Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۰(کتاب الزکٰوۃ، صوم، حج)
15 - 198
شرح ضابطہ اُولی:
چاندی سونے میں جب ایک نصابِ تام بلا عفو ہواور دُوسرا نصاب نہ ہو خواہ کُلًّایعنی سرے سے نصاب تک پہنچا ہی نہ ہو یا بعضاً ، یعنی نصاب کے بعد جو عفو بچا ہو ، اس غیر نصاب کل یا بعض کو اس دوسرے کے ساتھ ضم کریں گے ،مثلاً چاندی کل بعض غیر نصاب ہے تو اُسے بلحاظ قیمت سونا قرار دے کر سونے کے نصاب سے ملائیں گے اور سونا کل یا بعض غیر نصاب ہو تو اسے چاندی سے تو ضابطہ اولےٰ کی دو۲ صورتیں بعد بسط چار ۴ ہوگئیں جیساکہ مطالعہ جدول سے واضح ہوا ہوگا۔ اب ہم بعد ضم دیکھیں گے کچھ زکوٰۃ بڑھی یا نہیں، اگر اب بھی نہ بڑھی تو وُہ غیر نصاب عفو مطلق تھا کہ کسی طرح موجبِ زکوٰۃ نہ ہوُا اور بڑھی تویا کچھ عفو نہ بچے گا اس صورت میں ظاہر ہوگا کہ غیر نصاب اپنی نوع میں نہ موجب زکٰوۃ نظرآتا تھا حقیقۃً بالکل موجب تھا یا قدرے بچے گا تو ثابت ہوگا کہ واقع میں اسی قدر عفو ہے باقی پر زکوٰۃ، تو یہ تین۳ حالتیں ہوئیں جنھیں ان چار میں ضرب دیے سے بارہ۱۲ صُورتیں نکلیں ، اب ہر ایک کی مثال لیجئے اور حساب کے لیے فرض کیجئے کہ تولہ بھر سونے کی قیمت چوبیس ۲۴ تولے چاندی ہے اور تولہ بھر چاندی کا چار۴رتی سونا۔
مثال ۱: ایک شخص کے پاس ۵۲ -۱/۲ تولے چاندی اور سوا پانچ ماشے سونا ہے تو چاندی نصابِ  تام بلا عفو ہے اور سونا کُلاًّ غیر نصاب۔ لہذاسونے کو چاندی کرکے چاندی سے ملایایعنی بلحاظِ قیمت دیکھا کہ اس قدر سونے کی کتنی چاندی ہُوئی، نرخ مذکور پر یہ سونا دس۱۰ تولے چاندی کا ہُوا تو گویا وُہ ۵۲-۱/۲ تولے چاندی ۵ ماشے سونے کا مالک نہیں بلکہ ۶۳ تولے چاندی کا مالک ہے، یہ چاندی ا یک نصابِ کامل اور ایک نصابِ خمس پُورا ہُوا جس پر عفو کچھ نہ بچا۔
مثال ۲: اسی  صُورت میں ۱۰ ماشے سونا فرض کیجئے جس کے ۲۰ تولے چاندی، تو گویا ۷۲- ۱/۲ تولے چاندی کا مالک ہے جس میں وہی نصاب کا مل و نصابِ خمس نکل کر ۹تولے چاندی عفو بچی کہ خمس نصاب سے کم ہے یہ عفو حقیقی ہُوا یعنی سونے کو چاندی سے ضم نہ کرتے تو بوجہ عدمِ نصاب بالکل عفو نظر آتا تھا ضم کرنے سے کھل گیا کہ اس میں صرف ۴-۱/۲ ماشے جس کی ۹ تولے چاندی ہُوئی عفو پر زکوٰۃ واجب۔
