فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۰(کتاب الزکٰوۃ، صوم، حج) |
مسئلہ سابعہ: صحیح تعدادِ زکوٰۃ نہ معلوم ہونے کی وجہ سے جوہر سال مقدار واجب سے کم زکوٰۃ میں دیا گیا ہے وہ محسوب زکوٰۃ ہُوا یا نہیں؟بیّنواتو جروا۔
الجواب : بیشک محسوب ہُوا کہ ادائے زکوٰۃ کی نیت ضرور ہے مقدار واجب کا صحیح معلوم ہونا شرائطِ صحت سے نہیں، غایت یہ کہ ایک جزءِ واجب کے ادا میں تاخیر ہوئی اس سے مذہب ِ راجح پر گناہ سہی زکوٰۃ مؤدٰی کی نفی صحت تو نہیں
والامر بین غنی عن التبیین
(معاملہ واضح ہے مزید وضاحت کا محتاج نہیں۔ت) پس ہر سال جتنا زکوٰۃ میں دیا وہ قطعاًادا ہُوا اور جو باقی رہتا گیا وہ اس پر دین ہوا حتی کہ اگر کسی نصاب سے معارض ہوجائے گا تو اُسی قدر مقدار واجب گھٹ جائے گی ۔ تشریح اس کی یہ ہے کہ دین عبد(یعنی بندوں میں جس کا کوئی مطالبہ کرنے والا ہو ا اگر چہ دین حقیقۃً اﷲ عزوجل کا ہوِ جیسے دین زکٰوۃ جس کا مطالبہ بادشاہ اسلام اعزاللہ نصرہ کو ہے ) انسان کے حوائج اصلیہ سے ہے ایسا دین جس قدر ہوگا اتنا مال مشغول بحالتِ اصلیہ قرار دے کر کالعدم ٹھہرے گا اور باقی پر زکوٰۃ واجب ہوگی اگربقدر نصاب ہو، مثلاًہزار روپے پر حولانِ حول ہواور اس پرپانسو قرض ہیں توپانسو پر زکوٰۃ آئے گی اور ساڑھے نوسودین ہے تو اصلاًنہیں کہ باقی قدر نصاب سے کم ہے ۔
درمختار میں ہے:
لازکوٰۃ علی مدیون للعبد بقدردینہ فیزکی الزائد ان بلغ نصابا۔ ۱؎
بندہ کے قرضدار پر قرض کی مقدار پر زکوٰۃ نہیں ، ہاں اگر قرض سے زائد نصاب کو پہنچ جائے تو پھر اس کی زکوٰۃ ادا کرے۔(ت)
(۱؎ درمختار کتاب الزکوٰۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۱۲۹)
اُسی میں ہے :
فارغ عن دین لہ مطالب من جھۃ العباد سواء کان ﷲتعالیٰ کزکوٰۃ وخراج او للعبد۱؎ الخ۔
اس دین سے فارغ ہو جس کا مطالبہ بندوں کی طرف سے ہے خواہ وُہ اﷲکے لیے ہو مثلاًزکوٰۃ و خراج یا بندے کے لیے الخ(ت)
( ۱؎ درمختار کتاب الزکوٰۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۱۲۹)
درالمحتار میں ہے :
المطالب ھنا السلطان تقدیر ا لان الطلب لہ فی زکوٰۃ السوائم وکذا فی غیر ھالم یبطل حقہ عن الاخذ ۲؎ اھ ملخصاًوایضاحہ فیہ۔
یہاں مطالبہ کرنے والا سلطان کو تسلیم کیا جائیگا کیونکہ چار پایوں کی زکوٰۃ وہی طلب کرسکتا ہے اور اس طرح ان کے علاوہ میں اس کے لیے اخذ زکوٰۃ کا حق باطل نہیں ہوگا اھ ملخصاًاور اس کی وضاحت اس میں ہے (ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الزکوٰۃ مصطفی البابی مصر ۲ /۵)
