فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۰(کتاب الزکٰوۃ، صوم، حج) |
الجواب: مصرفِ زکوٰۃ ہر مسلمان حاجتمند ہے جسے اپنے مال مملوک سے مقدار نصاب فارغ عن الحوائج الاصلیہ پر دسترس نہیں بشرطیکہ نہ ہاشمی ہو نہ اپنا شوہر نہ اپنی عورت اگرچہ طلاق مغلظہ دے دی ہو، جب تک عدّت سے باہر نہ آئے نہ وُہ اپنی اولادمیں ہے جیسے بیٹا بیٹی، پوتا پوتی، نواسا نواسی، نہ وُہ جن کی اولاد میں یہ ہے جیسے ماں باپ، دادا دادی، نانانانی، اگر چہ یہ اصلی و فرعی رشتے عیا ذاًباﷲ بذریعہ زنا ہوں، نہ اپنا یا ان پانچواں قسم میں کسی کا مملوک اگر چہ مکاتب ہو ، نہ کسی غنی کا غلام غیر مکا تب، نہ مرد غنی کا نا بالغ بچہ ، نہ ہاشمی کا آزادبندہ،اور مسلمان حاجتمند کہنے سے کافر و غنی پہلے ہی خارج ہوچکے۔ یہ سولہ شخص ہیں جنھیں زکوٰۃ دینی جائز نہیں، ان کے سوا سب کو روا، مثلاًہا شمیہ بلکہ فاطمیہ عورت کا بیٹا جبکہ باپ ہاشمی نہ ہو کہ شرع میں نسب باپ سے ہے۔ بعض مشہورین کہ ماں کے سیدانی ہونے سے سیّد بن بیٹھے ہیں اوروہ باوجود تفہیم اس پر اصرار کرتے ہیں بحکمِ حدیثِ صحیح مستحق لعنتِ الہٰی ہوتے ہیں
والعیاذباﷲ وقد اوضحناذلک فی فتاونٰا
(اﷲتعالٰی بچائے، ہم نے اپنے فتاویٰ میں اس کی وضاحت کردی ہے۔ت)اسی طرح غیرہاشمی کا آزاد شدہ بندہ اگر چہ خود اپنا ہی ہو یااپنے اور اپنے اصول و فروع و زوج و زوجہ و ہاشمی کے علاوہ کسی غنی کا مکاتب یا زن غنیہ کا نا بالغ بچہ اگر چہ یتیم ہو یا اپنے بہن ، بھائی،چچا،پھوپھی، خالہ ،ماموں، بلکہ انھیں دینے میں دُونا ثواب ہے زکوٰۃ وصلہ رحم یا اپنی بہو یا داماد یا ماں کا شوہر یا باپ کی عورت یا اپنے زوج یا زوجہ کی اولاد ان سولہ۱۶کو بھی دینا روا جبکہ یہ سولہ اُن سولہ سے نہ ہوں از انجا کہ اُنھیں اُن سے مناسبت ہے جس کے باعث ممکن تھا کہ ان میں بھی عدمِ جواز کا وہم جاتا، لہذا فقیر نے انہیں بالتخصیص شمار کر دیا ، اور نصاب مذکورہ پر دسترس نہ ہونا چند صورت کو شامل: ایک یہ کہ سرے سے مال ہی نہ رکھتا ہو اسے مسکین کہتے ہیں۔ دوم مال ہو مگر نصاب سے کم، یہ فقیر ہے۔ سوم نصاب بھی ہو مگر حوائجِ اصلیہ میں مستغرق، جیسے مدیون۔ چہارم حوائج سے بھی فارغ ہو مگر اسے دسترس نہیں، جیسے ابن السبیل یعنی مسافر جس کے پاس خرچ نہ رہا، تو بقدرِ ضرورت زکوٰۃ لے سکتا ہے ، اس سے زیادہ اُسے لینا روانہیں ، یا وُہ شخص جس کا مال دوسرے پر دین مؤجل ہے ہنوز میعاد نہ آئی اب اُسے کھانے پہننے کی تکلیف ہے تو میعاد آنے تک بقدرِ حاجت لے سکتا ہے یا وُہ جس کا مدیون غائب ہے یا لے کر مُکر گیا اگر چہ یہ ثبوت رکھتاہو، کہ ان سب صورتوں میں دسترس نہیں۔ بالجملہ عہ مدار کا ر حاجتمند بمعنی مذکور پرہے،تو جو نصاب مزبور پر دسترس رکھتاہے ہر گز زکوٰۃ نہیں پا سکتا اگر چہ غازی ہو یا حاجی یا طالب علم یا مفتی مگر عامل زکوٰۃ جسے حاکمِ اسلام نے اربابِ اموال سے تحصیل زکٰوۃ پر مقرر کیاوہ جب تحصیل کرے تو بحالتِ غنا بھی بقدر اپنے عمل کے لے سکتاہے اگر ہاشمی نہ ہو ۔پھر دینے میں تملیک شرط ہے،جہاں یہ نہیں جیسے محتاجو ں کو بطوراباحت اپنے دستر خوان پر بٹھا کر کھلا دینا یا میّت کے کفن دفن میں لگانا یا مسجد، کنواں، خانقاہ، مدرسہ، پُل، سرائے وغیرہ بنوانا ان سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی، اگر ان میں صرف کیا چاہے تو اس کے وہی حیلے ہیں جو مسئلہ رابعہ میں گزرے۔
عہ : اگر دین معجل ہے خواہ ابتداءً یُوں کہ جو اجل مقرر ہوئی تھی گزر چکی اور مدیون غنی حاضر ہے تو یہ صورت دسترس کی ہے ۱۲منہ (م)
ھذا کلہ ملخص ما استقرا علیہ الا مر فی تنویر الابصار والدرالمختار وردالمحتاروغیرھا من معتبرات الاسفاروقد لخصناہ بتوفیق اﷲاحسن تلخیص لعلہ لا یو جد من غیرنا وﷲالحمد فمن شک فی شئی من ھذا فلیرا جع الاصول التی سمینا اولم یسم نعم لا باس ان نورد نصوص بعض مایکا د یخفی او یستغرب ۔
تمام گفتگو خلاصہ ہے اس چیز کا ، جس پر تنویرالابصار، درمختار اور ردالمحتار جیسی معتبر کتب میں استقرار ہے اور اللہ تعالٰی کی توفیق سے ہم نے خوب تلخیص کر دی ہے شاید ہمارے علاوہ کہیں اور اس کا وجود نہ ہو وﷲالحمد اور جس کو اس بارے میں شک ہو وہ کتبِ اصول کی طرف رجوع کرکے دیکھ لے خواہ ہم نے ان کا نام لیا ہو یا نہ۔ ہاں اس میں کوئی حرج نہیں کہ اگر بعض ایسی تصریحات کا ذکر کریں جو مخفی ہیں یا غریب۔
ففی ردالمحتار شمل الولاد بالنکاح والسفاح فلا ید فع الی ولدہ من الزنا الخ وفیہ تحت قولہ او بینھما زوجیۃولو مباینۃ ای فی العدّۃ ولو بثلاث نھر عن معراج الدرایۃاھ۱ وفیہ تحت قولہ ولا الی مملوک المزکی ولو مکاتباًوکذامملوک من بینہ وبینہ قرابۃ ولاد او زوجیۃ لما قال فی البحر والفتح اھ ۲؎ وفیہ تحت قولہ بخلاف طفل الغنیۃ فیجوز ای ولولم یکن لہ اب بحر عن القنیۃ اھ ۳؎ وفیہ وقید بالو لاد لجوازہ لبقیۃ الاقارب کا لا خوۃ والا عمام والا خوال الفقراء بل ھم اولی لانہ صلۃ وصدقۃ و یجوز دفعھا لزوجۃ ابیہ وابنہ وزوج ابنتہ تاتر خانیۃ اھ ۴؎ ملخصاً وفیہ من کتاب الوصا یا تحت قولہ الشرف من الام فقط غیر معتبر، یؤیدہ قولہ قول الھندیۃ عن البدائع فثبت ان الحسب والنسب یختص بالاب دون الام اھ فلاتحرم علیہ الزکوٰۃ ولا یکون کفو ا للھاشمیۃ ولاید خل فی الوقف علی الاشراف ط اھ ۵؎
