مسئلہ سادسہ: میرے کل زیور طلائی سادے اورجڑاؤ میں سونے کا وزن،موتی اور نگینے اور لاکھ وغیرہا منہا کرکے اڑسٹھ ۶۸ تولے ہے ااور زیور نقرئی تین سو اکتالیس تولے ، اس صورت میں جو سالانہ زکوٰۃ ہو اس سے مشرح مطلع کیا جاؤں، اورایک دستور العمل ایسا ہو کہ آئندہ جس قدر اور بنے اس پر زکوٰۃ بڑھالی جائے۔ بینو ا تو جروا۔
الجواب : سونے چاندی کا نصاب اور ان پر واجب و عفو کا حساب مسئلہ ثانیہ میں مشرحاً گزرا اور زیادت و نقصان کے تمام احکام بتفصیل تمام مسئلہ ثانیہ و ثالثہ میں مبین ہُوئے۔ وہ دونوں مسئلے بجائے خود دستورالعمل تھے مگر اختلاط زر و سیم یعنی دونوں مال کا مالک ہونا' البتہ بعض نئے احکام کا موجب ہوتا ہے جن کا بیان اوپر نہ گزرا لہذا فقیر غفراﷲتعالٰی لہ بعض ضوابطِ ضروریہ اور ذکر کر کے دستور العمل کی تکمیل کرتا اور حضرت مستفتی دامت برکاتہ، و دیگر ناظرین منتفعین سے اس کے صلے میں دعائے عفوعافیتِ دارین کی تمنّا رکھتا ہے ۔
فاقول وباﷲالتوفیق مال جب بشرائط معلومہ نصاب کو پہنچے تو بنفسہٖ وجوبِ زکوٰۃ کا سبب اور ایراثِ حکم میں مستقل ہے جسے اپنے حکم میں دوسری شئی کی حاجت نہیں اور نصاب کے بعدجو خمس نصاب ہو وُہ بھی نصاب و سبب ایجاب ہے، ہاں جو خمس سے کم ہے وُہ اپنے نوع میں مثلاًچاندی یا سونا، سونے میں موجبِ زکوٰۃ نہیں ہوسکتا کہ شرع مطہر نے اسے عفو رکھا ہے
کما قد منا فی المسئلۃ الثانیۃ
(جیساکہ ہم مسئلہ ثانیہ میں پیچھے بیا ن کرآئے۔ت) اسی طرح جو راساً نصاب کو نہیں پہنچا بنفسہٖ سببیتِ وجوب کی صلاحیت نہیں رکھتا مگر جب اس نوع کے ساتھ دوسری نوع بھی ہو یعنی زر و سیم مخلط ہوں تو از انجا کہ وجہ سببیت ثمنیت تھی اور وُہ دونوں میں یکساں،تو اس حیثیت سے ذھب و فضّہ جنسِ واحد لہذا ہمارے نزدیک جو ایک نوع میں موجب زکوٰۃ نہ ہوسکتا تھا خواہ اس لیے کہ نصاب ہی نہ تھا یا اس لیے کہ نصاب کے بعد عفو تھا اس مقدار کو دوسری نوع سے تقویم کرکے ملادیں گے کہ شاید اب اس کا موجب زکوٰۃ ہونا ظاہر ہو پس اگر اس ضم سے کچھ مقدار زکوٰۃ بڑھے گی(بایں معنی کہ نوع ثانی قبل ضم نصاب نہ تھی اسکے ملنے سے نصاب ہوگئی یا اگلی نصاب خمس کی تکمیل ہوگئی)تو اسی قدر زکوٰۃ بڑھا دیں گے اور اب اگر کچھ عفو بچا تو وہ حقیقۃً عفو ہوگا ورنہ کچھ نہیں اور اگر ضم کے بعد بھی کوئی مقدار زکوٰۃ زائد نہ ہو تو ظاہر ہوجائے گا کہ یہ اصلاً موجبِ زکوٰۃ نہ تھا۔
ہدایہ میں ہے :
تضم قیمۃ العروض الی الذھب و الفضۃ حتی یتم النصاب و یضم الذھب الی الفضۃ للمجا نسۃ من حیث الثمیۃ ومن ھذا الوجہ صار سبباً ثم یضم با لقیمۃ عند ابی حنیفۃ رضی اﷲتعالٰی عنہ۔ ۱؎
سامان کی قیمت کو سونے اور چاندی کی قیمت کے ساتھ ملایا جائے گا تاکہ نصاب مکمل ہوجائے اور ثمن کی بنا پر ہم جنس ہونے کی وجہ سے سونے کو چاندی کے ساتھ ملایا جائے گا اور اسی وجہ سے یہ سببِ وجوب ہوگا پھر امام ابو حنیفہ رضی اﷲتعالےٰ عنہ کے نزدیک قیمت کے لحاظ سے ملایا جائے گا۔ (ت)
