اقول : و یظھر لی ان ثواب تلک القرب لھما جمیعاً لان من دل علی خیر کان کفا علہ وقد تو ا تر عن النبی صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم فی نظائرہ تکامل الثواب لکل شریک فی الخیر لا تنقص الشرکۃ من اجورھم شیئاً فھذا الذی حدانی علی الجزم بما سمعت ثم رأیت فی الدرالمختار حیلۃ التکفین بھا التصدق علی الفقیرثم ھو یکفن فیکون الثواب لھما اھ ۱؎
اقول : پھر یہ بات واضح ہُوئی ہے کہ ان امورِخیر کا ثواب دونوں کے لیے ہے کیونکہ جو کسی نیکی پر رہنمائی کرتااسے بھی عمل کرنے والے کی طرح ثواب ملتا ہے، حضور علیہ السّلام سے ایسے معاملات میں تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ کارِ خیر میں ہر شریک کو کامل ثواب ملتا ہے شرکت سے اجر شرکاء میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی، مجھے اس پر مذکورہ دلائل کی وجہ سے جزم تھا جسے تُو سُن چکا، پھر میں نے درمختار میں دیکھا کہ کفن کا حیلہ یہ ہے کہ پہلے مال فقیر پر صدقہ کیا جائے پھر فقیر اس سے کفن بنائے تو ثواب دونوں کے لیے ہوگا اھ۔
( ۱؎ در مختار کتاب الزکوٰۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۱۳۰)
قال الشامی ای ثواب الزکوٰۃ للمزکی و ثواب التکفین للفقیر وقد یقال ان ثواب التکفین یثبت للمزکی ایضا لان الدال علی الخیر کفاعلہ وان اختلف الثواب کما و کیفما ط قلت و اخرج السیوطی فی الجامع الصغیر لو مرّت الصدقۃ علی یدی مائۃ لکان لھم من الاجر مثل اجرالمبتدئ من غیر ان ینقص من اجرہ شئ اھ ۲؎ فھذا عین ما بحث وﷲالحمد۔
امام شامی نے کہا کہ زکوٰۃ کا ثواب مزکی کے لیے اور تکفین کا ثواب فقیر کے لیے ہوگا، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ تکفین کا ثواب مزکی کے لیے بھی ہے کیونکہ خیر پر رہنمائی کرنے والا فاعلِ خیر کی طرح ہی ہوتا ہے اگر چہ کمیت و کیفیت کے اعتبار سے ثواب مختلف ہوگا ،ط۔ قلت امام سیوطی نے جامع صغیرمیں نقل کیا کہ اگر صدقہ سَو ہاتھ بھی گزرے تو اجر میں بغیر کسی کمی کے ہر ایک کو اتنا ہی اجر حاصل ہوگا جتنا پہلے کو ہے، یہ بعینہٖ وہی ہے جو ہم نے ذکر کیا، وﷲالحمد(ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الزکوٰۃ مصطفی البابی مصر ۲ /۱۳)
مگر اس میں دقّت اتنی ہے اگر اس نے نہ مانا تو اسے کوئی راہ جبر کی نہیں کہ آخر وُہ مالک مستقل ہو چکا اسے اختیار ہے چاہےدے یا نہ دے۔ درمختار میں ہے:
لحیلۃ ان یتصدق علی الفقیر ثم یا مرہ بفعل ھذہ الاشیاء وھل لہ ان یخالف امرہ لم ارہ والظاہر نعم۔ ۳؎
حیلہ یہ ہے کہ فقیر پر صدقہ کیا جائے پھر اسے ان امور کو بجالانے کا کہا جائے، کیا وُہ فقیر اس کی مخالفت کر سکتا ہے یا نہیں ؟یہ میری نظر سے نہیں گزرا، ظاہر یہی ہے کہ مخالفت کر سکتا ہے۔(ت)
( ۳؎ درمختار باب المصرف مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۱۴۱)
ردالمحتار میں ہے :
البحث لصاحب النھروقال لانہ مقتضی صحۃ التملیک، قال الرحمتی والظاہر انہ لا شبہۃ فیہ لا نہ ملکہ ایاہ عن زکوٰۃمالہ وشرط علیہ شرطافاسد او الھبۃ والصدقۃلاتفسدان بالشرط الفاسد۔۱؎
صاحبِ نہر نے بحث کی ہے، اور کہا یہ مخالفت کر سکنا صحتِ تملیک کا تقاضا کر تا ہے۔شیخ رحمتی نے فرمایا یہی ظاہر ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کیونکہ اپنی زکوٰۃ کا مالک بنایاگیاہے اور اس پر ایک فاسد شرط لگائی گئی ہے اور ہبہ اور صدقہ شرطِ فاسد سے فاسد نہیں ہوتا۔(ت)
