مسئلہ ۲۰:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ۴۴برس ہوئے جو میں ۱۳ تولے ۶ ماشے سونے اور ؎ بھرچاندی کی مالک ہُوئی، چاندی نو دس برس تک بدستور رہی ، گیارھویں سال خرچ ہوگئی، اور سونا دو۲برس تک اُسی قدر رہ کر تیسرے سال پانچ تولہ خرچ ہو گیا کہ سال تمام میں صرف ۸ تولے ۶ ماشے تھا پانچویں سال ڈھائی تولہ اور خرچ ہوا کہ سال تمام میں صرف ۶ تولہ تھا اور وہی بیالیس برس تک رہا، پھر وُہ بھی اپنے دختر کو ہبہ کردیا، جن برسوں تک وُہ چاندی میرے پاس تھی بلکہ اُس کے بعد بھی سونے کا بھاؤ ( ؎ ) تولہ رہا اور چاندی روپیہ کی روپیہ بھر، اس صورت میں مجھ پر زکوٰۃ کس قدر واجب ہے؟بینوا توجروا۔
الجواب ظاہر ہے کہ :
سالِ اوّل میں سونا بقدرِ نصاب بلکہ زائد ہُوا اور چاندی نصاب تک بھی نہ پہنچی تو اُسی کے سونے سے قیمتاًضم کریں گے اُس وقت کے نرخ سے ؎کا ۳ ماشہ ۴ سرخ سونا ہُوا تو گویا اُس سال ۱۶ تولے،۷ ماشہ ۴ سرخ سونا تھا جس میں ۱۵تولے دو نصاب کامل ہیں اُن پر واجب ۴ ماشہ ۴ سرخ سونا اور ڈیڑھ تولہ نصاب خمس ہے جس پر واجب ۳-۳/۵سرخ ، کل واجب ۴ ماشے ۷-۳/۵سرخ، باقی ایک ماشہ ۴ سرخ عفو رہا۔
سالِ دوم بعد اخراج دین زکوٰۃ گویا ۱۶ تولے ۲ماشہ ۷-۲/۵ سرخ سونا تھا جس میں دو ۲ نصاب کامل کا واجب ۴ ماشہ ۴ سُرخ ، باقی ایک تولہ ۲ ماشہ ۴-۱/۵سُرخ عفو، مجموع واجبین ۹ ماشہ ۳ -۳/۵سرخ۔
سال سوم صرف ۸ تولے ۶ ماشے سونا تھا بعد ضم فضّہ ۱۱ تولے ۷ ماشے ۴ سرخ ہوااس سے مجموع واجبین منہا کیا تو ۱۰ تولے ۱۰ ماشے ۲/۵ سرخ سونا بچا کہ ایک نصاب کامل ہے واجب ۲ ماشہ ۲سرخ ،اوردو نصاب خمس واجب ۷-۱/۵ سرخ، کل واجب ۳ ماشہ ۱-۱/۵سرخ ، باقی ۱۰تولے سے جو زائد تھا عفو ہوا۔ کل واجبات ایک تولہ ۴-۴/۵سرخ۔
سا ل چہارم بھی اُتنا ہی سونا یعنی ۱۱تولے۷ ماشے ۴ سرخ تھا بعد اخراج واجبات۱۰تولے ۶ ماشہ ۱/۵سرخ بچاکہ اس پر بھی وہی نصاب کامل و دو۲نصاب خمس کا ۳ماشہ ۱-۱/۵سرخ واجب ہوا، زیادہ کی رتیاں عفو ہیں، کل واجبات ایک تولہ ۳ ماشہ ۶سرخ۔
