فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۰(کتاب الزکٰوۃ، صوم، حج) |
مسئلہ ۲۴: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں زید کے پاس تخمیناً۵۲ تولے حبہ ماشہ زیور طلائی موجود ہے اور علاوہ اس کے تخمیناً۱۵ تولے زیور نقرئی و ۲ تولے زیور طلائی با لعوض مبلغ ؎ روپیہ کی رہن ہے اور ؎ روپے نقد بھی موجود ہیں اور مالِ تجارت میں کہ جو فروخت سے باقی رہ گیاہے وہ تخمیناً ما ۱۴۶ ؎ ۱۲کا ہے تواس میں زکوٰۃ کس طور سے ادا کی جائے گی۔
الجواب : اتنا زیور رہن ہے، اس کے دو۲معنی ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ اتنا زیور دوسرے شخص کا اس کے پاس ؎ پر رہن ہے، دوسرے یہ کہ اتنا اس کو دوسرے کے پا س ؎ پر رہن ہے، پہلی صورت میں وُہ زیور اس کا نہیں اس کی زکوٰۃاس پر نہیں ہوسکتی، بلکہ اُس چھپن ۵۶ پر زکوٰۃ ہو گی جو اس نے اس راہن کو قرض دئے ہیں اور اس تقدیر ہر اس کے پاس مال زکٰوۃ یہ ہوا دو ماشے سونا ۵۲ چاندی اور ؎ روپیہ اور م ؎ ۱۲ کا مالِ تجارت ۲ ماشے سونا ہونے کا نصاب نہیں اسے بھی چاندی میں شامل کیا جائے گا، اگر للع ؎ تولے کا ہے تو چار روپے اس کے پڑ یں گے اور ۵۲ تولے ۶ماشے وزن کے ؎ ہوئے توکل مال ۲۷۲ ؎ ۱۲بھر چاندی ہوا، جس میں چار نصاب کامل ما للع ؎ ہیں اور چار خمس نصاب للع للع ۱۲ ۹ -۳/۵ پائی اُس پر واجب ۶تولے ۳ ما شے ۴-۴/۵رتی چاندی ہوئی باقی عفو ہے ، دوسری صورت میں وُہ زیور اُسی کا ہے مگر اس کی زکوٰۃ اس پر واجب نہیں جب تک وُہ قبضہ مرتہن میں رہے، اس تقدیر پر فی الحال اس کے پاس مال زکوۃ یہ ہوا دو ۲ ماشے سونا ۵۲ تولے اور چھ ۶ ماشہ چاندی اور ما ؎ ۱۲ نقد و مال تجارت جس میں سے ؎ دین کے نکل کر ایک سو روپیہ بارہ۱۲ آنے رہے ، سونا چار روپے کا ہو تو کُل ما ؎ ۱۲ہوئے جس میں دو۲نصاب کامل ما ؎ ہیں اور چار خمس نصاب للع للعہ ۳/۵ پائی، اُس پر واجب ۳ تولے ۸ ماشے ۴/۵رتی چاندی ہُوئی باقی عفو ہے ۔ واﷲتعالیٰ اعلم۔
مسئلہ ۲۵:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اد ا ئے زکوٰۃ کے واسطے چاندی کا نصاب کس قدر روپیہ یا کس قدر وزن ہے اور ایسے ہی سونے کا کس قدر ہے؟رانی کھیت میں چند دنوں سے ایک عالم واعظ وارد ہیں ، انہوں نے وعظ میں فرمایا کہ پانچ کم دو سو پر زکوٰۃ فرض نہیں، جس وقت دو سو روپے ہوجائیں اور ایک سال اُن پر گزر جائے اس وقت زکوٰۃ دینا فرض ہوگی اور روپیہ رائج الوقت گورنمٹ انگلشیہ کا،جس کا وزن سوا گیارہ ماشے ہے۔ بینواتوجروا
الجواب : اللھم ھدایۃ الحق والصواب
(اے اﷲحق اور صواب کی ہدایت عطا فرما۔ ت)چاندی کا نصاب ساڑھے باون تولے ہے جس کے سکّہ رائجہ سے چھپن۵۶ روپے ہوئے، اور سونے کا نصاب ساڑھے سات تولے۔ درمختار میں ہے :
نصاب الذہب عشرون مثقال والفضۃ مائتا درھم کل عشرۃدراھم وزن سبعۃ مثاقیل۔ ۱؎
سونے کا نصاب بیس ۲۰ مثقال اور چاندی کا دو سو درہم جن سے ہر دس۱۰ درہم کا وزن سات مثقال ہوسکے(ت)
درمختار کتاب الزکوٰۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۱۳۴)
ثقال ساڑھے چار ماشے ہے تو درہم کہ اس کا ۷/۱۰ ہے تین ماشے ایک رتی اور پانچواں حصہ رتی کا ہوا۔ کشف الغطاء میں ہے :
مثقال بیست قیراط وقیراط ایک حبہ و چہارخمس حبہ وحبہ کہ آنر ابفارسی سرخ گویند ہشتم حصّہ ماشہ است پس مثقال چہار و نیم ماشہ باشد۔ ۲؎
مثقال بیس قیراط، اور قیراط ایک رتی اور رتی کے خمس کی چوتھائی ہوتا ہے، رتی جسے فارسی میں سرخ کہا جاتا ہے ماشہ کا آٹھواں حصہ ہوتا ہے، تو ایک مثقال ساڑھے چار ماشے کا ہوگا۔ (ت)