مثال ۳: صُورتِ مسطورہ میں صرف ۵ ماشے سونا مانیے تو کُل عفو  رہے گا کہ اس کی دس۱۰ ہی تو لے چاندی ہُوئی اور مال جب تک نصاب کے بعد خمس نصاب تک نہ پہنچے عفو اور چاندی میں خمس ۱۰ -۱/۲ تولے ہے۔ 

مثال ۴ : اسی صورت میں ۷ تولے ۱۱ماشے سونا لیجئے تو ۷-۱/۲ تولے سونا تو نصابِ کامل ہے اُس کے بعد ۵ ماشے عفو نظر آتا ہے، بس اسی قدر کو چاندی سے ضم کرینگے ، اور ایک نصابِ زر اور ایک نصاب و خمس نصاب سیم کی زکوٰۃ واجب ما نیں گے جس میں عفو کچھ نہ رہا۔ 

مثال ۵:اسی صورت میں ۸تولے ۴ ماشے سونا ہے تو بدلیل مثال دوم وہی ۴-۱/۲  ماشے سونا عفو رہے گا۔

مثال۶: ۷ تولے ۱۱ماشے سونا ہے تو نصابِ ِزر سے جتنا یعنی ۵ ماشے،سب عفو مطلق ہے کہ بعد ضم بھی زکوٰۃ نہیں بڑھاتا۔ 

ان چھ۶ مثالو ں میں چاندی نصاب تام بلا عفو تھی اور سونا قابلِ ضم ،پہلی تین میں راساًنصاب سے کم اور پچھلی تین میں عفو۔ اب وُہ مثال لیجئے کہ سونا تام بلا عفواور چاندی انہی دو۲ وجہوں پر قابلِ ضم۔
مثال۷: ایک شخص ۷- ۱/۲تولے سونا ۳۶ تولے چاندی کا مالک ہے کُلاًّغیر نصاب ہے۔ اسے بحساب قیمتِ سونا کیا تو ۱-۱/۲ تولے ہوا، یہ پُورا نصاب خمس ہے تو سونے کا ایک نصاب کامل اور ایک نصاب خمس ہوا اور عفو اصلاًنہ بچا۔

مثال۸: اسی صورت میں چاندی ۵۰تو لے رکھئے تو ۱۴ تولے عفو ر ہے گی کہ ۳۶ تولے کا نصاب خمس ہوگیا ۱۴ تولے کا ۷ ماشے سونا ہُوا کہ خمس سے کم ہے وُہ عفو رہا۔ 

مثال ۹ : اسی صورت میں چاندی ۳۰ تولے  فرض کیجئے توکل عفو ہے کہ اس کا سوا ہی تولے سونا ہُوا بعدضم بھی کچھ نہ بڑھا ۔
مثال ۰ا و ۱۱ و ۱۲ : اب ہمیں وُہ تین صورتیں بیان کرنا ہیں جن میں سونا نصاب بے عفو ہو اور چاندی نصاب با عفو، جس کے عفو کو سونے سے ملائیں تو جب بھی عفو رہے یا کچھ زکوٰۃ واجب کرے، کچھ عفو بچے یا بالکل زکوٰۃ واجب کرے ۔ یہ پچھلی دو۲ صورتیں بظاہر محال عادی نظر آتی ہیں کہ نصاب میں عفو وہی ہوتا ہے جس خمس سے کم ہواور نصاب کے بعد زکوٰۃ واجب کرتا ہیے جو خمس تک پہنچے ،توان صورتوں کا وقوع جب ہی ہوگا کہ ۱۰ تولے کم چاندی ا-۱/۲ تولے سونے کے برابر یا اس سے بھی زائد ہو مگر یہ عادۃًہو نہین سکتا بلکہ ۱۰ تولے یا اس سے کچھ زیادہ چاندی تولہ بھر سونے کی قیمت کو بھی نہیں پہنچی، تو بادی النظر میں یہاں صرف صورتِ اولیٰ ہی قابلِ وقوع ہے یعنی عفو سیم کو نصاب ذھب سے جب ملائیے عفو ہی رہے'مگر ایک نفیس و شریف و جلیل و لطیف قاعدہ معلوم کرنے