سال پنجم صرف ۶تولے سونا تھا کہ بعد اخراج واجبات ۴تولہ ۸ماشہ ۲سرخ رہا، یہ بھی نصاب نہیں اور اُدھر چاندی بھی نصاب نہیں، اب اگر سونے کو چاندی کرتے ہیں تو اس کی قیمت ؎ ہوکر ما ؎ کی چاندی ٹھہرتی ہے جس میں دو۲نصاب کامل ما ؎، ایک نصابِ خمس لہ ؎/۳/ ۲-۲/۵پائی، کل ما ؎ /۲ -۲/۵پائی، باقی۱۲ عہ/۹-۳/۵عفو، اور اگر چاندی کو سونا کرتے تو ؎ کا ۳ تولے ۱ ماشہ ۴سرخ سونا مل کر کل سونا ۷تولہ ۹ ماشہ ۶سرخ قرار پاتا ہے جس میں صرف ایک نصاب کامل ، باقی ۳ ماشے ۶سرخ سونا معاف رہے گا۔ ظاہر ہے کہ عصہ اُس عفو سے کہیں زیادہ ہے تو اس صورت میں نفعِ فقراء چاندی ہی کرنے میں ہے لہذا و ہی کریں گے اور ۲ تولہ ۱۰ماشہ ۵-۱/۵سرخ چاندی واجب مانیں گے۔
سالِ ششم سونا وہی ۴تولہ ۸ ماشہ ۲ سرخ ہے مگر چاندی بوجہ دین سال پنجم گھٹ گئی ؎ کی چاندی کا وزن ۴۶تولے ۱۰ ماشے ۴ سرخ ہے جس سے واجب سالِ پنجم گھٹا کر ۴۳تولے۱۱ ماشے ۶-۴/۵سرخ چاندی بچی۔ کُل کو چاندی کرتے ہیں تو سونے کے ؎؎؎؎ روپیہ کے ۷۰تولے ۳ ماشے ۶ سرخ چاندی مل کر کُل چاندی ۱۱۴ تولے ۳ ماشے ۴-۴/۵سرخ ہوتی ہے جس میں ۱۰۵ تولے کے صرف دو۲ نصاب کامل، باقی ۹ تولے ۳ ماشے ۴-۴/۵سرخ عفو رہے گی ، اور کل کو سونا کرتے ہیں تو ۴۳ تولے ۱۱ ماشے ۶-۴/۵سرخ چاندی کا سونا ۲ تولے ۱۱ ماشے ۱-۱۳/۲۵ سرخ ملا کر کل سونا ۷ تولے ۷ ماشے ۳-۱۳/۲۵سرخ ہوا جس میں ۷-۱/۲ تو لے نصاب کامل اور صرف ایک ماشہ ۳-۱۳/۲۵ سرخ عفو بچا، پُر ظاہر ہے کہ یہ عفو عفوِ سیم سے بہت کم ہے لہذا اس سال سونا ہی کریں گے اور۲ ماشہ ۲ سرخ طلا واجب مانیں گے، کل واجباتِ ذہب ایک تولہ ۶ ماشہ، فضّہ ۲ تولے ۱۰ ماشے ۵-۱/۵سرخ۔
سال ہفتم چاندی تو وہی ۴۳ تولے ۱۱ ماشے ۶-۴/۵سرخ رہی مگر سونا صرف ۴تولے ۶ ماشے رہا کہ واجب سال ششم نکل گیا جس کا ۶۷تولے ۶ ماشے چاندی کرنے میں کل فضّہ ۱۱۱تولے ۵ ماشے ۶-۴/۵سرخ جس میں وہی دو۲ نصاب کامل نکل کر ۶ تولے ۵ ماشے ۶-۴/۵سرخ عفو ہوگی، اور سونا کرنے میں کل ذہب ۷تولے ۵ ماشے ۱-۱۳/۲۵سرخ ہوتا ہے کہ نصاب سے بھی گھٹ کر سب عفو ہوا جاتا ہے، لہذا اس سال سب چاندی ہی کریں گے اور وہی ۲تولے ۱۰ ماشے ۵-۱/۵سرخ سیم واجب مانیں گے، اب کل واجباتِ ذہب وہی ایک تولہ ۶ ماشہ، اور فضّہ ۵تولے ۹ماشے ۲-۲/۵سرخ۔
سال ہشتم سونا وہی ۴ تولے ۶ ماشے ،اور چاندی ۴۱تولے ایک ماشہ ۱-۳/۵سرخ رہی کہ واجب سال ہفتم خارج ہو گیا،
