مسئلہ رابعہ: سادات محتاجین کو زر ِزکوٰۃ دینا جائز ہے یا نہیں، بہت سادات محتاج ایسے ملتے ہیں کہ خود مانگتے ہیں اور میں نے سُنا ہے کہ علمائے رام پور نے جواز کا فتوٰی دیا ہے مگر میں نے اب تک یہ جرأت نہ کی۔ اس بارہ میں آپ کیا حکم فرماتے ہیں؟بینوا تو جروا
الجواب :اللّٰھم ھدایۃ الحق والصواب،
زکوٰۃ ساداتِ کرام و سائرِ بنی ہاشم پر حرامِ قطعی ہے جس کی حرمت پر ہمارے ائمہ ثلٰثہ بلکہ ائمہ مذ اہبِ اربعہ رضی اﷲتعالٰی عنہم اجمعین کا اجماع قائم۔ امام شعرانی رحمہ اﷲتعالٰی میزان میں فرماتے ہیں :
اتفق الائمۃ الاربعۃ علی تحریم الصدقۃ المفروضۃ علی بنی ھاشم و بنی عبد المطلب وھم خمس بطون اٰل علی واٰل العباس و اٰل جعفر واٰل عقیل واٰل الحارث بن عبد المطلب ھذامن مسائل الاجماع و الاتفاق اھ ۱؎ ملخصاً۔
باتفاقِ ائمہ اربعہ بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب پر صدقہ فرضیہ حرام ہے، اور وُہ پانچ خاندان ہیں: آلِ علی، آلِ عباس،آلِ جعفر، آلِ عقیل، آلِ حارث بن عبدالمطلب۔ یہ اجماعی اور اتفاقی مسائل میں سے ہے اھ ملخصاً۔(ت)
( ۱؎ المیزان الکبرٰی باب قسم الصدقات مصطفی البابی مصر ۲ /۱۳)
اول تاآخر تمام متون مذہب قاطبۃًبے شذوذ شاذو عامہ شروح معتمدہ و فتا وائے مستندہ اس حکم پر ناطق اور خود حضور پر نور سیّد السادات صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے متواتر حدیثیں اس باب میں وارد ، اس وقت جہاں تک فقیرکی نظر ہے بیس صحابہ کر ام رضی اﷲتعالٰی عنہم نے اس مضمون کی حدیثیں حضورِ اقدس صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم سے روایت کیں:
حضرت سیّد نا امام حسن مجتبیٰ رضی اﷲ تعالٰی عنہ روی عنہ احمد والبخاری ومسلم
(ان رضی اﷲتعالٰی عنہ سے امام احمد، بخاری اور مسلم نے روایت کیاہے۔ت)
حضرت سیّد نا امام حسین رضی اﷲ تعالٰی عنہ روی احمد وابن حبان برجال ثقات
(ان رضی اﷲتعالٰی عنہ سے احمد اور ابن حبان نے ثقہ رجال کے ساتھ روایت کیاہے۔ت)
حضرت سیّد ناعبداﷲبن عباس رضی اﷲتعالٰی عنمھا روی الامام الطحاوی والحاکم وابو نعیم وابن سعد فی الطبقات وابو عبید القاسم بن سلام فی کتاب الاموال وروی عنہ الطحاوی حدیثاً اٰخرو الطبرانی حدیثاً ثالثا
(امام طحاوی، حاکم ، ابونعیم، ابن سعد نے طبقات اورابو عبید قاسم بن سلام نے کتاب الاموال میں روایت کیا ہے اور طحاوی نے ان سے دوسری حدیث اور طبرانی نے تیسری حدیث روایت کی ہے۔ت)
حضرت عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب رضی اﷲتعالٰی عنہ روی عنہ احمد ومسلم والنسائی
(ان سے احمد، مسلم اور نسائی نے روایت کیاہے۔ت)
حضرت سلمان فارسی رضی اﷲتعالٰی عنہ روی عنہ ابن حبان والطحاوی والحاکم وابونعیم
(ان سے ابن حبان، طحاوی، حاکم اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔ت)
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲتعالٰی عنہ روی عنہ الشیخان ولہ عند الطحاوی حدیثان اٰخران
( ان سے بخاری و مسلم نے روایت کیا اور انہی سے امام طحاوی نے دو۲ اور احادیث نقل کی ہیں ۔ت)
حضرت انس بن مالک رضی اﷲعنہ روی عنہ البخاری ومسلم ولہ عند الطحاوی حدیث اٰخر
( ان سے بخاری اور مسلم نے روایت کیا اور انہی سے طحاوی نے ایک اور حدیث روایت کی ہے۔ت)