سے کھل جائیگا کہ دو۲ صوتین بھی قابلِ وقوع ہیں، اُس با عظمت قاعدے کا جاننا نہ صرف انہی صورتوں کے لیے ضرور ہے بلکہ جو اہل زکوٰۃ زروسیم دونوں قسم کے مالک ہوں اور عموماً ایسے ہی ہوتے ہیں اُن سب پر اُس کا علم فرض عین ہے کہ اس کے نہ جاننے میں بہت غلطیاں اور خرابی و زیاں واقع ہوتے ہیں لوگ اکثر سمجھ لیتے ہیں ہم زکوٰۃ ادا کر چکے اور واقع میں مطالبہ باقی ہوتا ہے ،وہ ضروری قاعدہ عظیم الفائدہ واجب الحفظ یہ ہے کہ اگر چہ زر وسیم کی قیمت و وزن با ہم اکثر مختلف ہوتے ہیں خصوصاً جبکہ صنعت کا قدم درمیا ن ہو، مثلاً ممکن کہ تولہ بھر سونے کا کوئی گہنا صناعی کے سبب پچاس ۵۰ روپے کی قیمت کا ہو اگر چہ ایک تولہ سونے کی قیمت پچیس ۲۵ ہی روپیہ ہو یا تولہ بھر چاندی کی چیز چار روپے کو بکے اگر چہ چاندی ایک ہی روپیہ تولہ ہو ، دہلی کی سودا کاریوں میں یہ بات خوب واضح ہے یونہی جب مال ہارتا ہو تو قیمت ِوزن گھٹ جاتی ہے کما لایخفی(جیساکہ مخفی نہیں ۔)مگر شرع مطہر نے سونے چاندی میں وجوباًو اداءً ہر طرح وزن ہی کا اعتبار فرمایا ہے نہ کہ قیمت کا، مثلاً کسی کے پاس صرف۷ تولے سونے کا گہنا ہے کہ قیمت میں ۷-۱/۲ تولے سونے تک پہنچا ہے یا اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے اس پر زکوٰۃ واجب نہیں کہ وزن ۷-۱/۲ تولے کامل نہ ہوا یا ۷-۱/۲تولے ہارتے سونے کا مال ہے کہ قیمت۷ تولے سے بھی کم ہے اس پر زکوٰۃ واجب،کہ وزن ِ نصاب پورا ہے'یا ایک شخص کے پاس ۷-۱/۲ تولے سونے کا زیور ہے جو بوجہ صنعت ۱۵ تولے سونے کی قیمت ہے اس پر صرف ۲ ماشے سونا واجب ہوگا کہ وزن کا چالیسواں حصّہ ہے نہ چار ماشہ کی قیمت کا ۱/۴۰ہے، ۱۵ تو لے وزن کی چیز قیمت میں ۷-۱/۲ تو لے کے برابر ہے ، تو باعتبار ِوزن ہوا اور ادا کی یہ صُورت کہ مثلاً اس پر ۶ ماشے سونا واجب الادا تھا اس نے اُس کے بدلے ۲ ماشے نفیس کُندن کہ قیمت میں ۶ ماشے سونے کے برابر بلکہ زائد تھا ادا کیا تو عہدہ بر آنہ ہُوا کہ واجب کا وزن پُورا نہ ہُو ا اور ہارتا سونا ۲ ماشے دے دیا جو قیمت میں دو۲ ہی ماشے کے برابر تھا تو ادا ہوگیا اگرچہ اس میں کراہت ہے
لقولہ عزوجل:
لستم باٰخذیہ الا ان تغمضوافیہ۔۱؎
تمھیں ملے تو نہ لو گے جب تک اس میں چشم پوشی نہ کرو۔ (ت)
 ( ۱؎ القرآن     ۲ /۲۶۷)
درمختار میں ہے :
المعتبر وزنھما اداءً ووجوباً لا قیمتھما۔ ۲؎