(۱؎ الہدایہ کتاب الزکوٰۃ فصل فی العروض مکتبتہ العربیہ کراچی ۱/۱۷۶)
فتح القدیر میں ہے :
النقدان یضم احد ھما الی الاٰخر فی تکمیل النصاب عند نا۔ ۲؎
ہمارے نزدیک تکمیل نصاب کے لیے دونوں نقود (سونے و چاندی )کو ایک دوسرے کے ساتھ ملایا جائے گا۔(ت)
( ۲؎ فتح القدیر فصل فی العروض مکتبہ نوریہ رضویہ سکّھر ۲/۱۶۹)
تبیین الحقائق میں ہے:
یضم الذھب الی الفقۃ با لقیمۃ فیکمل بہ النصاب لان الکل جنس واحد۔ ۳؎
سونے کو چاندی کے ساتھ قیمت کے اعتبار سے ملایا جائیگا تاکہ نصاب مکمل ہوجائے کیونکہ یہ آپس میں ہم جنس ہیں (ت)
( ۳؎ تبیین الحقائق باب زکوٰۃ المال مطبعۃ کبریٰ امیریۃ بولاق مصر ۱/۲۸۱)
خلاصہ میں ہے :
اصل ھذا ان الذھب یضم الی فضۃ فی تکمیل النصاب عندنا و ھذاا ستحسان۔ ۱؎
ہمارے نزدیک تکمیل نصاب کی خاطر سونے کو چاندی کے ساتھ ملانا یہ اصل ہے اور یہ بطورِ استحسان ہے ۔ (ت)
(۱؎ خلاصۃ الفتاوٰی الفصل الخامس فی زکوٰۃ المال مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۱ /۲۳۷)
نقایہ میں ہے :
یضم الذھب الی الفضۃ بالقیمۃ لاتمام النصاب۔ ۲؎
اتمامِ نصاب کے لیے سونے کو قیمت کے اعتبار سے چاندی کے ساتھ ملایا جائے گا۔ (ت)
(۲؎ النقایہ کتاب الزکوٰۃ نور محمد کار خانہ تجارت کتب کراچی ص ۳۴)
ان عباراتِ ائمہ و تقریر فقیر سے واضح ہُو ا کہ یہ ملانا صرف بغرضِ تکمیل نصاب ہوتا ہے ،نصاب کہ بنفسہٖ کامل ہے محتاجِ ضم نہیں کہ خود سبب مستقل ہے تو شرح مطہر اُس کے سبب ایک مقدار واجب فرما چکی اب نصاب کو دوسری چیز سے ضم کرنے کا ایجاب تکمیل نصاب نہیں تعطیل نصاب ہے ، یا یُوں کہئے کہ اس ضم سے مقصود تحصیل واجب ہے نہ تبدیل واجب ۔ ولہذا ہمارے علماء تصریح فرماتے ہیں کہ ذھب و فضہ کا کامل نصابوں میں حکمِ ضم نہیں بلکہ نصابِ ذھب پر جُدا زکوٰۃ واجب ہوگی اور نصاب ِ فضّہ پر جُدا۔ ہاں اگر کوئی یہ چاہے کہ میں ایک ہی نوع زکوٰۃ میں دوں اور وہ قیمت لگا کر ضم کر لے تو ہمارے نزدیک کوئی مضائقہ بھی نہیں،مگر اس وقت واجب ہوگا کہ تقویم ایسی کرے جس میں فقراء کا نفع زائد ہو مثلاًایک نقد زیادہ رائج ہے دوسرا کم، توجو رائج تر ہے اُس سے تقویم کرے۔ امام ملک العلاء ابوبکر مسعود کا شانی قدس سرّہ الربانی بدائع میں فرماتے ہیں:
اذا کان کل واحدمنھما نصاباً تاماً ولم یکن زائداً علیہ لا یجب الضم بل ینبغی ان یؤدی من کل واحد منھمازکوٰتہ ولو ضم احدھما الی الاٰخرحتی یؤدی کلہ من الفضۃ اومن الذھب فلا باس بہ عند نا ولکن یجب ان یکون التقویم بما ھو انفع للفقراء رواجا والا فیؤدی من کل واحد منھما ربع عشرۃ۔ ۳؎