حضرت معاویہ بن حیدہ قشیرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ روی عنہ الترمذی وا لنسائی ولہ عند الطحاوی حدیث اٰخر
(ان سے ترمذی اور نسائی نے روایت کیا اور انہی سے طحاوی نے ایک اور حدیث بیان کی ہے۔ت)
حضرت ابو رافع مولیٰ رسول اﷲصلے اﷲتعالٰی علیہ وسلم روی عنہ احمد وداؤد والترمذی والنسائی والطحاوی و ابن حبان وابن خزیمۃوالحاکم
(ان سے امام احمد ، داؤد، ترمذی، نسائی، طحاوی ، ابن حبان ، ابن خزیمہ اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ت)
حضرت ہرمزیاکیسان مولیٰ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم روی عنہ احمد والطحاوی
(ان سے احمد اور طحاوی نے روایت کیا ہے۔ ت)
حضرت بریدہ اسلمی رضی اﷲ تعالٰی عنہ روی عنہ اسحاق بن راھویۃ وابو یعلی الموصلی والطحاوی والبزاز ولطبرانی والحاکم
(ان سے اسحاق بن راھویہ، ابویعلی الموصلی، طحاوی،بزاز، طبرانی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ت)
حضرت ابو یعلی رضی اﷲتعالٰی عنہ ، حضرت ابو عمیرہ رشید بن مالک رضی اﷲ تعالٰی عنہ روی عنھماالطحاوی
(ان دونوں سے طحاوی نے روایت کیا ہے۔ت)
حضرت عبدا ﷲبن عمر رضی اﷲ عنھما، حضرت عبدالرحمٰن بن علقمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ یقال صحابی
( ان کو صحابی کہا گیاہے ۔ت)
حضرت عبد الرحمٰن بن ابی عقیل رضی اﷲتعالٰی عنہ علق عن الثلٰثۃ الترمذی
(امام ترمذی نے ان تینوں سے تعلیقاًحدیث بیان کی ہے۔ت)
حضرت ام المومنین صدیقہ بنت الصدّیق رضی اﷲتعالٰی عنہماروی عنھا الستّۃ
(ان سے اصحابِ ستّہ نے بیان کیا۔ت)
حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا روی عنہ احمد و مسلم
( ان سے امام احمد اور مسلم نے روایت کیا۔ت)
حضرت ام عطیہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ روی عنہا احمد و البخاری و مسلم
( ان سے امام احمد، بخار ی اور مسلم نے روایت کیا ہے۔ت) اور بیشک اس تحریم کی علت اُن حضرات عالیہ کی عزّت و کرامت و نظامت و طہارت کہ زکوٰۃ مال کا میَل ہے اور گناہوں کا دھوون،اس ستھری نسل والوں کے مقابل نہیں خود حضور اقدس صلی اﷲتعالےٰعلیہ وسلم نے اس تعلیل کی تصریح فرمائی،
کما فی حدیث المطلب عند مسلم و ابن عباس عند الطبرانی وعلی المرتضٰی عند الطحاوی رضی اﷲتعالٰی عنھم اجمعین۔
جیسا کہ مسلم کے ہاں حدیثِ مُطلّب، طبرانی کے ہاں حدیث ابن عباس اورطحاوی کے ہاں حدیثِ علی المرتضےٰ رضی اﷲتعالٰی عنہم اجمعین میں ہے۔(ت)
اسی طرح عامہ علماء مثل امام ابو جعفر طحاوی شرح معانی الآثار اورا مام شمس الائمہ سرخسی محیط اور امام صدر شہید شرح جامع صغیر اور امام برہان الدین فرغانی ہدایہ اور امام حافظ الدین نسفی کافی اور ا مام فخر الدین زیلعی تبیین اور امام سمعانی خزانۃ المفتین اور علامہ یوسف چلپی ذخیرۃالعقبٰی اور محقق غزی منح الغفار اور مدقق علائی درمختار اور فاضل رومی مجمع الانہر اور سیّد حموی غمزالعیون اور ان کے غیر میں اس حکم کی یہی علّت بیان فرماتے ہیں اور شک نہیں کہ یہ علّت تغیّر زمانہ سے متغیر نہیں ہوسکتی تو دائماًابداً بقائے حکم میں کوئی شُبہ نہیں،یہان تک کہ جمہور علمائے کرام مثل امام ابوالحسن کرخی وامام ابوبکر جصاص و امام حسام الدین عمر صدر شہید وامام علی بن ابی بکر مرغنیانی صاحبِ ہدایہ وامام طاہر بخاری صاحبِ خلاصہ وامام سغناقی صاحبِ نہایہ وامام نسفی صاحبِ کافی وامام زیلعی