یونہی دو سوچالیس ۲۴۰ درہم شرعی کہ ایک نصاب کامل و ایک خمس ہے (دو سو درم کی ۵۲ -۱/۲تولے چاندی ہوئی اور چالیس کی ۱۰-۱/۲تولے) ان پر چھ۶درم شرعی زکوٰۃ کے واجب ، اگر مالک جہلاً یا سہواً یا عمداًہر سال پانچ درہم دیتا گیا (عہ)تو سال اوّل ایک درم زکوٰۃ کا اس پر دین رہا،دوسرے سال وُہ گویا دو سوانتالیس۲۳۹ ہی درہم کی جمع رکھتا ہے کہ ایک درہم مشغول بہ دین ہے تو نصاب خمس کہ دوسو کے بعد چالیس کامل تھا جاتا رہا اور اس سال تمام صرف دوسو۲۰۰درہم کی زکوٰۃ یعنی پانچ ہی واجب ہُوئے ،
(عہ) یعنی اپنی آمدنی سے دیتا رہا اور جمع اُسی قدر قائم رہی نہ کم ہُوئی نہ زائد ۱۲ منہ (م)
پس وُہ جب تک ایک درہم مذکور ادا نہ کرے یا سال تمام پر اُس کی حاجت سے فارغ ایک درہم اور جمع نہ ہوجائے جب تک ایک درہم مذکورادا نہ کرے یا سال تمام پر اُس کی زکوٰۃ کی تاخیر سے گنہگار ہوگا اور یہ گناہ اصرار کے بعد کبیرہ ہوجائے گا والعیاذباﷲ تعالےٰ ، اور اگر صورت ِ مذکورہ میں فرض کیجئے کہ وُہ ہر سال ایک ہی درم دیتا رہا تو سالِ اوّل اس پر پانچ درم زکوٰۃ کے دین رہے ، سالِ دوم میں گویا صرف دو سو پینتیس۲۳۵جمع ہیں اس سال وہی پانچ ہُوئے اور دیا ایک ہی'تو اب چار اور قرض ہو کر نو درم دین ہو گئے تیسرے سال تیرہ۱۳، چوتھے سال ۱۷، یونہی ہر سال دینِ زکوٰۃ میں چار چار بڑھتے جائیں گے اور واجب وہی پانچ پانچ ہوتے رہیں گے دو سو ۲۰۰ دوسوانتالیس۲۳۹ تک پانچ ہی درم ہیں ، جب سالِ دہم میں اکتالیس ۴۱ درہم دین ہوجائیں گے تو گیارھویں سال اس پر زکوٰۃ ہی نہ ہوگی کہ جمع صرف ایک سو ننانوے۱۹۹ ٹھہریں گے کہ نصاب سے کم میں سالِ یا زدہم بھی اگر اس نے ایک درہم حسب ِ دستور دے دیا تو پھر پانچ درہم واجب ہوجائیں گے کہ اب دین میں صرف چالیس درہم رہے اور دوسوپورے جمع قرار پائے وعلی ہذاالقیاس ۔ غرض سنین ماضیہ میں کم دینے والا اس نفیس حساب کو خوب سمجھ کر جتنا دین اس کے ذمّے نکلے فی الفور ادا کرے۔
دالمحتار میں ہے:
لو کان لہ نصاب حال علیہ حولان ولم یزکیہ فیھما لا زکوٰۃ علیہ فی الحول الثانی ۔ ۱ھ ۱؎ واﷲتعالیٰ اعلم۔
اگر کسی کے پاس ایک ہی نصاب ہے جس پر ۲ سال گزرے حالانکہ اس نے ان میں زکوٰۃ نہیں دی تو اب دوسرے سال اس پر زکوٰۃ نہیں ۔ واﷲتعالےٰ اعلم (ت)
( ۱؎ ردالمحتار کتاب الزکوٰۃ مصطفی البابی مصر ۲ /۵)
