Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱-۲(کتاب الطہارۃ)
9 - 135
شرح نقایہ برجندی میں ہے:
قد ظھر انہ لاخلاف فی رؤیۃ المنی حیث یجب الغسل اجماعا ونقل فی شرح الطحاوی عن الفقیہ ابی جعفر ان رؤیۃ المنی ایضا علی ھذا الاختلاف والمشھور ھو الاول ۱؎ اھ۔
واضح ہوگیاکہ منی دیکھنے کی صورت میں کوئی اختلاف نہیں بالا جماع غسل واجب ہے-اورشرح طحاوی میں فقیہ ابو جعفر سے منقول ہے کہ یہ اختلاف منی دیکھنے کی صورت میں بھی ہے-اور مشہور اول ہی ہے۔اھ۔
(۱؎ شرح نقایۃ برجندی     کتاب الطہارۃ      نولکشور لکھنؤ بالسرور        ۱ /۳۰)
اب رہیں تین صورتیں اُس تری (۴) کے منی ہونے کا احتمال ہو مذی(۵) ہونے کا علم ہو منی(۶) نہ ہونا تو معلوم مگر مذی ہونے کا احتمال ہو۔پس اگر خواب میں احتلام ہونا یاد ہے تو ان تینوں صورتوں میں بھی بالاتفاق نہانا واجب ہے۔
فی رد المحتار یجب اتفاقا اذا علم انہ مذی اوشک مع تذکر الاحتلام۲؎ اھ مختصر۔
رد المحتارمیں ہے: بالا تفاق غسل واجب ہے جب خواب یاد ہونے کے ساتھ اس بات کا یقین یا احتمال ہوکہ یہ تری مذی ہے اھ مختصراً۔
(۲؎ ردالمحتار         کتاب الطہارۃ        دار احیاء التراث العربی بیروت        ۱ /۱۱۰)
اقول:وقد تظافرت الکتب علی ھذا متونا وشروحا وفتاوی فلا نظر الی ما فی الحلیۃ عن المصفی عن المختلفات''انہ اذا تیقن بالاحتلام وتیقن انہ مذی فانہ لایجب الغسل عندھم جمیعا۳؎ ''
اقول:اس حکم پر متون، شروح ،فتاوٰی تینوں درجے کی کتابیں متفق ہیں- تو وہ قابل تو جہ نہیں جو حلیہ میں مصفٰی سے اس میں مختلفات سے منقول ہے کہ : ''جب احتلام کا یقین ہو اور یہ بھی یقین ہو کہ یہ تری مذی ہے تو ان تینوں ائمہ کے نزدیک غسل واجب نہیں۔''
(۳؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )
و رأیتنی کتبت علی ھامش نسختی الحلیۃ ھھنا مانصہ''عامۃ المعتبرات علی نقل الاجماع فی ھذہ الصورۃ علی وجوب الغسل،و فی بعضھا جعلوھا خلافیۃ بین ابی یوسف وصاحبیہ اماحکایۃ الاجماع فیھا علی عدم الوجوب فمخالفۃ لجمیع المعتبرات ولقد کدت ان اقول ان لاوقعت زائدۃ من قلم الناسخین لولا انی رأیت فی جامع الرموز مانصہ لو تیقن بالمذی لم یجب تذکر الاحتلام ام لا و ھذا عندھم علی ما فی المصفی عن المختلفات لکن فی المحیط وغیرہ انہ واجب حینئذ ۱؎ اھ'' ماکتبت علیہ۔
میں نے اپنے نسخہ حلیہ پر یہاں دیکھا کہ میں نے حاشیہ لکھا ہے: عامہ کتب معتبرہ نے اس صورت میں وجوب غسل پر اجماع نقل کیا ہے- بعض کتابوں کے اندر اس صورت میں امام ابو یوسف اور طرفین کا اختلاف بتایا ہے-لیکن یہ حکایت کہ اس صورت میں عدم وجوب پر تینوں ائمہ کا اجماع ہے یہ تمام معتبر کتابوں کے خلاف ہے ۔ میں تو یہ کہہ دیتا کہ لفظ ''لا''( نہیں )-ناقلوں کے قلم سے زیادہ ہوگیا ہے لیکن جامع الرموز میں بھی دیکھا کہ یہ لکھا ہوا ہے: اگر مذی ہونے کا یقین ہو تو غسل واجب نہیں ،احتلام یاد ہو یا نہ ہو، اور یہ تینوں ائمہ کے نزدیک ہے اس کے مطابق جو مصفی میں مختلفات سے نقل ہے۔ لیکن محیط وغیرہ میں ہے کہ اس صورت میں غسل واجب ہے اھ''حلیہ پر میرا حاشیہ ختم ہوا۔