شارح کنز وامام حسین بن محمد صاحبِ خزانہ وامام ہمام محمدبن الہمام صاحبِ فتح علامہ اتفانی صاحبِ غایۃالبیان و علامہ برجندی شارح نقایہ و علامہ زین بن نجیم صاحبِ اشباہ و بحر و علامہ عمر بن نجیم صاحبِ نہر و علامہ ابراہیم حلبی صاحبِ ملتقی و علامہ محمد حصکفی صاحب درمختار و مصنفانِ اختیار شرح مختار و فتاوٰی ہندیہ وغیرہم رحمۃ اﷲتعالٰی علیہم بنی ہاشم کو مالِ زکوٰۃ سے عمل صدقات کی اجرت لینا ناجائز ٹہراتے ہیں حالانکہ یہ اغنیاء کے لیے بھی روا کہ من کل الوجوہ زکوٰۃ نہیں مگر آخر شبہ زکوٰۃ ہے اوربنی ہاشم کی جلالتِ شان شبہ لوث سے بھی برائت کی شایاں۔
تبیین الحقائق میں ہے :
یستحقہ عمالۃ الاان فیہ شبھۃ الصدقۃ بدلیل سقو ط الزکوٰۃ عن ارباب الاموال فلا یحل للعامل الہاشمی تنزیھا لقرابۃ النبی صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم عن شبھۃ الوسخ و تحل للغنی لا نہ لا یوازی الھاشمی فی استحقاق الکرامۃ فلا تعتبر الشبھۃ فی حقہ اھ ۱۱؎ ملخصاً۔
عاملین زکوٰۃ کے حقدار ہیں مگر چونکہ اس میں شبہ زکوٰۃ ہے کیونکہ اس سے صاحبِ اموال کی زکوٰۃ ساقط ہوجاتی ہے لہذا ہاشمی عامل کے لئے حلال نہیں تاکہ قرابتِ نبوی صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم کو مَیل کے شبہ سے بھی محفوظ رکھا جا سکے البتہ غنی عامل کے لیے جائز ہے کیونکہ وُہ مرتبہ کرامت میں ہاشمی کے برابر نہیں، لہذا ان کے حق میں اس شبہ کا اعتبار نہیں کیا جائے گااھ ملخصاً(ت)
(۱؎ تبیین الحقائق باب المصرف مطبعۃالکبر ی الامیریۃ ببولاق مصر ۱ /۲۹۷)
محیط و بحر و درر وغیرہا میں ہے: زکوٰۃ ہاشمی کے غلام مکاتب کو بھی جائز نہیں حالانکہ مکاتبِ اغنیاء کیلئے حلال، اور وجہ وہی کہ ملکِ مکاتب من وجہ ملکِ مولیٰ ہے اور یہاں شبھہ مثلِ حقیقت۔
ردالمحتار میں ہے: فی البحر عن المحیط وقد قالو اانہ لا یجوز لمکاتب ھاشمی لان الملک یقع للمولی من وجہ و الشبھۃ ملحقۃ بالحقیقۃ فی حقھم اھ ای ان المکاتب وان صار حراید احتی یملک مایدفع الیہ لکنہ مملوک رقبۃ ففیہ شبھۃ وقوع الملک لمولا ہ الھاشمی والشبھۃ معتبرۃ فی حقہ لکرامۃ بخلاف الغنی کما مر فی العمل فلذا قید بقولہ فی حق بنی ھاشم اھ۔۱؎
بحر میں محیط سے ہے کہ علماء نے فرمایاہے کہ ہاشمی کے مکاتب کے لیے زکوٰۃ جائز نہیں کیونکہ یہاں ا یک لحاظ سے مولیٰ کی ملکیت باقی ہوتی ہے اور یہاں شبہ ہاشمیوں کے حق میں حقیقی طور پر برقرارہوتا ہے اھ یعنی مکاتب اگرچہ آزاد متصوّر ہوتا ہے حتی کہ جو کچھ اسے دیا جائے وُہ اس کا مالک بن جاتا ہے لیکن گردن کے اعتبار سے مملوک ہوتا ہے لہذا اس صورت میں اس کے ہاشمی مولیٰ کی ملکیت کا شبہ ہے اور یہاں ہاشمی کی شرافت کی وجہ سے شبہ کا اعتبار ہوتا ہے بخلاف غنی کے، جیسا عامل میں گزرا ہے، اسی لیے مصنّف نے حقِ بنی ہاشم کی قید لگائی ہے اھ(ت)
(۱؎ درالمختار باب المصرف دارحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۶۰)
بالجملہ جب حدیث وُہ اور فقہ یہ، پھر خلاف کی طرف راہ کہاں، اب جو صاحب جو از پر فتوٰی دیں ان کا منشاء غلط'ایک مقدوح و مرجوح و مجروح روایت ہے جو ابوعصمہ نوح بن ابی مریم جامع نے امام رضی اﷲتعالٰی عنہ سے حکایت کی کہ ہمارے زمانے میں بنی ہاشم کو زکوٰۃ روا ہے کہ سببِ حُرمت مالِ غنیمت سے خمسِ خمس ملنا تھا اب کہ وُہ نہیں ملتا زکوٰۃ نے عود کیا۔