ادا ء و وجوب میں ان دونوں کے وزن کا اعتبار ہے نہ کہ قیمت کا۔ (ت)
    (۲؎ درمختار         باب زکوٰۃ المال        مطبع مجتبائی دہلی    ۱ /۱۳۴)
ردالمحتار میں ہے :
یعنی یعتبر فی الوجوب ان یبلغ وزنھما نصابا،نھر،حتی لو کان لہ ابریق ذھب او فضۃ وزنہ عشرۃ مثاقیل اومائۃدرھم وقیمتہ لصیاغتہ عشرون او مائتان لم یجب فیہ شیئ اجماعاًقہستانی۔ ۳؎
وجوب کے لیے یہ معتبر ہے کہ وُہ وزن کے اعتبار سے نصاب کو پہنچیں ،نہر۔ اگر کسی کے پاس سونے یا چاندی کا کُوزہ تھا جس کا وزن دس مثقال یا سَودرہم کے برابر تھا اور زیور کی صورت میں اس کی قیمت بیس ۲۰یا دوسو۲۰۰ہے تو اب اس میں بالاجماع کوئی شئ لازم نہیں ، قہستانی۔ (ت)
 ( ۳؎ ردالمحتار    باب زکوٰۃ المال       مطبع مجتبائی دہلی         ۲ /۳۳)
اسی میں ہے :
لولہ ابریق فضّۃ وزنہ مائۃ وقیمتہ بصیاغتہ مائتان لا تجب الزکوٰۃ باعتبار القیمۃ لان الجودۃ و الصنعۃ فی اموال الربا لا قیمۃ لھا عند افرادھا ولا عند المقابلۃ بجنسھا۔ ۴؎
اگر کسی پاس چاندی کا ایسا کُوزہ تھا جس کا وزن سو درہم ہو اور اس کی زیور کی صورت میں قیمت دو سودرہم ہے تو اب قیمت کے اعتبار سے زکوٰۃ واجب نہ ہوگی، کیونکہ اموالِ ربا میں جو جودت اور صنعت ہوتی ہے اس کی انفرادی صُورت میں کوئی قیمت نہیں ہوتی نہ ہی اس وقت کوئی قیمت ہے جب کسی'ہمجنس کے مقابل ہو۔(ت)
 (۴؎ ردالمحتار        باب زکوٰۃ المال        مطبع مجتبائی دہلی        ۲ /۳۷)
اُسی میں ہے :
یعتبر یکون المؤدی قدرالواجب وزنا فلوادی عن خمسۃ جیّدۃ خمسۃ زیوفاقیمتھا اربعۃ جیدۃ جا ز وکرہ ولواربعۃ قیمتھا خمسۃ ردیئۃلم یجزا ھ ۱؎ملخصاً۔
جس کی زکوٰۃ ادا کی جائے اس کا وزن کے اعتبار سے نصاب ہونا ضروری ہے، اگر کسی نے  پانچ جیددراہم کی جگہ پانچ زیوف سے ادا کی جن کی قیمت چارجید دراہم تھی توجائز مگر مکروہ ہے، اور ان چارکی قیمت پانچ ردی درہم تھے تو جائز ہی نہیں اھ ملخصا(ت)
 ( ۱؎ ردالمحتار             باب زکوٰۃ المال        مصطفی البابی مصر         ۲ /۳۳)