(۱؎ حواشی امام احمد رضا علی حلیۃ المحلی)
وانا الان عــہ ایضا لا استبعد ان الامرکما ظننت من وقوع لا زائدۃ فی نسخۃ المصفی او المختلفات ونقلہ القہستانی بالمعنی ولم یتنبہ لما اسمعنا،واللّٰہ تعالٰی اعلم ۔
اور میں اس وقت بھی یہ بعید نہیں سمجھتا کہ حقیقت وہی ہو جو میرے خیال میں ہے کہ مصفی یا مختلفات کے نسخے میں''لا''( نہیں) زیادہ ہوگیا ہے اور قہستانی نے اسے بالمعنی نقل کردیا اور اس کاخیال نہ کیا جو ہم نے بیان کیا۔ واللہ تعالٰی اعلم
عــہ وسیاتی تاویل نفیس فانتظر اھ منہ۔

عــہ اس کی ایک عمدہ تاویل بھی آگے آرہی ہے،انتظار کیجئے ۱۲منہ (ت)
والخلاف الذی اشرت الیہ ھو ما فی الحصر والمختلف و العون و فتاوی العتابی والفتاوی الظھیریۃ ان برؤیۃ المذی لایجب الغسل عند ابی یوسف تذکر الاحتلام اولم یتذکر ۲؎ کما فی فتح اللّٰہ المعین ۱؎ للسید ابی السعود الا زھری
جس اختلاف کا میں نے اشارہ کیا وہ یہ ہے کہ حصر ، مختلف،عون،فتاوٰی عتابی اورفتاوٰی ظہیریہ میں یہ ہے کہ مذی دیکھنے سے امام ابو یوسف کے نزدیک غسل واجب نہیں ہوتا احتلام یاد ہو یا یاد نہ ہو جیسا کہ سید ابو السعود ازہری کی فتح اللہ المعین میں ہے۔
(۲؎ فتح المعین     کتاب الطہارۃ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/ ۵۹)
ونقلہ فی التبیین ۱؎ عن غایۃ السروجی عن الامام الفقیہ ابی جعفر الھندوانی عن الامام الثانی رحمہم اللّٰہ تعالی۔ وفی ابی السعود عن نوح افندی عن العلامۃ قاسم ابن قطلوبغا مانصہ ''قلت فیحتمل ان یکون عن ابی یوسف روایتان۲؎ اھ''
اور تبیین الحقائق میں اسے غایۃ السروجی سے ،اس میں امام فقیہ ابوجعفر ہندوانی کے حوالے سے امام ثانی سے نقل کیا ہے رحمہم اللہ تعالٰی ۔اور ابوالسعود میں علامہ نوح آفندی کے حوالہ سے علامہ قاسم ابن قطلوبغاسے یہ نقل ہے : میں کہتا ہوں ہوسکتاہے امام ابو یوسف سے دو روایتیں ہوں اھ۔
(۱؎ تبیین الحقائق    کتاب الطہارۃ    دارالکتب العلمیۃ بیروت    ۱ /۶۷

۲؎ فتح المعین     کتاب الطہارۃ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/ ۵۹)
شرح مصابیح میں فرمایا کہ وضو اسی وقت مستحب ہے جب پہلے وضو سے کوئی نماز ادا کر لی ہو ایسا شرعۃ الاسلام اور قنیہ میں ہے اھ اسی طرح وہ بھی ہے جو مناوی نے شرح جامع صغیر میں با وضو ہوتے ہوئے دس نیکیاں ملنے سے متعلق حدیث کے تحت فرمایا کہ مراد وہ وضو ہے جس سے کوئی فرض یا نفل نماز ادا کر چکا ہوجیسا کہ راوی حدیث حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے عمل سے اس کا بیان ظاہر ہوتا ہے تو پہلے وضو سے جس نے کوئی نماز ادا نہ کی اس کے لئے تجدید مسنون نہیں اھ ا ور اس کا مقتضا یہ ہے کہ اگر مجلس بدل جائے تو بھی دوبارہ وضو مکروہ ہو جب تک نما ز یا ایسا ہی کوئی عمل ادا نہ کر لے اھ(ت)
Flag Counter