اقول : لایخفی ان ھذا القول المعتمد منقول فی عامۃ الکتب بلفظ الفور وعدم التاخیر انما معناہ کما نصواعلیہ وافدتم انتم ھو الا تیان فی اول اوقات الامکان فالتقیید بعدم التاخیر عاما تغییر لا تفسیر و یظھر لی ان قضیۃ الدلیل ایضا تخالفہ فان العلماء کا لاما م فقیہ النفس والامام المحقق علی الاطلاق والامام حسین بن محمد السمعانی صاحب خزانۃ المفتین والعلامۃ برھان الدین ابی بکربن ابراھیم الحسینی صاحب جواھرالاخلاطی وغیرھم رحمھم اﷲتعالےٰ ذکر وا تعلیل تفرقۃ محمد با یجاب الزکوٰۃعلی الفور والحج متراخیابان الزکوٰۃ حق الفقراء فیأثم بتاخیر حقھم۱ بخلاف الحج فانہ خالص حق المولیٰ سبحانہ وتعالٰی وانت تعلم ان حق العبد بعد وجوب الداء والتمکن منہ لا یتا خر اصلا الا تری ان الاجل اذاحل فمطل الغنی ظلم وان قل، وکذا ماحقق المولی المحقق حیث اطلق من ان مع النص قرینۃ الفوروھو الشرع لدفع حاجۃ الفقراء وھی معجلۃ یدل علی الفور الحقیقی ولایتفاوت التسویف بعام و اعوام فی عدم حصول المقصود علی وجہ التمام لا جرم ان قال فی مجمع الانہر بعد ذکرہ الفتوی علی فوریۃالزکوٰۃ معنی یجب علی الفور انہ یجب تعجیل الفعل فی اوّل اوقات الامکان اھ ۱؎ ۔
اقول: واضح رہے کہ یہ قول معتمد عام کتب میں لفظِ فور اور عدمِ تاخیر سے منقول ہے اور اس کا معنٰی جیسا کہ فقہاء نے تصریح کی اور آپ خود افادہ کر چکے ہو کہ اوّل اوقاتِ امکان میں بجا لا نا ہے لہٰذا عدمِ تاخیر کو سال کے ساتھ مقید کرنا تغییر(بدل دینا ) ہے تفسیر نہیں ، اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ معاملہ دلیل بھی اس کی مخالفت کر رہا ہے کیونکہ علماء مثلاًامام فقیہ النفس ،امام محقق علی الاطلاق ،امام حسین بن محمد سمعانی صاحبِ خزانۃ مفتین اورعلّامہ برہان الدین ابو بکر بن ابراھیم الحسینی صاحب جواھرالاخلاطی وغیرہم رحمہم اﷲتعالےٰ نے امام محمد کے زکوۃ کو فی الفوراور حج کو علی التراخی لازم قراردینے کی علّتوں میں فرق کرتے ہوئے کہاکہ زکوٰۃ فقراء کا حق ہے تو ان کے حق میں تاخیر کی وجہ سے وُہ شخص گنہگار ہوگا بخلاف حج کے کہ وہ خالصۃًاﷲ سبحانہ وتعالٰی کا حق ہے، اور آپ جانتے ہیں کہ حق عبد وجودِ قدرت اور وجوبِ ادا کے بعد بالکل متأخر نہیں ہوتا، کیا آپ نے نہیں دیکھا جب قرض کی ادائیگی کا وقتِ مقررہ آجائے تو غنی کا ڈھیل و تاخیر کرنا ظلم ہوتا ہے اگر چہ وُہ تاخیر تھوڑی ہی کیوں نہ ہو ، اور اسی طرح مولی محقق نے تحقیق کرتے ہو ئے کہا کہ نص میں قرینہ فور ہے کہ زکوٰۃ حاجتِ فقراء کو دور کرنے کے لئے ہے اور اس میں تعجیل ہے جو فورِ حقیقی پر دال ہے،اب کامل طور پر مقصد کے عدم حصول میں سال یا متعدد سالوں کے اعتبار سے کوئی تفاوت نہیں ہوگاخصوصاً جبکہ مجمع الانہر میں فوریتِ زکوٰۃ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا فتوی فورِزکوٰۃ پر ہے''یجب علی الفور ''کا معنی یہ بیان کیا کہ اوّل اوقاتِ امکان میں فعل کو بجا لا نا واجب ہے اھ۔
(۱؎ ردالمحتار کتاب الزکوٰۃ ادارۃالطباعۃالمصریۃمصر ۲ /۱۳)
(۱؎ مجمع الانہر کتاب الزکوٰۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۱۹۲)
قد سمعت نص الخانیۃ اذقال ھل یأثم بتاخیرالزکوٰۃ بعدالتمکن اھ ۲؎ وقال فی خزانۃالمفتین یأثم بتاخیرالزکوٰۃ بعدالتمکن ومن اخرمن غیر عذر لا تقبل شہاتہ لان الزکوٰۃحق الفقراء فیأثم بتأ خیر حقہم اھ ۳؎ ملخصاً
اور آپ خانیہ کی اس تصریح پر بھی آگاہ ہیں کہ کیا تمکن کے بعدتا خیر زکوٰۃ سے انسان گنہگار ہوتا ہے یا نہیں ۱ھ ۔ اور خزانۃَالمفتین میں فرمایا: تمکن کے بعدتاخیر زکوٰۃ سے گنہگار ہوتاہے، اور جس نے بغیر عذر ادائیگی مؤخر کی اس کی شہادت مقبول نہیں کیونکہ فقراء کا حق ہے، تو ان کے حق میں تاخیر کرنا گناہ ہوگا اھ ملخصاً،
(۲؎ فتاویٰ قاضی خان کتاب الزکٰوۃ منشی نو لکشور لکھنؤ ۱ /۱۱۹)
(۳؎ خزانۃ المفتین فصل فی مال التجارۃ قلمی نسخہ ۱ /۵۳ )
فھذہ نصوص صرائح ومافی المنتقی مفہوم مع انہ ھوالذی یقضی بہ الدلیل فحق ان یکون علیہ التعویل نعم لاغرو فی تقیید ردالشھادۃبمرورۃالمدۃفان دلیل الفورظنی والثابت بہ الوجوب فترکہ صغیرۃلا ترد بہ الشہادۃالا بعدالاصرارولابدلذلک من مرور مدۃکما افاد البحرفی مسئلۃتاخیرالحج،واﷲتعالٰی اعلم۔
پس یہ صریح نصوص ہیں۔ اور جو کچھ المنتقیٰ میں ہے وہ مفہوم ہے باوجودیکہ دلیل کا تقاضا بھی یہی ہے، لہذا اسی پر اعتماد کرنا حق ہے، ہاں رَدِّ شہادت کو مدّت کے گزرنے کے ساتھ مقیّد کرنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ دلیلِ فور ظنّی ہے جس سے وجوب ثابت ہوگا ، لہذا اس کا ترک صغیرہ گناہ ہے، اس سے شہادت مردود نہیں ہوگی، ہاں مگر اس صورت میں جب ترک پر اصرارہو، لہذا اس کے لئے مدّت کا گزرنا ضروری ہے جیسا کہ بحر میں مسئلہ تاخیرِ حج میں تفصیل مذکورہے۔ واﷲتعالٰی اعلم (ت)
پھر بعد وجوبِ ادا تدریج کی مضرت اظہرمن الشمس کہ مذہبِ صحیح پر ترکِ فور کرتے ہی گنہگار ہوگا اور مذہب تراخی پر بھی تدریج نا مناسب کہ تاخیر میں آفات ہیں۔
وقال تعالٰی" سار عواالیٰ معفرۃ من ربکم "۴؎ وقال تعالٰی" فاستبقواالخیرات"۔۵؎
