فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۰(کتاب الزکٰوۃ، صوم، حج) |
اقول :فاذا کان ھذا ھواقضیۃ الدلیل والا لصق بمقصد الشرع الجلیل وھو الا حوط فی الدین والا دفع لکید الشیاطین والا نفع لفقراء المسلمین و قد جزم بہ المولیٰ فقیہ النفس قاضی الامّۃ وصححہ کمامر ویاتی من کبارالائمۃ و قد ثبت عن سا داتنا الثلٰثۃ مالکی الازمۃ وقد نص کثیرون ان علیہ الفتوی ومعلوم ان ھذا اللفظ اکد و اقوی فعلیہ فلیکن التعویل وا لاعتماد وان حکی التراخی ایضاعن الثلٰثۃالامجادوصححہ الباقانی والتا تارخانی بل قال المولی المحقق علی الاطلاق فی فتح القدیر ماذکر ابن شجاع عن اصحابناان الزکوٰۃعلی التراخی یجب حملہ علی ان المراد بالنظر الی دلیل الافتراض ای دلیل الا فتراض لا یو جبھا وھولا ینفی وجوددلیل الایجاب ۲؎ اھ
اقول: جب دلیل کا معاملہ یہ ہے تو یہ مقصد شرع جلیل سے متصل اور قریب ہے اور یہی دین میں احوط اور شیاطین کے مکر کو دفع کرنے والا اور فقراء مسلمین کے لئے زیادہ نافع ہے، اسی پر ہمارے سربراہ فقیہ النفس قاضی الامّت نے جزم فرمایا اور اسکو صیح قرار دیا جس کا ذکر گزرا اور کبارائمہ سے اس کی تصیح آرہی ہے ، اور ہمارے تینوں ائمہ جو مسلک کے سر تاج ہیں سے یہی ثابت ہے، اور کثیر فقہاء نے تصریح کی ہےکہ فتوٰی اسی پر ہے، اور یہ بات مسلّمہ ہے کہ یہ الفاظ مؤکد اور قوی ہیں ، لہذا اسی پر اعتماد ہونا چاہےے اگر چہ ان تینوں بزرگوں سے تراخی بھی منقول ہے اور اسے باقانی اور تاتارخانی نے صحیح کہا ہے بلکہ محقق علی الاطلاق نے فتح القدیر میں فرمایا : ہمارے احنا ف میں سے ابن شجاع نے جو یہ کہا کہ زکوٰۃ فی الفورم لازم نہیں اسے زکوٰۃ کی فرضیت کی دلیل سے منسلک کرنا ضروری ہے یعنی فرضیت کی دلیل فی الفورادائیگی کو واجب نہیں کرتی جبکہ اس سے فوری ادائیگی کی علٰیحدہ دلیل کی نفی نہیں ہوتی ۔
(۲؎ فتح القدیر کتاب الزکوٰۃ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۲ /۱۱۴)
قال العلّامۃالسیداحمد المصری فی حاشیۃ الدرالمختار واختارالکمال ان الزکوٰۃ فرضیۃ وفوریتھاواجبۃ ویصلح ھذا توفیقابین القولین ۳؎ اھ
علّامہ سیّداحمد مصری نےحاشیہ درمختار میں کہا کہ کمال کا مختار یہ ہے کہ زکوٰۃ فرض ہے اور فی الفور ادا کر نا واجب ہے، اس سے دونوں اقوال کے درمیان موافقت ممکن ہے اھ
(۳؎ حاشیۃالطحطاوی علی الدرالمختار کتاب الزکٰوۃ دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۳۹۶)
قلت : وکان ظھرلی التوفیق بان من قال بالتراخی فمرادہ ان وقتہ العمرفتکون ادا ء متی ادی وان اثم بالتاخیر ومن قال بالفور اراد انہ یاثم بالتا خیر وان لم یصربہ قضاء ولا بدع فی ذلک فان الحج فوری علی الراجح مع الاجماع علی انہ لوتراخی کان اداء ونظیرہ سجدۃ التلاوۃ وجوبھا فوری عندابی یوسف ومتراخ عند محمد و ھو المختار کما فی النھر والامداد والدرالمختار واذا اداھا بعد مدۃکان مؤدیا اتفاقاً لاقاضیا کما فی النھر الفائق وغیرہ،
قلت (میں کہتا ہوں ): میرے نزدیک تطبیق یوں ہو سکتی ہے کہ جس نے تراخی کی بات کی ہے اس کی مراد یہ ہے کہ وقتِ ادا تمام عمر ہے، تو جس وقت بھی ادائیگی کریگا زکوٰۃ ادا ہی ہو گی اگر چہ تاخیرسے گنہگار ہوگا، اور جس نے کہا ''فی الفورواجب ہے''اس کی مراد یہ ہے کہ تاخیر سے انسان گنہگار ہوجاتا ہے اگر چہ تاخیر سے قضا نہیں ہوگی، اور یہ کوئی نئی بات نہیں کیونکہ حج راجح قول کے مطابق فی الفور لازم ہے، حالانکہ اس پر اجماع ہے کہ اگر کسی نے دیر کے بعد حج کیا تو ادا ہی ہوگا، اس کی نظیرسجدہ تلاوت ہے جوامام ابو یوسف کے نزدیک فی الفور اور امام محمد کے نزدیک علی التراخی واجب ہے اور یہی مختار ہے جیسا کہ نہر ، امداد اور درمختار میں ہے اگر کسی نے مدت کے بعد سجدہ کیا تو بالاتفاق ادا ہی ہوگا ،اسے قضا کرنے والا نہ کہا جائیگا ،جیسا کہ النہرالفائق وغیرہ میں ہے ۔