اگر دونوں (سونا و چاندی) کا نصاب بلا اضافہ کیے کامل ہے تو اب ایک دوسرے کے ساتھ ملانا واجب نہیں بلکہ ہر ایک کی زکوٰۃ ادا کی جائے اور اگر کسی نے ملا کر سونے چاندی میں سے ہر ایک کی زکوٰۃ ادا کردی تو بھی ہمارے ہاں کوئی حرج نہیں لیکن یہ لازم ہے کہ قیمت اس کے ساتھ لگائی جائے جو رواجاً فقراء کے لیے زیادہ نافع ہو، ورنہ ہر ایک میں سے چالیسواں حصہ ادا کر دیا جائے۔ (ت)
(۳؎ بدا ئع الصنا ئع فصل وامّا مقدار الواجب فیہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲ /۲۰)
اس نفیس تقریر سے یہ فائدے حاصل ہُوئے کہ اگر ایک جا نب نصابِ تام بلا عفو ہے اور دوسری طرف نصاب سے کم، تو یہاں یہی طریقہ ضم متعین ہوگا کہ اس غیر نصاب کو اُس نصاب سے تقویم کرکے ملا دیں ، یہ نہ ہوگا کہ نصاب کو تقویم کرکے غیر نصاب سے ملائیں۔ مثلاًچاندی نصاب ہے اور سونا غیر نصاب، تو اس سونے کو چاندی کریں گے چاندی کو سونا نہ کریں گے،اور عکس ہے تو عکس۔ اسی طرح اگر ایک طرف نصابِ تام بلا عفو ہے اور دوسری جانب نصاب مع عفو ،تو صرف اس عفو کو اس نصاب سے ملائیں گے نصاب مع العفو مجموع کو ضم نہ کریں گے کہ محتاجِ تکمیل صرف وہی عفو ہے نہ کہ نصاب، مثلاً ۷یا ۹ یا۱۲ تولے سونا اور ۶۰ تو لے چاندی ہے جس میں ۷ تولے چاندی عفو ہے تو صرف اس ۷تولے چاندی کوسونا کریں گے نہ کہ مجموع ۶۰ تو لے کو۔ یونہی اگر دونو ں جانب عفو ہے تو صرف ان عفووں کو باہم ملائیں گے، دونوں طرف کے نصاب الگ نکال لیں گے۔ ہندیہ میں ہے:
لوفضل من النصابین اقل من اربعۃ مثاقیل واقل من اربعین درھما فانہ تضم احدی الزیا دتین الی الاخری حتی یتم اربعین درھما او اربعۃ مثاقیل ذھب کذافی المضمرات۔ ۱؎
اگر دونوں نصابوں پر چار مثقال سے کم اور چالیس۴۰دراہم سے کم اضافی ہُو تو ایک اضافہ کو دوسرے کے ساتھ ملایا جائے حتی کہ چالیس درہم کا مل ہوجائیں یا چار مثقال سونا مکمل ہوجائے، جیسا کہ مضمرات میں ہے۔ (ت)
پس ثابت ہُوا کہ قابلِ ضم وہی ہے جو خود نصاب نہیں ، پھر اگر یہ قابلیت ایک ہی طرف ہے جب تو طریقہ ضم آپ ہی متعین ہوگا کما سبق (جیسا کہ پیچھے گزرا۔ت) اور دونوں جانب ہے تو البتّہ یہ امر غور طلب ہوگا کہ اب ان میں کس کو کس سے تقویم کریں کہ دونوں صلاحیتِ ضم ر کھتے ہیں، اس میں کثرت و قلّت کی وجہ سے ترجیح نہ ہوگی کہ خواہی نخواہی قلیل ہی کو کثیر سے ضم کریں کثیر کو نہ کر یں کہ جب نصابیت نہیں تو قلیل و کثیر دونوں احتیاجِ تکمیل میں یکساں۔
ردالمحتار میں ہے:
لا فرق بین ضم الاقل الی الاکثر و عکسہ۔ ۲؎
اقل کو اکثر ساتھ ملانا یا اس کے برعکس کرنے میں کوئی فرق نہیں۔ (ت)
(۲؎ ردالمحتار باب زکوٰۃ المال مصطفی البابی مصر ۱ /۱۳۵)
بلکہ حکم یہ ہوگا جو تقویم فقیروں کے لیے انفع ہو ا سے اختیار کریں، اگر سونے کو چاندی کرنے میں فقراء کا نفع زیادہ ہے تو وہی طریقہ برتیں، اور چاندی کو سونا ٹھہراتے ہیں تو یہی ٹھہرائیں، اور دونوں صورتیں نفع میں یکساں تو مزکی کو اختیار۔
درمختار میں ہے :
لو بلغ باحد ھما نصاباً دون الاخر تعین مایبلغ بہ ولو بلغ باحدھما نصاباً و خمساً وبا لا خراقل قومہ بالا نفع للفقیر سراج اھ ۱؎