ردالمحتار میں ہے:یہ نکاح اور زنا دونوں کی اولاد کو شامل ہے۔ پس اس کے ولدِزنا کونہیں دیا جائے گا الخ اور اسی میں ''او بینھما زوجیۃ'' کے تحت ہے اگر چہ وہ تین طلاقوں کی عدت بسر کررہی ہو۔ نہر میں معراج الدرایہ سے ہے اھ اور اسی میں ماتن کے قول ''ولا الی مملوک المزکی''کے تحت ہے اگر چہ مکاتب ہو اور اسی طرح وہ مملوک کہ مالک اور اس کے درمیان اولاد یا زوجیت والا رشتہ ہو، جیسا کہ بحر اور فتح میں ہے۔ اور اسی میں ماتن کے قول '' بخلاف طفل الغنیۃ فیجوز''کے تحت ہے تو جائز ہے یعنی اگر اس کا والد نہ ہو ۔ بحرمیں قنیہ سے ہے اھ۔ اور اسی میں ہے کہ اولاد کے ساتھ مقید اس لیے کیا ہے کہ بقیہ اقارب کے لیے جائز ہے مثلاً فقرا ء بھائی ، چچے اور خالو بلکہ اولیٰ ہیں کیونکہ یہاں صلہ اور صدقہ دونوں ہیں زکوٰۃ سوتیلی والدہ، سوتیلے بھائی اور اپنے داماد کو دی جاسکتی ہے تاتار خانیہ اھ ملخصاًاور اسی کے کتاب الوصایامیں ماتن کے قول ''الشرف من الام فقط غیرمعتبر''کے تحت ہے کہ اس کی تائید ہندیہ میں بدائع کے حوالے سے یہ قول کرتا ہے کہ یہ بات ثابت ہے کہ حسب و نسب والد کے ساتھ مخصوص ہے نہ کہ ماں کے ساتھ اھ اور اس پر زکوٰۃ حرام نہ ہوگی اور نہ وہ ہاشمی کے لیے کفوء ہوگا اور وہ وقف علی الاشراف میں داخل نہ ہوگا ط اھ ۔
(۱ ردالمحتار باب المصرف مصطفی البابی مصر۲ /۶۹۰ ) (۲ ردالمحتار باب المصرف مصطفی البابی مصر ۲/ ۶۹۰ ) (۳ ؎ ردالمحتار باب المصرف مصطفی البابی مصر ۲/۷۲)(۴؎ ردالمحتار باب المصرف مصطفی البابی مصر۲/۶۹ )(۵ ردالمحتار باب الوصیۃ للاقارب وغیرہم مصطفی البابی مصر ۵ /۴۴۷ )
وفیہ قال فی الفتح ایضا ولا یحل لہ ای لا بن السبیل ان یا خذ اکثر من حاجتہ قلت وھذا بخلاف الفقیر فانہ یحل لہ ان یا خذ اکثرمن حا جتہ و بھذا فارق ابن السبیل کما افادہ فی الذخیرۃ اھ۱؎ وفیہ تحت قولہ ومنہ ما لو کان مالہ مؤجلا ای اذا احتاج الی النفقۃ یجوزلہ اخذالزکوٰۃ قد ر کفایتہ الی حلول الاجل نھر عن الخانیۃ اھ ۲؎ فیہ تحت قولہ او علیٰ غائب ای ولو کان حالالعدم تمکنہ من اخذہ ۳؎ ط اھ وفیہ تحت قولہ او معسر او جاحد ولو بینۃ فی الاصح فیجوز لہ الاخذ فی اصح الاقاویل لانہ بمنز لۃ ابن السبیل ولو موسرا معترفاً لا یجوز کما فی الخانیۃ ۴؎اھ وفیہ تحت قولہ وفی سبیل اﷲ وھو منقطع الغزاۃ وقیل الحاج وقیل طلبۃ العلم و فسرہ فی البدائع بجمیع القرب قال فی النھر والخلاف