اقول: لکن یخدش التوفیقین ما قد منا عن الخانیۃ حیث فرض المسئلۃ فی التأثیم ونص روایۃ ھشام عن ابی یوسف لا یأثم فلابدمن ابقاء الخلاف وترجیح الراجح اویقال ان ھشاماً انما سمع التراخی فنقل ھو او من روی عنہ بالمعنی علی ما فھم ولعل فیہ بُعداًیعرف وینکر فلیتدبر، واﷲ تعالٰی اعلم۔
اقول : ان دونوں تطبیقات کو خانیہ کی سابقہ عبارت مخدوش کر دیتی ہے کہ وہاں عنوانِ مسئلہ ہی گنہگار ہونے کے بارے میں ہے، اورامام ابو یوسف سے روایت ِہشام میں گنہگارنہ ہونے کی تصریح ہے لہذا اثبات اختلاف اور ترجیح راجح ضروری ہے یا یہ کہا جائے کہ ہشام نے تراخی سنا اور اسے نقل کردیا جس نے ان سے روایت بالمعنی کی اس نے اپنی سمجھ کے مطابق نقل کر دیا، شاید اس میں بعد معلوم ہو اور اجنبی سمجھا جائے ، تو غور کرو۔واﷲتعالی اعلم(ت) بلکہ ہمارے بہت ائمہ نے تصریح فرمائی کہ اس(زکوٰۃ) کی ادائیگی میں دیر کرنے والا مردود الشہادۃہے، یہی منقول ہے محرر مذہب سیّدناامام محمدرحمہ اﷲتعالےٰ سے،
کمامرعن الفتح والخانیۃومجمع النھر ومثلہ فی خزانۃالمفتین وفی شرح النقایۃعن المحیط وفی جواھرالا خلاطی وبہ جزم فی التنویر والدرکما سمعت ونقل الامام الخاصی وصاحب المضمرات شرح القد وری و الطحطاوی والشامی وغیرھم عن الامام قاضی خان ان علیہ الفتوی وبہ اخذالفقیہ ابو اللیث رحمہ اﷲتعالٰی ۔ اقول: وقول من قال تردشھدتہ یؤید کا لا یخفی ومن قال لافقولہ لا یخالفنااذلیس کل مایتر جح فیہ الاثم وان صغیرۃ ممایرد بہ الشھادۃ کمالیس بخاف علی من طالع کتاب الشھادۃ۔
جیسا کہ فتح ، خانیہ اور مجمع الانہر میں ہے۔اسی طرح خزانۃالمفتین اور شرح نقایہ میں محیط سے اورجواھرالاخلاطی میں ہے، اور اسی پرتنویر اوردر میں جزم کیا ہے جیسا کہ آپ سُن چکے۔ امام خاصی ، صاحب المضمرات شرح قدوری ، طحطاوی اورشامی وغیرہ نے امام قاضی خاں سے نقل کیا کہ اسی پر فتوٰی ہے ، اورفقیہ ابواللیث رحمہ اﷲتعالٰی نے اسے ہی لیا ہے ۔ اقول :جس نے یہ کہا کہ ''اس کی شہادت مردودہے ''اس نے ہماری تائید کی جیسا کہ مخفی نہیں، جس نے کہا ''مردود نہیں''وُہ ہمارے مخالف نہیں کیونکہ ہر وُہ شی جس میں گنہگار ہوناراجح ہو اگر چہ گناہ صغیرہ ہی ہو ایسی نہیں جس سے شہادت رد ہوجائے جیسا کہ یہ اس پر واضح ہے (مخفی نہیں )جس نے کتاب الشہادۃ کا معاملہ کیاہے۔(ت) اور شک نہیں کہ تدریج میں اگر کُل کی تاخیر نہ ہوئی تو بعض کی ضرور ہوگی حالانکہ اس پر واجب تھا کہ کل مطالبہ فی الفو ر ادا کرے،
لان الا یجاب الفوری انما ھو للکل لا للبعض وھذا ظاھر جدّا ثمّ فی معنی الفور ھھنا بحث للعلامۃ الشامی قدس سرّہ السامی حیث قال قولہ فیأثم بتاخیر ھا الخ ظاھرہ الاثم بالتاخیر ولوقلّ کیوم او یو مین لانھم فسروا الفورباول اوقات الامکان وقد یقال المرادان لا یؤخر الی العام المقابل لما فی البدائع عن المنتقی با لنون اذا لم یودحتی مضی حولان فقد اساء و أثم ا ھ فتأمل اھ۱؎
کیونکہ فوری واجب کرنا کُل کے لئے ہے نہ کہ بعض کے لئے، اور یہ نہایت ہی واضح ہے، پھر یہاں علّامہ شامی قدّس سرّہ السّامی کو معنی فور میں کلام ہے وُہ کہتے ہیں مصنّف کے قول''تاخیر زکوٰۃ سے گنہگار ہوگا ''الخ اس سے ظاہر یہی ہے کہ تاخیر اگر چہ تھوڑی ہو مثلاًایک یا دو ۲ دن، اس سے گنہگار ہوگا کیونکہ فقہاء نے فور کی تفسیر اوّل اوقاتِ امکان سے کی ہے، اور کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ مراد یہ ہے کہ آئندہ سال تک تاخیر نہ ہو کیونکہ بدائع میں منتقی سے ہے کہ جب کئی سال گزر جائیں اور (زکوٰۃ کی) ادائیگی نہ کی ہو تو یہ بُرا اور گناہ ہے اھ فتأمل۔
(۱؎ ردالمحتار کتاب الزکوٰۃ دارحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۱۳)