اﷲتعالٰی کا فرمان ہے: اپنے رب سے بخشش مانگنے میں جلدی کرو۔ اﷲتعالٰی کا ارشاد گرامی ہے: نیکیوں میں آگے بڑھو۔(ت)
(۴؎ القرآن ۳ /۱۳۳) (۵؎ القرآن ۲ /۱۴۸)
ظاہر ہے کہ وقتِ موت معلوم نہیں، ممکن ہے کہ پیش از ادا آجائے تو بالاجماع گنہگارہوگا۔
فان کل موسع یتضیق عند الموت کما نصوا علیہ ولذا صرح القائلون بتراخی الوجوب انہ یأثم عند الموت کما قد منا۔
کیونکہ واجب موسع، موت کے قریب مضیق ہوجاتا ہے جیسا کہ اس پر فقہاء نے تصریح کی ہے ،اور اسی وجہ سے علی التراخی وجوب کے قائلین موت کے قریب تارک کو گنہگار کہتے ہیں جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کر دیا ہے(ت)
اسی طرح تدریج میں اور دقتیں بھی محتمل،
کما لا یخفیٰ علیٰ خادم الفقۃ
(جیساکہ کسی بھی خادمِ فقہ پر مخفی نہیں۔ت) اور مالی و جانی حوادث سے محفوظ بھی رہا تو نفس پر اعتماد کسے ہے
ممکن کہ بہکادے اور آج جو قصدِادا ہے کل یہ بھی نہ رہے۔ سیّد نا امام ابن الامام کریم ابن الکرام حضرت امام محمد باقر رضی اﷲتعالٰی نے ایک قبائے نفیس بنوائی، طہارت خانے میں تشریف لے گئے، وہاں خیال آیا کہ اسے راہِ خدا میں دیجئے فوراً خادم کو آواز دی' قریب دیوار حاضر ہُوا، حضور نے قبائے معلّٰی اتار کردی کہ فلاں محتاج کو دے آ۔ جب باہر رونق افروز ہُوئے خادم نے عرض کی:اس درجہ تعجیل کی وجہ کیا تھی؟ فرمایا :کیا معلوم تھا باہر آتے آتے نیت میں فرق آجاتا۔ سبحان اﷲ!یہ اُن کی احتیاط ہے جو
(ان کے والد گرامی پر اﷲتعالی کی رحمتیں ہوں اور ان تمام پر بھی اور برکات و سلام۔ت) پھر ہم کہ سخرہ دست شیطان ہیں، کس امید پر بے خوف و مطلق العنان ہیں
و حسبنا اﷲو نعم الوکیل ولا حول ولاقوّۃالّاباﷲ العلی العظیم۔
میرے نزدیک چند باتیں لوگوں کو تدریج پر حامل ہوتی ہیں، کبھی یہ خیال کہ اہم فالا ہم میں صرف کریں یعنی جس وقت جس حاجتمند کو دینا زیادہ مناسب سمجھیں اُسے دیں۔کبھی یہ کہ سائل بکثرت آتے ہیں یہ چاہتا ہے مالِ زکوٰۃ اُن کے لئے رکھ چھوڑے کہ وقتاً فوقتاً دیا کرے کبھی یکمشت دینا ذرا نفس پر بار ہے اور تھوڑا تھوڑا نکلتا جائے گا تو معلوم نہ ہوگا۔ جنھیں یہ خیال ہوں اُن کے لئے راہ یہی ہے کہ زکوٰۃ پیشگی دیا کریں مثلاًماہِ مبارک رمضان میں اُن پر حولان حول ہوتا ہے تو رمضان ۸ کے لئےشوال ۷ سے دینا شروع کریں اور ختمِ سال تک بتدریج حسبِ رائے و مصلحت دیتے رہیں کہ اس میں ان کے مقاصد بھی حاصل ہوں گے اور تدریج مذموم و ممنوع سے بھی بچیں گے