رسالہ
الاحکام والعلل فی اشکال الاحتلام والبلل (۱۳۲۰ھ)
(احتلام اور تری کی اشکال کے حکم اور اسباب)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مسئلہ۱۶: ۷ ربیع الآخر شریف ۱۳۲۰ ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ کوئی شخص سوتے سے جاگا اور تری کپڑے یا بدن پر پائی یا خواب دیکھا اور تری نہ پائی تو اس پر نہانا واجب ہوا یا نہیں؟ بینوا توجروا۔
الجواب
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
الحمد للّٰہ ھادی الاحلام بانزال الاحکام والصلوۃ والسلام علی سیدالمعصومین عن الاحتلام واٰلہ الکرام وصحبہ العظام الی یوم یبل فیہ وارد وحوضہ ببل الاکرام اٰمین۔
یہ مسئلہ کثیر الوقوع ہے اور ہر شخص کو اس کی ضرورت اور کتابوں میں اختلاف بکثرت لہٰذا ضرور ہے کہ فقیر بعون القدیر اُس کی ضروری توضیح وتشریح اور مذہب معتمدو مختار کی تنقیح کرے۔
فاقول وباللہ التوفیق(تومیں اللہ تعالی کی توفیق سے کہتاہوں۔) یہاں چھ صورتیں ہیں:
اوّل : تری کپڑے یا بدن کسی پر نہ دیکھی۔
دوم: دیکھی اور یقین ہے کہ یہ منی یا مذی نہیں بلکہ ودی یا بول یا پسینہ یا کچھ اور ہے ان دونوں صورتوں میں مطلقاً اجماعاً غسل اصلا نہیں اگرچہ خواب میں مجامعت اور اس کی لذت اور انزال تک یاد ہو۔
غنیہ میں ہے:
تذکر الاحتلام ولم یربللا لاغسل علیہ اجماعا ۱؎۔
کسی کو خواب دیکھنا یاد آیا اور تری نہ پائی تو بالاجماع ا س پر غسل نہیں۔( ت)
ردالمحتار میں ہے:بالاتفاق غسل واجب ہے مطلقًا جب یقین ہو کہ یہ تری منی ہے۔ (ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ موجبات الغسل داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۱۱۰)
اسی طرح عامہ کتب میں اس پر اجماع منقول،
لکن فی شرح النقایۃ للقہستانی کان الفقیہ ابو جعفر یقول ھذا عند ابی حنیفۃ ومحمد رحمھما اللّٰہ تعالٰی واما عند ابی یوسف رحمہ اللّٰہ تعالٰی فلا غسل علیہ اذا لم یتذکرالاحتلام کذا فی شرح الطحاوی ۲؎ اھ
لیکن علامہ قہستانی کی شرح نقایہ میں ہے: فقیہ ابو جعفر فرماتے تھے کہ یہ امام ابو حنیفہ و امام محمد رحمہما اﷲ تعالٰی کے نزدیک ہے، امام ابو یوسف رحمہ اﷲ تعالٰی کے نزدیک خواب یاد نہ آنے کی صورت میں اس پر غسل نہیں۔ایسا ہی شرح طحاوی میں ہے اھ ۔(ت)
(۲؎ جامع الرموز کتاب الطہارۃ بیان الغسل مکتبہ اسلامیہ گنبدقاموس ایران ۱/ ۴۳)
اقول:لعل وجہہ واللّٰہ تعالٰی اعلم ان نزول المنی لایوجب الغسل مطلقا بل اذا نزل عن شھوۃ دفقا فاذا نذکر الاحتلام ثم راٰہ علم انہ نزل عن شھوۃ واذالم یتذکر احتمل ان یکون نزل ھکذا من دون شھوۃ فلا یجب الغسل بالشک والجواب ان بالنوم تتوجہ الحرارۃ الی الباطن ولھذا یحصل الانتشار غالبا فالسبب مظنون والاحتمال الخلاف اعنی الخروج بلاشھوۃ نادر فلا یعتبر۔
اقول:شاید اس کی وجہ - واﷲ تعالٰی اعلم - یہ ہے کہ مطلقاًمنی نکلنے سے غسل واجب نہیں ہوتا بلکہ اس وقت جب کہ جست کے طور پر شہوت سے نکلے تو جب خواب دیکھنا یاد ہو پھر منی بھی دیکھے تو یقین ہوگا کہ شہوت سے ہی نکلی ہے اور جب احتلام یاد نہ ہو تو احتمال ہوگا کہ شاید یونہی بغیر شہوت کے نکل آئی ہے اس لئے شک سے غسل واجب نہ ہوگا-جواب یہ ہے کہ نیند سے حرارت جانبِ باطن کا رخ کرتی ہے اسی لئے عمومًا انتشارآلہ ہوتا ہے یہ سب غلبہ ظن کا حامل ہے اس کے خلاف کا احتمال یعنی بلا شہوت نکل آنا نادر ہے اس لئے قابل اعتبار نہیں۔( ت)