(۲؎ کشف الغطاء فصل دراحکام دعاء و صدقہ مطبع احمدی دھلی ص/۶۸)
واہرالاخلاطی میں ہے:
الدرھم الشرعی خمس و عشرون حبۃ و خمس حبّۃ۔ ۳؎
یعنی درہم شرعی پچیس رتی اور پانچواں حصہ رتی کا ہے۔
(۳؎ جواہر الاخلاطی کتاب الزکوٰۃ غیر مطبوعہ قلمی نسخہ ص ۴۴)
اب حساب سے واضح ہوسکتا ہے کہ دوسو درم نصاب فضہ کے ۵۲تولے ۶ماشے اور بیس مثقال، نصاب ذہب کے ۷ تولے ۶ماشے ہوئے اور یہاں کا روپیہ کہ ۱۱ ماشہ ہے اس سے ؎ روپے دوسو درہم کے برابر ہوئے ، یہی وزن معین متون مذہب و عامہ شروح و فتاوٰی میں ہے، ردالمحتار میں فرمایا:
علیہ الجم الغفیرو الجمھور الکثیر و اطباق کتب المتقدمین والمتاخرین۔ ۴؎
جم غفیر اور جمہور اسی پر ہیں اور کتب متقدمین و متاخرین کا اسی پر اتفاق ہے۔ (ت)
(۴؎ ردالمحتار کتاب الزکوٰۃ مصطفی البابی مصر ۲ /۳۲)
تو اس کے خلاف پر عمل جائز نہیں، عقودالدریہ وغیر ہا کتب کثیرہ میں ہے:
العمل بما علیہ الاکثر۵؎
(عمل اسی پر ہوگا جس پر اکثریت ہو۔ ت)
(۵؎ ردالمحتار کتاب الزکوٰۃ مصطفی البابی مصر ۱ /۱۶۶)
فقیر نے اپنے تعلیقات حاشیہ شامی میں لکھا:
اقول : ویظہر للعبد الضعیف انہ الا وجہ فان الشرع المطہر انما اعتبر النصاب تحدیدا لغنی یوجب الزکوٰۃ والغنی با لمالیۃ النامیۃ دون العددفمن ملک مائۃ ساوت مائتی درھم فقد ساوی الغنی الشرعی فی الموجب ارأیت لو تعورف فی بلد درھم یساوی فی الوزن مائتی درھم ولم یوجب علیہ الابعد مایملک مائتین من ھذا کان حاصلہ ان من ملک فی العرب مثلا ھذا القدر من الفضۃ کان غنیاقد انعقد علیہ النصاب ومن ملک فی ذلک البلد قریبا من مائتی امثال تلک الفضۃ یکون فقیراً لا یخاطب بالزکوٰۃ بل یحل لہ اخذ الزکوٰۃ فیؤل الی ان من ملک قدر ربیۃ یا مرہ الشرع بان یعطی من ربیتہ لمن یملک مائتی ربیۃ الاواحدۃمسدالخلتہ،فانہ لقلۃ مالہ فقیر وھذا غنی ،ھذا مما لا یقبلہ العقل فافھم، واﷲتعالیٰ اعلم اھ ۱؎ماکتبتہ۔
اقول اس عبدِ ضعیف پر واضح ہوا ہے کہ یہی مختار ہے کیونکہ شریعتِ مطہرہ نے غنا کی حد بندی کرتے ہوئے ایسے نصاب کا اعتبار کیا ہے جو زکوٰۃ کے وجوب کا سبب ہو اور غنا مالیتِ نامیہ کی وجہ سے ہے نہ کہ تعداد کی وجہ سے، پس جو شخص ایسے سَو کا مالک ہوا جو دوسو درہم کے برابر ہے تو وہ موجب میں غنائے شرعی کے برابر ٹھہرا۔ بتائیے اگر کسی شہر میں ایک ایسا درہم رواج پائے جس کا وزن دوسو درہم کے برابر ہو، تو کیا اس پر زکوٰۃ صرف اس صورت میں واجب ہوگی جب وہ اس درہم جیسے دوسودرہم کا مالک بنے ، تو حاصل یہ ہوگا کہ کوئی عرب دوسودرہم کے بر ابر چاندی کا مالک بن جائے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہوجائے کیونکہ وہ نصاب کا مالک ہوکر غنی ہوگیا، اور جو شخص اس بھاری درہم والے شہر میں اس چاندی کے دوسو گنا کے قریب کا مالک بنے وُہ فقیر رہے اور نصاب کا مالک نہ ہونے پر زکوٰۃ لے سکے،تو گویا عدد کے اعتبار سے بات یُوں ہُوئی کہ جو شخص ایک روپے کی مقدار کا مالک ہوا سے شریعت حکم دے رہی ہے کہ وُہ اپنے ایک روپے سے اس شخص کو زکوٰۃ دے جو ایک کم دوسوروپے کا مالک ہے تاکہ اس کی حاجت پُوری ہوسکے کیونکہ یہ قلّتِ مال کی وجہ سے فقیر ہے اور ایک روپے والاغنی ہے، اور یہ ایسی چیز ہے جسے عقل قبول نہیں کرتی ، غور کیجئے۔ واﷲتعالیٰ اعلم (ت)
( ۱؎ جد الممتار باب زکوٰۃ المال مطبع مبارکپور(بھارت) ۲/ ۱۲۸)