لفظی للاتفاق علی ان الاصناف کلھم سوی العامل یعطون بشرط الفقر ۵؎الخ وفیہ تحت قولہ و بھذا التعلیل یقوی ما نسب للواقعات من ان طالب العلم یجوز لہ اخذ الزکوٰۃ، ولوغنیا اذا فرغ نفسہ لا فادۃ العلم واستفادتہ، ھذاالفرع مخاف لا طلاقھم الحرمۃ فی الغنی ولم یعتمدہ احد ط قلت وھو کذلک والاوجہ تقییدہ بالفقیر ۱؎ الیٰ اٰخر ماافادہ علیہ رحمۃ الجواد واﷲ سبحانہ و تعالٰی اعلم۔
اور اسی میں ہے کہ فتح میں بھی کہا اور مسافر کے لیے جائز نہیں کہ وہ حاجت سے زائد ہے قلت اور یہ بخلاف فقیر ہے کہ اس کے لیے حاجت سے زائد لینا حلال ہے اور اسی سے فقیر اور مسافر میں فرق ہوگیاجیسا کہ ذخیرہ میں ہے اھ اور اس میں ماتن کے قول ''منہ ما لو کان مالہ مؤجلا''(اس کا مال مؤخر ہوجائے)کے تحت ہے یعنی جب نفقہ کا محتاج ہو تو آنے کی مدّت تک بقدر کفایت زکوٰۃ کا حصول جائزہے، یہ نہر میں خانیہ سے ہے اھ اور اسی میں ماتن کے قول ''اوعلیٰ غائب''(یا غائب پر ) کے تحت ہے یعنی اگر چہ یہ اس حال پر ہو کہ جس سے لینے پر قدرت نہ رکھتا ہو ، ط اھ ۔ او ر اسی میں ماتن کے قول ''او معسر او جاحد الخ''یا تنگدست یا منکرہو، اگر چہ اصح قول کے مطابق اس کے لیے گواہ ہوں تو اس کے لیے اصح قول کے مطابق زکوٰۃ لینا درست ہے کیونکہ یہ مسافر کی مانند ہے اور اگر امیر و معترف ہے تو اب جائز نہیں کمافی الخانیہ اھ اور اسی میں ماتن کے قول '' فی سبیل اﷲ'' کے تحت ہے یعنی وہ غازی جس کا خرچہ و اسلحہ ختم ہوگیا ہے بعض کے نزدیک اس سے حاجی اور بعض کے نزدیک طالبعلم مراد ہے، اور بدائع میں اس سے تمام امورِ خیر کے مصارف بیان کئے ہیں ۔ نہر میں ہے کہ یہ اختلاف لفظی ہے کیونکہ اس پر اتفاق ہے عامل کے سوا تمام اصناف کو بشرط فقر زکوٰۃدی جا سکتی ہے الخ اور اسی میں ماتن کے قول ''وبھذا التعلیل یقوی الخ ''اس تعلیل کے ساتھ وہ قوی ہوگیا جو واقعات کی طرف منسوب ہے کہ طالب علم کے زکوٰۃ کا لینا جائز ہے اگر چہ وُہ غنی ہو بشرطیکہ اس نے افادہ و استفادہ علم کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیا ہو، یہ جزئیہ فقہاء کے اس اطلاق کے خلاف ہے جو انہوں نے کہا کہ اگر غنی ہے تو زکوٰۃ لینا حرام ہے اور اس پر کسی نے اعتماد نہیں کیا،ط۔ قلت وہ اسی طرح ہے، اور اوجہ یہ ہے کہ اسے بھی فقر کے ساتھ مقید کر دیا جائے جیسا کہ انہوں نے افادہ کیا ان پر رحمتِ جواد ہو ۔ واﷲسبحانہ، وتعالٰی اعلم(ت)
(۱؎ و ۲؎ و ۳؎ و۴ ؎ و۵ ؎ ردالمحتار باب المصرف مصطفی البابی مصر ۲ /۶۷) (۱؎ ردالمحتار باب المصرف مصطفی البابی مصر ۲ /۶۵)