ظاہر ہے کہ اب کبھی سونا نہیں کرسکتے کہ جب سال ہفتم چاندی ۲ تولے ۱۰ ماشے ۵-۱/۵ سرخ اس سے زائد تھی وہ اس سونے میں مل کر تو نصاب ذہب نہ بناتی تھی اب اتنی گھٹ کر کس طرح نصاب بناسکے گی، لہذااس سونے کے وہی ۶۷ تولے ۶ماشے چاندی ملا کرکل چاندی ۱۰۸تولے ۷ماشے ۱-۳/۵سرخ مانی، اس میں بھی ۱۰۵ تولے پر وہی ۲ تولے ۱۰ماشے ۵-۱/۵سرخ سیم واجب ہوئی، باقی معاف، وہی کل واجباتِ ذہب ایک تولہ ۶ ماشے، فضہ ۸ تولے ۷ماشے ۷-۳/۵ سرخ۔
سال نہم واجب سالِ ہشتم گھٹ کر مع سیم ذہب کُل چاندی ۱۰۵ تولے ۸ماشے ۴-۲/۵ سرخ بچی جس پر تولوں کے ۷ تولے کی کسریں عفو ہوکر واجب مذکور لازم آیا،کل واجباتِ ذہب بدستورِ فضہ۱۱ تولے ۶ ماشے ۴-۴/۵سرخ ۔
سال دہم واجب سالِ نہم گھٹ کر کل چاندی ۱۰۲تولے ۹ ماشے ۷-۱/۵سرخ بچی، اب دوسرا نصاب کامل نہ رہا بلکہ صرف ایک نصاب کامل اور چار نصاب خمس ہیں جب پر واجب ۲ تولے ۷ماشے ۴ سرخ، کل واجباتِ ذہب بدستور ۔ فضہ ۱۴ تولے ۲ ماشے ۴/۵سرخ۔
سال یازدہم میں چاندی نہ رہی اور سونا کہ باقی رہا قابلِ نصاب نہیں لہذا دس سال کے بعد آج تک کچھ واجب نہ ہُوا اور کل مطالبہ سونا ڈیڑھ تولہ ، چاندی ۱۴ تولے ۲ ماشے ۴/۵ سرخ لازم آیا۔ واﷲسبحانہ وتعالیٰ اعلم۔
مسئلہ۲۱: از مفتی گنج ضلع پٹنہ ڈاک خانہ ایکہگر سرائے مرسلہ محمد نواب صا حب قادری و دیگر سکانِ مفتی گنج ۲۷ رمضان شریف ۱۳۱۸ھ
زید کی بیوی ہندہ صاحبِ نصاب ہے اور مال ازقسم زیورات ہے جو خاص ہندہ کی ملکیت ہے یعنی وُہ اپنے میکے سے لائی ہے زید اس کو ہدایت ادائے زکوٰۃ کی کرتا ہے مگر اس کی سمع قبول میں نہیں آتی ہے تویہ فرمائیے کہ شوہر سے اُس کے عصیاں پر مواخذہ ہے یا نہیں اور اس کی طرف سے درانحالیکہ اس کی آمدنی وجہ کفاف سے بیش نہیں ،ادائے زکوٰۃ کا مکلّف شرعاً ہو سکتا ہے یا نہیں اور اُس عورت پر زجر اور فہمائش کی ضرورت ہو تو کس حد تک، اور اگر زید نے اپنے روپیہ سے کچھ زیور بنواکر ہندہ کو دیا ہو تو اس زیور پر کیا حکم ہے؟
الجواب : زیور کہ ملکِ زن ہے اس کی زکوٰۃ ذمہ شوہر ہرگز نہیں اگر چہ اموالِ کثیرہ رکھتا ہو، نہ اس کے دینے کا اس پر کچھ وبال
لاتزروازرۃ وزرا خری ۱؎
(کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائیگی۔ ت)
(۱؎ القرآن ۶ /۱۶۴)
اس پر تفہیم و ہدایت اور بقدر مناسب تنبیہ و تاکید(جس کی حالت اختلاف حالات مرد وزن سے مختلف ہوتی ہے ) لازم ہے
قواانفسکم و اھلیکم نارا ۱؎
(اپنے آپ اور اپنے اہل کو آگ سے بچاؤ۔ ت)
(۱؎ القرآن ۶۶ /۶)
اور وُہ زیور کہ عورت کو دیا اور اس کی مِلک کردیا اُس پر بھی یہی حکم ہے، اور اگر مِلک نہ کیا بلکہ اپنی ہی مِلک میں رکھا اور عورت کو صرف پہننے کو دیاتو بیشک اس کی زکوٰۃ مرد کے ذمّہ ہے جبکہ خود دیا یا دوسرے مال سے مل کر قدر نصاب فاضل عن الحاجۃ الاصلیہ ہو۔ واﷲتعالیٰ اعلم۔
مسئلہ ۲۲: مرسلہ عبدا لصبور صاحب سوداگر ۶ ذی الحجۃ ۱۳۲۱ھ
ایک شخص نے ایک ہزار روپے کسی روزکار میں لگائے، بعد سال ختم ہو نے کے اُس کے پاس مال دوسو۲۰۰ روپیہ کا رہا اور قرض میں پانچ سو روپیہ رہااور نقد چار سو روپیہ مع منافع ایک سو رہا، آیا کُل گیارہ سو روپیہ کی زکوٰۃ نکا لی جائے یا کس قدرکی؟
الجواب سالِ تمام پرکُل گیارہ سو کی زکوٰۃ واجب ہے مگر چار سو نقداور دو سو کا مال ، ان کی زکوٰۃ فی الحال واجب الادا ہے اور پانچسو کہ قرض میں پھیلا ہُوا ہے جب اس میں سے بقدر گیارہ روپےتین آنے ۲-۲/۵ پائی کے وصول ہوتا جائے اُس کا چالیسواں حصّہ ادا کرتا ہے اور اگر فی الحال سب کی زکوٰۃ دے دے تو آئندہ کے با ربار محاسبہ سے نجات ہے۔ واﷲتعالیٰ اعلم۔
مسئلہ ۲۳: از شہر مسؤلہ منشی شوکت علی صاحب محرر چونگی ۱۸ ذی الحجۃ ۱۳۳۹ ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ حساب قیمت کا جس وقت زیور بنوایا تھا وہ رہے گا یا نرخِ بازار جو بر وقت دینے زکوٰۃ کے ہے۔ بینو اتو جروا۔
الجواب : سونے کے عوض سونا، چاندی کے عوض چاندی زکوٰۃ میں دی جائے جب تو نرخ کی کوئی حاجت ہی نہیں، وزن کا چالیسواں حصہ دیا جائے گا، ہاں اگر سونے کے بدلے چاندی یا چاندی کے بدلے سونا دینا چاہیں تو نرخ کی ضرورت ہوگی، نرخ نہ بنوانے کے وقت کا معتبر ہو نہ وقت ادا کا،اگر ادا سال تمام کے پہلے یا بعد ہو جس وقت یہ مالکِ نصاب ہُوا تھا وہ ماہ عربی و تاریخ وقت جب عود کریں گے اس پر زکوٰۃ کا سال تمام ہوگااس وقت نرخ لیا جائے گا۔ وا ﷲتعالیٰ اعلم