اقول : یہ حکایت نہ روایۃً رجیح نہ درایۃً نجیح، ہم ابھی بیان کر آئے کہ علّتِ حرمت بنصِ صریح صاحب شرع صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم و تصریحاتِ متظافرہ حاملانِ شرع رحمۃ اﷲعلیہم کثافتِ صدقات و نظامتِ سادات یعنی بنی ہاشم ہے، اور تبد لِ زمانہ سے متبدل نہیں ہو سکتی، اور جو دلیل اس ضعیف قیل پر بیان میں آئی، فقیر غفر اﷲتعالےٰ لہ' نے اس کی کامل نا تمامی اپنے فتاویٰ یکم جمادی الاولیٰ ۱۳۰۶ ہجریہ مندرجہ مجموعہ
العطایاالنبویۃ فی الفتاوی الرضویۃ
میں بحمد اﷲتعالٰی روشن بیانوں سے واضح کردی اسی میں اٹھارہ۱۸ دلائل ساطعہ قائم کیے کہ امام اجل ابو جعفر طحاوی قدس سرہ' کی طرف اس روایت مرجوحہ کے اخذو اختیار کی نسبت میں بڑا دھوکا واقع ہواجن میں سترہ ۱۷ خود کلام امام ممدوح کی شہادات سے ہیں بلکہ وُہ بلا شُبہ اسی مذہب حق و ظاہر الروایۃ کو بھذا ناخذ(ہم اسی کو لیتے ہیں۔ت) فرماتے اور معتمد و مفتی بہ ٹہراتے ہیں، ایک سہل سی عام فہم بات یہ ہے کہ وہی امام ممدوح اپنی اسی کتاب شرح معانی الآثار کی اُسی کتاب، اُسی باب ، اسی بحث میں جہاں ان سے اس ترجیح معکوس کا وقوع بتایا جاتاہے خاص اسی بھذا ناخذ سے صاف صریح تصریح فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک بنی ہاشم کے غلام تو غلام ،موالی پربھی زکوٰۃ حرام فرماتے ہیں۔ ہمارے ائمہ سے اس کا خلاف معلوم نہیں۔ سبحان اﷲ جب ان کے نزدیک خود بنی ہاشم کے لیے زکوٰۃ حلال تھی تو ان کے غلاموں پر حرام ماننا کیونکر معقول تھا، طرفہ یہ کہ یہیں امام طحاوی نے اس مذہب کو اختیار فرمایا ہے کہ بنی ہاشم پر نہ صرف زکوٰۃ صدقات واجبہ بلکہ صدقہ نافلہ بھی حرام ہے۔ اور فرماتے ہیں ہمارے ائمہ ثلٰثہ رضی اﷲتعالےٰ عنہم کا یہی قول ہے، پھر انھیں قائل جواز ماننا کیسا سخت قول بالمحال ہے جسے اس مطلبِ جلیل کی تنقیحِ جمیل پر اطلاع منظور ہو فتاوٰی فقیر کی طرف رجوح کرے، اور جب یقینامعلوم کہ وُہ روایت شاذہ مذہب اجماعی ائمہ ثلٰثہ کے خلاف واقعہ اور تمام متون کا اس کے خلاف پر اجماع قاطع' اور سیّد عالم صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم کی احادیثِ متواترہ اس کی دافع، اور دلیل و درایت میں بھی اُ س کا حصّہ محض ذاہب و ضائع، اور فتٰوی امام طحاوی یقینا جانبِ ظاہر الروایۃ راجع، تو اس پر فتویٰ دینا قطعاً مردود، جس سے شرع مطہر جزماً مانع، کون نہیں جانتا کہ اطباقِ متون کی کیسی شان جلیل ہے جس کے سبب بار ہا محققین نےجانبِ خلاف کی تصحیحوں کو قبول نہ کیا نہ اس طرف تصحیح وترجیح کا نام بھی نہ ہو نہ کہ صراحۃً امام مجتھد نے اسی جانب پر فتویٰ دیا ہو با اینہمہ اسے چھوڑ کر اُدھرجانا کس قدر موجب عجب شدید ہے،