مسئلہ ۱۸: از شہربریلی محلہ ملوکپور مولوی شفاعت اﷲصاحب طالب علم مدرسہ اہلسنت و جماعت بریلی ۳ ربیع الآخر ۱۳۳۱ ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعی متین اس مسئلہ میں کہ مسمّاۃ ہندہ عرصہ تین سال سے زیور طلائی و نقرئی کی حسبِ تفصیل ذیل اور نقد روپے کی عرصہ تین سال سے مالک ہے ،اس کے علاوہ اثاث البیت ضروری خرچ کا بھی رکھتی ہےاور روپیہ مذکور میں سے چار روپے ماہوار عرصہ تین سال سے متواتر خرچ ہوتا رہا ہے اب مسماۃ مذکورہ اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرنا چاہتی ہے کس طرح سے ادا کرے، بیان فرمائے، زیور طلائی ۴ تولے ۱۰ ماشے ۳ سُرخ ، زیور نقرئی (مععہ) نقد روپیہ( صما مہ)۔
الجواب : بیان سائل سے معلوم ہوا کہ زیور ہر سال اتنا ہی رہا کم و بیش نہ ہُوا تو ہر سال جو سونے کا نرخ تھا اُس سے ۴ تولے ۶ ماشے ۳ سرخ کی قیمت لگا کر زیور نقرہ کے وزن میں شامل کی جائے گی اور ہر ساڑھے باون تولے چاندی پراس کا چالیسواں حصّہ ، پھر ہر ساڑھے دس تولے چاندی پر اس کاچالیسواں حصہ واجب آئے گا ، اخیر میں جو ساڑھے دس تولے چاندی سے کم بچے معاف رہے گی، ہر دوسرے سال اگلے بر سوں کی جتنی زکوٰۃ واجب ہوتی آئی مال موجود میں سے اتناکم ہو کر باقی پر زکوٰۃ آئے گی، تین سال سے یہ نقد روپیہ بھی بدستور حساب میں شامل کیا جائیگا اور ہر دوسرے سال جتنے روپے خرچ ہوگئے کم کرلئے جائیں گے، یُوں تین سال کا مجموعی حساب کرکے جس قدر زکوٰۃ فرض نکلی سب فوراًفوراًادا کردینی ہو گی اور اب تک جوادا میں تاخیر کی بہت زاری کے ساتھ اُس سے توبہ فرض ہے اور آئندہ ہر سال تمام پر فوراًادا کی جائے ۔ یہ اگلے تین برسوں میں اس کے سال تمام ہونے کے دن سونے کا بھاؤدریافت کرنے میں وقت ہو تواحتیاطاً زیادہ سے زیادہ نرخ لگالے کہ زکوٰۃ کچھ رَہ نہ جائے، واﷲتعالیٰ اعلم۔
مسئلہ ۱۹: از درؤ ضلع نینی تال مرسلہ عبداﷲصاحب دکاندار ۵ ذی الحجہ ۱۳۳۱ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین شرع متین اس مسئلہ میں کہ پُورا نصاب کتنا ہوتا ہے جیساکہ علمی خطبہ کے اندر تحریر کرچکے ہیں وُہ ٹھیک ہے اُن کا قول یہ ہے کہ ساڑھے سات تولے سونا ہو یا ساڑھے باون تولے چاندی ہو ، دونوں میں سے ایک چیز ہو وُہ اہلِ زکوٰۃ اہلِ نصاب ہوگیا علمائے دین کو غورکرناچاہئے کہ ساڑھے باون تولے چاندی ہے اور گھر میں چار چھ آدمی کھانے والے اور خرچ کرنے والے ہیں تو وُہ شخص اہلِ نصاب اہلِ زکوٰۃ ہوگیا ، دوسری گزارش یہ ہے کہ مالا بد منہ میں لکھا ہوا ہے کہ کارروائی سے زیادہ ہو سال بھر اُس پر گزر جائے ، یعنی حاجت سے زائد ہو تو جس قدر ایک شخص کے پاس پچاس روپے کا کپڑا تجارت کا ہے اور اس سے اس کی اوقات بسری ہوتی ہے ساٹھ روپیہ کا زیور ہر وقت کے پہننے کا ہے اور اسیؔ روپے اس کے پاس نقد ہیں اور گھر میں کھانے کو کل ایک مہینے کا ہے اور پچانوے روپے مہر عورت کا ہے یعنی قرضدار ہے وہ مال نصاب کا ہوگیا یا نہیں، حضور!