اگر ایک کو ضم کرنے نصاب بنتا ہے دوسری سے نہیں، تو جس سے بنتا ہو وہ ضم کے لیے متعین ہوگا،اور اگر ایک کو ضم کرنے سے نصاب اور خمس بنتا ہے اور دوسرے سے کم بنتا ہے تو فقیر کے لیے زیادہ فائدہ مند ہو اس سے قیمت بنائے، سراج اھ۔
(۱؎ درمختار باب زکوٰۃ المال مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۱۳۵)
وفی ردالمحتار عن النھر عن الفتح یتعین ما یبلغ نصاباً دون مالا یبلغ فان بلغ بکل منھما واحد ھما اروج تعین التقویم بالا روج اھ۲؎
اور ردالمحتار میں بحوالہ نہر، فتح سے منقول ہے کہ نصاب کو پہنچانے والے کی قیمت ضم کے لیے متعین ہوگی دوسرے کی نہیں، اگر دونوں سے نصاب پورا ہو جبکہ ایک رواج سے زائد ہے تو جو زیادہ رائج ہو اس کے ساتھ قیمت لگانا متعین ہوگا اھ
(۲؎ ردالمحتار باب زکوٰۃ المال مصطفی البابی مصر ۲ /۳۴)
وفی شرح النقایہ للقھستانی و ان تسایا فالما لک مخیر۔ ۳؎
اور شرح نقایہ للقہستانی میں ہے:اگر دونوں برا بر ہوں تو مالک کو اختیار ہے۔ (ت)
( ۳؎ جامع الرموز کتاب الزکوٰۃ مکتبہ اسلامیہ گنبد قاموس ایران ۲ /۳۱۳)
جب یہ امور ممہد ہو لیے تمام صورتوں کے احکام معلوم ہوگئے کہ اختلاطِ زر وسیم انہی تین۳ حال میں منحصر:
(۱) یا کسی کی طرف کو ئی مقدار قابلِ ضم نہ ہوگی اور یہ جب ہی ہوگا کہ دونوں نصاب ہوں اور دونوں بے عفو، اس کا حکم، اول ہی گزرا کہ ہر ایک کی زکوٰۃ جدا واجب ہوگی اور ایک ہی نوع سے دینا چاہیے تونفع فقراء کا لحاظ واجب۔
(۲) یا صرف ایک طرف مقدار قابلِ ضم ہوگی یہ یونہی ہوگا کہ ایک نصاب بلا عفو ہو اور دوسرا راساً غیر نصاب یانصاب مع العفو ، تواس کی دو ۲ صورتیں نکلیں، ان کا ضابطہ (۱) بھی معلوم ہوچکا کہ خاص اسی قابل ضم کو دوسرے کے ساتھ تقویم کریں گے۔
(۳) یا دونوں طرف مقدار قابل ضم ہو یہ اس طرح ہوگا کہ دونوں نصاب سے کم یا ایک کم اور ایک میں عفو یا دونوں میں عفو، اس کی تین۳ صورتیں ہوئیں، ضابطہ(۲) بھی مذکور ہُو ا کہ جو مقداریں دونوں طرف قابلِ ضم ہیں انہی کو آپس میں ملائیں گے اور نفعِ فقراء کا لحاظ رکھیں گے یعنی جس تقویم میں زیادہ مالیت واجب الادا ہو وہی اختیار کرینگےِ اور مالیت برابر ہو تو جس کا رواج زیادہ ہے اسے لیں گے اور قدر رواج سب یکساں ہوں تو اختیار دیں گے۔
جدول اختلطات زروسیم مع اشارہ احکام
10_1.jpg
(عہ) اس مثلثا نہ خانہ احکام کا خانہ قطب وُہ صورت ہے جس میں اصلاً حکم ضم نہیں اور اس کے چاروں خانہ آتشی بادی آبی خاکی متعلق ضا بطہ اولیٰ اور باقی چاروں خانے کہ چاروں گوشوں پر ہیں متعلق ضابطہ ثانیہ ۱۲ منہ (م)
ہر چند اس بیان وجدول نے مسئلہ واضح کردیا، مگر بوجہ پیچیدگی عام مسلمان کے لیے ان دونوں ضابطوں میں ایضاح امثلہ کی بیشک ضرورت۔ لہذا فقیر غفرلہ المولی القدیر پھر جانبِ تفصیل عنان گردانی کرتا ہے، وباﷲالتوفیق