مگر جب ان میں ایک کو دوسرے سے تقویم کریں مثلاًچاندی کو سونے یا سونے کو چاندی سے جیسا کہ ضم کی صُورتوں مین دیکھتے آتے تو بالاجماع قیمت کا اعتبار ہے کہ جو دت وصنعت خلاف جنس کے مقابلہ میں بالاجماع قیمت پانا ہے، مثلاًبارہ ۱۲ تولے چاندی کا وزنی گہنا اور قیمت میں ۲۴تولے چاندی کے برابر ، اب اس کی قیمت سونے سے لگائے گا تو بہ لحاظ قیمت پُورا تولہ بھر سونا ہوگا، نہ بلحاظ وزن چھ ماشہ ولہذا جس کہ پاس ۲۰۰تولے چاندی کا زیور چار سوروپے کا قیمتی ہو جس ۵تولے چاندی واجب ، وہ اگر ۵تولے چاندی دے دے گا ادا ہوجائے گا اور ۵تولے چاندی کی قیمت کا سونا دے گا ہر گز ادا نہ ہوگا بلکہ ۱۰تولے چاندی کا قیمتی سونا دینا آئے گا۔
ردالمحتار میں ہے:
عدم اعتبار الجودۃ انما ھو عند المقابلۃ بالجنس اما عند المقابلۃ بخلافہ فتعتبر اتفاقا۔ ۲؎
جیّد ہونے کا اعتبار، جنس کے ساتھ مقابلہ وقت نہیں کیا جاسکتااوراگر غیر جنس سے مقابلہ ہو تو بالاتفاق معتبر ہے۔ (ت)
 (۲؎ ردالمحتار             باب زکوٰۃ المال        مصطفی البابی مصر             ۲ /۳۷)
اُسی میں ہے:
لو کان لہ ابریق فضۃ وزنہ مائتان وقیمتہ ثلث مائۃ ان أدی خمسۃ من عینہ اومن غیرہ جاز واجمعواانہ لوأدی من خلاف جنسہ اعتبرت القیمۃ حتی لوأدی من الذھب ما تبلغ قیمتہ خمسۃ دراہم من غیر  الاناء لم یجز فی قولھم لتقوم الجودۃعندالمقابلۃ بخلاف الجنس کذا فی لامعراج نھر اھ ۱؎ملخصاً۔
اگر کسی کے پاس چاندی کا کوزہ ہے دو صد درہم وزنی اور قیمت تن سودرہم ہے تو اب وہ اس میں سے یا اس کے غیر سے پانچ درہم ادا کرتا ہے تو جائز ہے اور اس پر اتفاق ہے کہ اگر اس کی مخالف جنس سے ادا کرے تو قیمت کا اعتبار ہوگا حتی کہ اگر اتنا سونا جسکی قیمت پانچ درہم ہو غیر مصنوعہ سے ادا کیا تو ان کے نزدیک جائز نہیں کیونکہ مقابلہ کے وقت جودت کی قیمت اعتبار ہوتاہے بخلاف جنس کے، معراج میں اسی طرح ہے،  نہر اھ ملخصاً (ت)
جب یہ قاعدہ معلوم ہولیا تو اب ان دوصورتوں کی مثالیں بھی واضح ہو گئیں مثلاً ایک شخص کے پاس ۷-۱/۲تولے سونا اور ۶۱-۱/۲ تولے چاندی کا گہنا ہے جو بوجہ صناعی چو گنی قیمت کا ہے اس میں ۵۲-۱/۲تولے چاندی تو نصاب کامل ہوگئیں ۹تولے بچی وہ عفو نظر آتی ہے،اسے بلحاظِ قیمت سونے سے ملایا تو یہ ۹تولے بہ سبب صنعت۳۶ تولے کی قیمت میں ہے جس کا ۱-۱/۲تولے سونا ہُوا کہ خمس نصاب زر ہے تو ایک نصاب سیم اور ایک نصاب و خمس نصابِ زر کی زکوٰۃ واجب ہُوئی اور عفو کچھ نہ بچا ،اور اسی صورت میں ۶۲تولے چاندی ہے تو ماشہ بھر سونا کہ اس ۶ماشے چاندی کی قیمت ہُوا اور عفو رہے گا کما لا یخفی (جیسا کہ مخفی نہیں۔ت)واﷲتعالٰی اعلم ۔
Flag Counter