ہم لوگوں کا آپ پر یقین کامل ہے جب تک کوئی حکم حضور کے یہاں سے نہ ملے گا ہم کچھ نہیں کرسکتے اور ایک تحریر پیشترحضور کی خدمت میں روانہ کر چکا ہوں اس کا کوئی جواب نہیں ملا، حضور کو غور کرنا چاہئے ، یہاں پر حضور مولوی کبھی کچھ فرماتے ہیں کبھی کچھ۔ شرع کے اندر رخنہ بازی ہے ہم لوگوں کا یقین آپ پر ہے آپ جیسا لکھیں گے ویسا ہم مانیں گے آپ کے خلاف نہیں کرسکتے ، ایک مسئلہ کو چارجگہ دریافت کر و علیحدہ علیحدہ راہ ہوگی اس کی کیا وجہ ہے ، رائے کا اتفاق کیوں نہیں ہے ہم لوگوں کو بہت پریشانی ہوتی ہے کوئی مطلب ٹھیک نہیں ہم لوگوں پر عنایت فرمائیے اور دلی مراد پوری کیجئے۔
الجواب : فی الواقع سونے کا نصاب ساڑھے سات تولے اور چاندی کا ساڑھے باون تولے ہے ان میں سے جو اُس کے پاس ہو اور سال پُورا اس پر گزر جائے اور کھانے پہننے مکان وغیرہ ضروریات سے بچے اور قرض اسے نصاب سے کم نہ کردے تواُس پر زکوٰۃ فرض ہے اگر چہ پہننے کا زیور ہو زیور پہننا کوئی حاجت اصلیہ نہیں، گھر میں جو آدمی کھانے والے ہوں اس کا لحاظ شریعت مطہرہ نے پہلے ہی فرمالیا،سال بھر کے کھانے پینے پہننے تمام مصارف سے جو بچا اور سال بھر رہا اُسی کا تو چالیسواں حصّہ فرض ہوا ہے اور وہ بھی اس لیے کہ تمھیں آخرت میں بھی عذاب سے نجات ملے جس سے آدمی تمام جہان دے کر چھوٹنے کو غنیمت سمجھے اور دُنیا میں تمھارے مال میں ترقی ہو برکت ہو یہ خیال کرنا کہ زکوٰۃ سے مال گھٹے گا نِراضعفِ ایمان ہے۔ مولیٰ تعالیٰ قرآن عظیم میں ارشاد فرماتا ہے کہ وُہ زکوٰۃ کو ترقی و افزونی دیتا رہے جسے وہ بڑھائے وہ کیونکر گھٹ سکتا ہے، یہ خیال کہ اس وقت سوروپیہ سے ڈھائی روپے حکم ماننے میں اُٹھادیں گے تو آئندہ بال بچّے کیا کھائیں گے، محض شیطانی وسوسہ ہے۔ زکوٰۃ سے اگر برکت بھی ملتی تو ڈھائی روپیہ سَو میں سے کم ہو جاتا رزق نہ چھینتا ، آئندہ سال اگر مال بڑھ گیا کہ سال بھر کا بال بچّوں سب کا خرچ ہُوا وُہ روپیہ بدستور رکھے رہے جب تو اس وسوسہ کا جھوٹ ہونا علانیہ ظاہر ہوجائے گا اور اگر اُن میں سے کھانے پینے کی حاجت پڑی یہاں تک کہ نصاب سے کم رہ گیا تو اب آپ سے کوئی زکوٰۃ نہ مانگے گا مگر بال بچّوں کی فکر اگلے سال کے لیے کیا ہوگی ، وُہ جو جمع تھے کھانے پینے میں اٹھ گئے اور اب زکوٰۃ بھی نہیں جس کے سر الزام دھرو، آگے کیونکر جیو گے، ایسی کمزوریاں شیطان سکھاتا ہے، عورت کا مہر جس کا مطالبہ بعد موت یا طلاق ہوتا ہے اور عمر بھر ادا کا خیال تک نہیں آتا اُسے زکوٰۃ نہ دینے کا حیلہ نہ بنانا چاہئے۔ وھو تعالیٰ اعلم۔