درمختار میں ہے:
قال فی الخانیۃ وعلیہ الفتوی لکن المتون علی الاول فعلیہا المعول ۱
خانیہ میں ہے کہ فتوی اسی پر ہے لیکن متون میں پہلا قول ہے لہٰذا اسی پر اعتماد ہوگا ۔(ت)
(۱؎ درمختار کتاب القسمۃ مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۱۹)
کون نہیں جانتا کہ ہنگامِ اختلاف ظاہر الروایۃ ہی مرجح ہے اگر چہ دونوں مذیل بفتوٰی ہوں۔ بحرالرائق میں ہے:
اذااختلف التصحیح وجب الفحص عن ظاہر الروایۃ والرجوع الیھا۔۲؎
جب تصحیح اقوال میں اختلاف ہو تو ظاہر الروایۃ کی تلاش اور اس کی طرف ہی رجوع کرنا چاہئے(ت)
(۲؎ بحرالرائق باب المصرف ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲ /۲۵۰)
علماء فرماتے جوکچھ ظاہرالروایۃ کے خلاف ہے ہمارے ائمہ کا مذہب نہیں۔ درالمختار کی کتاب احیا ء الموات میں ہے :
ما خالف ظاہر الروایۃ لیس مذھباً لا صحا بنا۔۱؎
جو ظاہر روایت کے خلاف ہو وہ ہمارے اصحاب کا مذہب نہیں ہوتا۔ (ت)
(۱؎ رد المحتار کتاب احیاء الموات دار احیا أالتراث العربی ۵ /۲۷۸)
پھر جبکہ خاص اسی طرف فتویٰ ہُوا اور اُس جانب کچھ نہیں تو اُدھر چلنا روشِ فقہی سے کتنا بعید ہے، کون نہیں جانتا کہ قوتِ دلیل کس قدر موجبِ تعویل، یہاں تك کہ علماء فرماتے ہیں:
لا یعدل من درایۃ ما وا قفھاروایۃ۲؎ کما فی الغنیۃ شرح المنیۃ ورد المحتار وغیر ھما۔
اس عقلی دلیل سے اعراض نہیں کیا جائے گا جو نقلی دلیل کے مطابق ہو جیسا کہ منیہ شرح غنیہ اور ردالمحتار وغیرہ میں ہے۔ (ت)
( ۲؎ ردالمحتار داراحیاء التراث بیروت ۱/۳۱۲ و غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی سہیل اکیڈمی لاہور ص ۲۹۵)
اس تنکیر روایۃ پر نظر کیجئے اور مانحن فیہ کی حالت دیکھئے، جب روایت کی موافق مانع عدول تو ما ھی الروایۃ کا خلاف کیو نکر مقبول ، پھر اس طرف احادیث متواترہ ، ان سب کے جن کے صحت پر ایسا یقین کہ گویا بگوش خویش کلام اقدس حضورپُر نور صلوٰۃاﷲتعالےٰ و سلامہ علیہ سُن رہے ہیں، میں نہیں کہہ سکتا کہ ان کے وجوہ کے بعد بھی وُہ روایت قبول تو قبول، التفات کے قابل ٹھرے۔ لا جرم ملاحظہ کیجئے کہ بکثرتِ علماءِ اصحاب متون و شر وح وفتاوی اپنی تصانیف عظیمہ جلیلہ معتمدہ مثل
قدوری و بدایہ و وافی و کنز و وقایہ و نقایہ و اصلاح و ملتقی و ہدایہ و تنویر و کافی و شرح وقایہ و ایضاح و اشباہ و درمختار و طریقہ محمدیہ و حدیقہ ندیہ و خانیہ و خلاصہ و خزانۃ المفتین و جواہر اخلاطی و عٰلمگیری وغیرہا
