے سے کسی مال پر سال میں دوبار زکوٰۃ لازم نہ آئے پھر ملانے کے بعد عفو و ایجاب کے وہی احکام ہیں جو اوپر گزرے، مثلاً ایک شخص یکم محرم ۷ کو تیس ۳۰تولے سونے کا مالک ہوا اور اس کے سوا جنسِ زرِوسیم سے اور کوئی چیز اس کی مِلک نہیں تو اس پر۹ ماشے سونا زکوٰۃ میں فرض ہے کہ سلخ ذی الحجہ ۷ کو واجب الادا ہوگا ، ہنوز سال تمام نہ ہو ا کہ مثلاًیکم رجب کو ایک تولہ اور یکم ذی الحجہ کو دو۲ تولے سونا اسے اور ملا کہ اب کل ۳۳ تو لے ہوگیا تو سلخ ذی الحجہ کو اس مجموع کی زکوٰۃ۹ ماشہ (۱/۵ء۷)سُرخ سونا واجب الادا ہو گا، گویا اس سب پر سال گزرگیا اگر چہ واقع میں اس ایک تولے کو ہنوزچھ۶مہینے اور اس دو ۲ تو کو ایک ہی مہینہ گزرا ہے اور اس تولہ بھر کے بعد اور نہ ملا کہ سال تمام پر صرف ۳۱ تولے تھا تو وہی ۹ ماشہ واجب رہیں گے کہ نصاب کے بعد خمس پورا ہونے تک زیادت معاف ہے، اسی طرح اگر تین۳ تولے سونا تو نہ ملا مگر مثلاً۲۰ذی الحجہ کو اس نے اپنی زمین یا غلّے یا اثاث البیت کے عوض اس قدرمالِ تجارت خریدا جس کی قیمت ۳ تولے سونے تک پہنچی تو اگر چہ اسے مِلک میں آئے ابھی دس۱۰ ہی دن گزرے مگرمجموع ۳۳ تولے کی زکوٰۃ واجب ہوگی۔ ہاں اگر اس کے پاس مثلاً ایک نصاب بکریوں اور ایک دراہم کی تھی اس نے دراہم کی زکوٰۃ ادا کردی اور اُن کے عوض اور بکریاں لیں، ان نئی بکریوں کےلئے آج سے سال شمار کیا جائے گا اگلی بکریوں میں ضم نہ کریں گے کہ آخر یہ اُسی روپے کے بدل میں جس کی زکوٰۃ اس سال کی بابت ادا ہوچکی اب اگر انھیں نصابِ شاۃ میں ملاتے ہیں تو ایک مال پر ایک سال میں دو۲ بار زکوٰۃ لازم آئی جاتی ہے اور یہ جائز نہیں۔
تنویر الابصار ودرمختار میں ہے:
المستفاد ولوبھبۃ ۱؎ (اوشراء میراث او وصیّۃ اھ ش۲؎ )وسط الحول یضم الی نصاب من جنسہ ۳؎ (مالم یمنع منہ مانع ھو الثنی المنفی بقولہ صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم ولا ثنی فی الصدقۃ اھ ش۴ ؎ ) فیزکیہ بحول الاصل ولوادی زکوٰۃنقدہ ثم اشتری بہ سائمہ لاتضم ۵؎ (الیٰ سائمۃ عندہ من جنس السائمۃ التی اشتراھابذٰلک النقد المزکی ای لا یزکیہا عند تمام حول السائمۃالاصلیۃعند الامام للمانع المذکور اھ ش ۶؎ )اھ بالتلخیص وفی ش ایضا احد النقدین یضم الی الاٰخرو عروض التجارۃ الی النقدین للجنسیۃ باعتبار قیمتھما بحر اھ ۱؎ ملخصاً واﷲتعالٰی اعلم۔
سال کے وسط میں جو بھی حاصل شدہ ہو خواہ بصورت ہبہ ہو (یا شراء یا میراث یا وصیّت کی صورت میں ہو اھ ش )اسے ہم جنس نصاب میں شامل کیا جائیگا بشرطیکہ اس میں کوئی مانع نہ ہو اور وہ تکرارِ زکوٰۃ ہے جس کی نفی سرورِعالم صلی اﷲتعالی علیہ وسلم نے ان الفاظ میں فرمائی کہ صدقہ میں تکرار نہیں اھ ش )تو حول اصل کی زکوٰۃ ادا کی جائے گی، اگر کسی نے نقدی کی زکوٰۃاد ا کی پھر اس نے سائمہ جانور خریدا تو وُہ اسے نہ ملائے (اصلی سائمہ کے ساتھ ) جن کو اس نے اس نقدی سے خریدا تھا جس کی زکوٰۃادا کردی گئی یعنی امام کے نزدیک مانع مذکور کی وجہ سے حول سائمہ اصلیہ کے اختتام پر مذکورہ سائمہ پر زکوٰۃ نہیں ہوگی اھ ش )اھ بالتلخیص، ش میں یہ بھی ہے کہ دونو ں نقدیں (سونے اور چاندی ) کو ایک دوسری جنسیت کے اعتبار سے ملایا جائے، سامانِ تجارت کو قیمت کے اعبتار سے نقدین کے ساتھ ملایا جائے، بحرا ھ ملخصاً واﷲتعالٰی اعلم(ت)
(۱؎ درمختار کتاب الزکوٰۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۱۳۳) (۲؎ ردالمحتار باب زکوٰۃ الغنم مصطفی البابی مصر ۲ /۲۵) (۳؎ درمختار باب زکوٰۃ الغنم مجتبائی دہلی ۱ /۱۳۳) (۴؎ ردالمحتار باب زکوٰۃ الغنم مصطفی البابی مصر ۲ /۲۶) (۵؎ درمختار باب زکوٰۃ الغنم مجتبائی دہلی ۱ /۱۳۳) (۶؎ ردالمحتار باب زکوٰۃ الغنم مصطفی البابی مصر ۲ /۲۶) (۱؎ ردالمختار باب زکوٰۃالغنم مصطفی البابی مصر ۲ /۲۶ )