( ۱؎ ردالمحتار باب المصرف مصطفی البابی مصر ۲ /۶۹)
لہذا فقیر غفرا ﷲتعالٰی لہ کے نزدیک اس کا بے خلش طریقہ یہ ہے کہ مثلاًمالِ زکوٰۃ سے بیس۲۰ روپے سیّد کی نذر یا مسجد میں صرف کیا چاہتا ہے کسی فقیر عاقل بالغ مصرفِ زکوٰۃ کوکوئی کپڑا مثلاً ٹوپی یا سیر سوا سیر غلّہ دکھائے کہ یہ ہم تمھیں دیتے ہیں مگر مفت نہ دیں گے بیس روپے کو بیچیں گے، یہ روپے تمھیں ہم اپنے پاس سے دیں گے کہ ہمارے مطالبہ میں واپس کردو وہ خواہ مخواہ راضی ہوجائےگا، جانے گا کہ مجھے تو یہ چیز یعنی کپڑا یا غلّہ مفت ہی ہاتھ آئے گا، اب بیع شرعی کرکے بیس ۲۰ روپے بنیّتِ زکوٰۃ اسے دے، جب وہ قابض ہوجائے اپنے مطالبہ ثمن میں لے لے۔ اول تو وہ خود ہی دے دے گا کہ سرے سے اسے ان روپوں کے اپنے پاس رہنے کی اُمید ہی نہ تھی کہ وُہ گرہ سے جاتا سمجھے اسے تو صرف اس کپڑے یا غلّہ کی امید تھی وُہ حاصل ہے تو انکار نہ کرے گا اور کرے بھی تو یہ جبراًچھین لے کہ وہ اس قدر میں اس کا مدیون ہے اور دائن جب اپنے دین کی جنس سے مال مدیون پائے تو بالاتفاق بے اس کی رضا مندی کے لے سکتا ہے، اب یہ روپے لے کر بطورِ خود نذرِ سیّد یا بناءِ مسجد میں صرف کردے کہ دونوں مرادیں حاصل ہیں۔
درمختار میں ہے:
یعطی مدیونہ الفقیرزکوٰتہ ثم یا خذھا من دینہ ولوامتنع المدیون مد یدہ واخذھا لکونہ ظفر بجنس حقہ اھ ۲؎
اپنے مدیون فقیر کو زکوٰۃ دی پھر اس سے دین وصول کرے، اگر مدیون نہ دے تو اس سے چھین لے کیونکہ یہ اپنے حق کی جنس کو پاتا ہے اھ(ت)
( ۲؎ درمختار کتاب الزکوٰۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۱۳۰)
اور فقیر غفراﷲ تعالٰی لہ نے اُس مصرف زکوٰۃ کے عاقل بالغ ہونے کی شرط اس لیے لگائی کہ اس کے ساتھ یہ غبن فاحش کی مبایعت بلا تکلّف روا ہواور کپڑے غلّے کی تخصیص اس لیے کی کہ اگرکچھ پیسے بعوض روپوں کے بیچنا چاہے گاتو ظاہر مفاد جامع صغیرپرتقابض البدلین شرط ہوگا وُہ یہاں حاصل نہیں اگر چہ روایت اصل پر ایک ہی جانب کا قبضہ کافی اور اکثر علماء اسی طرف ہیں اور یہی قول منقح،
کما بیناہ فی البیوع من فتاونٰا بل حققنا فیھا ان لا دلالۃ لکلام الجامع الصغیر ایضا علی اشتراط التقابض و ان ظن العلامۃ الشامی ماظن۔
جیساکہ ہم نے اپنے فتاوٰی کی بیوع میں بیان بلکہ اس کی تحقیق کی ہے کہ جامع صغیر عبارت میں بھی تقابض کے شرط ہونے پر کوئی دلالت نہیں اگرچہ علّامہ شامی کا گمان کچھ ہو۔ (ت)
بہرحال اس حتی الوسع محلِ خلاف سے بچنا احسن اور زرِ زکوٰۃ پر اُس کا قبضہ کراکر اپنے مطالبے میں لینے کی قید اسلیے کہ کوئی صدقہ بے قبضہ تمام نہیں ہوتا
کما نص علیہ العلماء
(جیساکہ علماء نے اس پر نص فرمائی ہے۔ ت) اور یہ تو پہلے بیان میں آچکا کہ اغنیاء کثیر المال شکر نعمت بجا لائیں ۔ ہزاروں روپے فضول خواہش یا دنیوی آسائش یا ظاہر آرائش میں اُٹھانے والے مصارف خیر میں ان حیلوں کی آڑ نہ لیں۔ متوسط الحال بھی ایسی ہی ضرورتوں کی غرض سے خالص خدا ہی کے کام صرف کر نے کے لیے ان طریقوں پر اقدام کریں نہ یہ کہ معاذاﷲاُن کے ذریعہ سے ادا ئے زکوٰۃ کانام کرکے روپیہ اپنے خُر دبُردمیں لائیں کہ یہ امر مقاصد شرع کے بالکل خلاف اور اس میں ایجاب زکوٰۃ کی حکمتوں کا یکسر ابطال ہے تو گویا اس کا برتنااپنے رب عزوجل کو فریب دینا ہے۔