میں اُس روایت کا نام تک زبان پر نہ لائے اور طبقۃ فطبقۃ منع و تحریم روشن تصریحیں کرتے آئے ، کیا وہ اس روایت شاذہ سے آگاہ نہ تھے، یقینا تھے، مگر اسے قابلِ التفات نہ سمجھے، اور بے شک وُہ اسی قابل تھی۔ یہ باون عبارتیں اور ستائیس ۲۷ حدیثیں جن کی طرف فقیر نے اس تحریر میں اشارہ کیا ، بحمدا ﷲ اس وقت فقیر کے پیشِ نظر ہیں ، سب کی نقل سے بخوفِ تطویل دست کشی کی۔ بالجملہ اصلاًمحلِ شک و ارتیاب نہیں کہ سادات کرام وبنی ہاشم پر زکٰوۃ یقیناً حرام ،نہ انھیں لینا جائز نہ دینا جائز ،نہ ان کے دئے زکٰوۃ ادا ہو تو اس میں گناہ کے سوا کچھ حاصل نہیں ، اور اس کے جواز پر فتویٰ دینا محض غلط باطل، اور حیلہ صحت بلکہ قابلیتِ اغماض سے عاری و عاطل، کیا معلوم نہیں کہ علمائے کرام نے ایسے فتویٰ کی نسبت کیسے سخت الفاظ ارشاد کیے ہیں ۔
درمختار میں ہے:
الحکم و الفتیا بالقول المرجوح جہل وخرق للاجماع اھ ۳؎ ولا حول ولا قوۃ الّا باﷲالعلی العظیم۔
قول مرجوح پر فیصلہ و فتویٰ جہالت اور اجماع کو توڑنا ہے اھ(ت)
ولا حول ولا قوۃ الّا باﷲالعلی العظیم..
(۳؎ در مختار خطبۃالکتاب مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۱۵)
رہایہ کہ پھر اس زمانہ پُر آشوب میں حضرات سادات کرام کی مواسات کیونکرہو، اقول بڑے مال والے اگر اپنے خالص مالوں سے بطور ہدیہ ان حضراتِ عُلیہ کی خدمت نہ کریں تو ان کی بے سعادتی ہے، وُہ وقت یاد جب ان حضرات کے جدِّاکرم صلے اﷲتعالےٰ علیہ وسلم سو اظاہری آنکھوں کو بھی کوئی ملجا و ماوی نہ ملے گا، کیا پسند نہیں آتا کہ وُہ مال جو اُنھیں کے صدقے میں انھیں کی سرکار سے عطا ہُوا، جسے عنقریب چھوڑکر پھر ویسے ہی خالی ہاتھ زیرِ زمین جانے والے ہیں، اُن کی خوشنودی کے لیے ان کے پاک مبارک بیٹوں پر اُس کا ایک حصّہ صرف کیا کریں کہ اُس سخت حاجت کے دن اُس جو اد کریم رؤف و رحیم علیہ افضل الصلٰوۃ وا لتسلیم کے بھاری انعاموں، عظیم اکرامو ں سے مشرف ہوں۔ ابنِ عساکر امیرالمونین مولا علی کرم اﷲوجہہ' سے راوی ، رسول اﷲصلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
من صنع الیٰ اھل بیتی یداً کافاتہ علیھا یوم القیٰمۃ۔ ۱؎
جو میرے اہلِ بیت میں سے کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا میَں روزِ قیامت اس کا صلہ اسے عطا فرماؤں گا۔
خطیب بغدادی امیر المومنین عثمانِ غنی رضی ا ﷲتعالٰی عنہ سے راوی، رسول اﷲصلی اﷲتعالےٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
من صنع صنیعۃ الی احد من خلف عبد المطلب فی الدّنیا فعلی مکافاتہ اذا لقینی۔ ۲؎
جو شخص اولادِعبدالمطلب میں کسی کے ساتھ دنیا میں نیکی کرے اس کا صلہ دینا مجھ پر لازم ہے جب وُہ روزِقیامت مجھ سے ملے گا۔
(۲؎ تاریخ بغداد ترجمہ۵۲۲۱ ۵ عبداﷲبن محمدالفزاری دارالکتاب العربی بیروت ۱۰ /۱۰۳)
اﷲاکبر، اﷲاکبر !قیامت کا دن، وُہ قیامت کا دن ، وہ سخت ضرورت سخت حاجت کا دن، اور ہم جیسے محتاج، اور صلہ عطا فرمانے کو محمد صلے اﷲتعالےٰ علیہ وسلم سا صاحب التاج، خدا جانے کیا کچھ دیں اور کیسا کُچھ نہال فرمادیں، ایک نگاہِ لُطف اُن کی جملہ مہمات دو جہاں کو بس ہے، بلکہ خود یہی صلہ کروڑوں صلے سے اعلیٰ وانفس ہے ،جس کی طرف کلمہ کریمہ اذالقینی(جب روز قیامت مجھ سے ملے گا۔ت)اشارہ فرماتاہے، بلفظِ اذا تعبیر فرمانا بحمد اﷲ بروزِ قیامت وعدہ وصال و دیدارِ محبوبِ ذی الجلال کا مژدہ سُناتا ہے ۔ مسلمانو!اور کیا درکار ہے دوڑواور اس دولت و سعادت کو لو و باﷲلتوفیق اور متوسط حال والے اگر مصارف مستحبہ کی وسعت نہیں دیکھتے تو بحمدا ﷲ وُہ تدبیر ممکن ہے کہ زکوٰۃ کی زکوٰۃ ادا ہو اور خدمتِ سادات بھی بجا ہو یعنی کسی مسلمان مصرفِ زکوٰۃ معتمد علیہ کو کہ اس کی بات سے نہ پھرے، مالِ زکوٰۃ سے کچھ روپے بہ نیتِ زکوٰۃ دے کر مالک کردے ، پھر اس سے کہے تم اپنے طرف سے فلاں سیّد کی نذر کر دو اس میں دونو ں مقصود حاصل ہو جائیں گے کہ زکوٰۃ تو اس فقیر کو گئی اوریہ جو سیّد نے پایا نذرانہ تھا ، اس کا فرض ادا ہوگیا اور خدمتِ سیّد کا کامل ثواب اسے اور فقیر دونوں کو ملا ،
ذخیرہ وہندیہ میں ہے :
ذا اراد ان یکفن میتاعن زکوٰۃ مالہ لا یجوز والحیلۃ ان یتصدق بھا علی فقیر من اھل المیّت ثمّ ھو یکفن بہ فیکون لہ ثواب الصدقۃ ولاھل المیت ثواب التکفین وکذلک فی جمیع ابواب البر کعمارۃ المساجد و بناء القناطیر والحیلۃ ان یتصدق بمقدار زکوٰتہ علیٰ فقیر ثمّ یا مرہ بالصرف الیٰ ھذہ الوجوہ فیکون للتصدق ثواب الصدقۃ والفقیر ثواب بناء المسجد والقنطرۃ اھ ۱؎ ملخصاً۔
اگر کوئی شخص زکوٰۃ سے میّت کا کفن تیار کرنا چاہے تو جائز نہیں،ہاں یہ حیلہ کر سکتا ہے کہ خاندان میّت کے کسی فقیر پر صدقہ کر دے اور وُہ میّت کا کفن تیار کردے، تواب مالک کے لیے صدقے کا اور اہلِ میّت کے لیے تکفین کا ثواب ہوگا، اسی طرح کا حیلہ تمام امورِ خیر مثلاً تعمیر مساجد اور پلوں کے بنانے میں جائز ہے کہ مالک مقدارِ زکوٰۃ کے برابر کسی فقیر کو دے دے اور اسے کہے کہ تُو ان امور پر خرچ کر دے تو اب صدقہ کرنے والے کے لیے صدقہ کا اور بناءِ مسجد و پُل کا ثواب فقیر کو ہوگااھ ملخصاً(ت)
(۱؎ فتاویٰ ہندیۃ کتاب الحیل الفصل الثالث فی مسائل الزکوٰۃ نورانی کتب خانہ پشاور ۶ /۳۹۲ )