بالجملہ تمام ظاہر بدن ہر ذرّہ ہر رونگٹے پر سر سے پاؤں تک پانی بہنا فرض ہے ورنہ غسل نہ ہوگا مگر مواضع حرج ف۲ معاف ہیں
مثلاً:
(۱) آنکھوں کے ڈھیلے۔
(۲) عورت کے گندھے ہوئے بال۔
(۳) ناک کان کے زیوروں کے وہ سوراخ جو بند ہوگئے۔
(۴) نامختون کاحشفہ جبکہ کھال چڑھانے میں تکلیف ہو۔
(۵) اس حالت میں اس کھال کی اندرونی سطح جہاں تک پانی بے کھولے نہ پہنچے اور کھولنے میں مشقت ہو۔
(۶) مکھی یامچھر کی بیٹ جو بدن پر ہو اُس کے نیچے۔
(۷) عورت کے ہاتھ پاؤں میں اگر کہیں مہندی کا جرم لگارہ گیا۔
(۸) دانتوں کا جما ہوا چونا۔
(۹) مسی کی ریخیں۔
(۱۰) بدن کا میل۔
(۱۱) ناخنوں میں بھری ہوئی یا بدن پر لگی ہوئی مٹّی۔
(۱۲) جو بال خود گرہ کھا کر رہ گیا ہو اگرچہ مرد کا۔
(۱۳) پلک یا کوئے میں سرمہ کا جرم۔
(۱۴) کاتب کے انگوٹھے پر روشنائی۔ ان دونوں کاذکر رسالہ الجود الحلو میں گزرا۔
(۱۵) رنگریز کا ناخن پر رنگ کا جرم۔
(۱۶) نان بائی یا پکانے والی عورت کے ناخن میں آٹا، علی خلاف فیہ۔
(۱۷) کھانے کے ریزے کہ دانت کی جڑ یا جوف میں رہ گئے کما مراٰنفا عن الخلاصۃ۔(جیسا کہ ابھی خلاصہ سے گزرا۔ت)
اقول یوں ہی پان کے ریزے نہ چھالیا کے دانے کہ سخت ہیں کمامرایضا۔(جیساکہ ابھی خلاصہ سے گزرا۔ت)
ف۲: اکیس مواضع جو پانی بہانے میں بوجہ حرج معاف ہیں ۔
اقول : جب مسئلہ کی علت یہ بتادی گئی کہ ابتلاء عام کی وجہ سے حرج ہے تو وہ اعتراض دفع ہوگیا جو عبارت خلاصہ کے تحت گزرا ۔(ت)
(۱۸) اقول ہلتا ہوا فــ دانت اگر تارسے جکڑاہے معافی ہونی چاہئے اگرچہ پانی تار کے نیچے نہ بہے کہ بار بار کھولنا ضرر دے گا نہ اس سے ہر وقت بندش ہوسکے گی۔
ف:مسئلہ ہلتاہوا دانت چاندی کے تار سے باندھنایامسالے سے جمانا جائز ہے اوراس وقت غسل میں اس تار یامسالے کے نیچے پانی نہ بہنا معاف ہوناچاہئے ۔
(۱۹) یوں ہی اگر اُکھڑا ہُوادانت کسی مسالے مثلاً برادہ آہن ومقناطیس وغیرہ سے جمایاگیاہے جمے ہوئے چُونے کی مثل اس کی بھی معافی چاہئے۔
اقول لانہ ارتفاق مباح وفی الازالۃ حرج۔
اقول کیونکہ یہ انتفاع و علاج مباح ہے اور زائل کرنے میں حرج ہے۔(ت)
درمختار میں ہے:
لایشد سنہ المتحرک بذھب بل بفضۃ ۱؎۔
ہلتے ہوئے دانت کو سونے سے نہیں بلکہ چاندی سے باندھے۔(ت)
(۱؎ الدرالمختار کتاب الحظر والاباحۃ فصل فی اللبس مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۲۴۰)
ردالمحتار میں ہے:
قال الکرخی اذا سقطت ثنیۃ رجل فان اباحنیفۃ یکرہ ان یعیدھاویقول ھی کسن میتۃ ولکن یاخذ سن شاۃ ذکیۃ یشد مکانہا وخالفہ ابویوسف فقال لاباس بہ اھ اتقانی،زادفی التاترخانیۃ قال بشر قال ابو یوسف سألت اباحنیفۃ عن ذلک فی مجلس اخر فلم یرباعادتہا باسا ۲؎۔
امام کرخی نے کہا : کسی کا اگلا دانت گرگیا تو امام ابو حنیفہ اس کو اس کی جگہ پھر لگانا مکروہ کہتے ہیں اور فرماتے ہیں یہ مردے کے دانت کی طرح ہے لیکن شرعی طور پر ذبح کی ہوئی کسی بکری کا دانت لے کر اس کی جگہ لگالے۔امام ابو یوسف اس بارے میں امام کے خلاف ہیں وہ کہتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں اھ اتقانی۔تاتار خانیہ میں یہ اضافہ ہے:بشر نے کہا امام ابو یوسف فرماتے ہیں میں نے ایک دوسری مجلس میں اس سے متعلق امام ابو حنیفہ سے پوچھاتواس دانت کو دوبارہ اس کی جگہ لگالینے میں انھوں نے کوئی حرج نہ قرار دیا اھ۔
(۲؎ ردالمحتار کتاب الحظر والاباحۃ فصل فی اللبس داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/۲۳۱)
اقول مبنی القول الاول ان السن عصب فیحلہ الموت والصحیح انہ عظم فلا ینجس ولو من میتۃ وقد نص فی البدائع والکافی والبحر والدروغیرھاان سن الانسان طاھرۃ علی ظاھرالمذھب وھوالصحیح وان مافی الذخیرۃ وغیرھامن انھانجسۃ ضعیف ۱؎ اھ فارتفع الاشکال کیف لاوقد رجع عنہ الامام۔
اقول قولِ اول کی بنیاد یہ ہے کہ دانت اعصاب میں سے ہے توموت اس میں سرایت کرے گی اور صحیح یہ ہے کہ دانت ایک ہڈی ہے، تو وہ اگرچہ ایک مُردے ہی کا ہو نجس نہ ہوگا۔ اور بدائع ، کافی بحر ، درمختار وغیرہا میں تصریح ہے کہ انسان کا دانت پاک ہے ، یہی ظاہر مذہب ہے اور یہی صحیح ہے اور ذخیرہ وغیرہا میں جو لکھاکہ نجس ہے یہ قول ضعیف ہے اھ، تو اشکال دُور ہوگیا ۔پھر یہ کیسے نہ ہو جب کہ امام اس سے رجوع کرچکے ہیں۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار بحوالہ البحر والبدائع والکافی کتاب الطہارۃ باب المیاہ دار احیاء التراث العربی بیروت۱/ ۱۳۸)
ہاں اگر کمانی چڑھی ہو جس کے اتارنے چڑھانے میں حرج نہیں اور پانی بہنے کو روکے گی تو اتارنا لازم ہے۔
(۲۰) پٹّی کہ زخم پر ہو اور کھولنے میں ضرر یا حرج ہے۔
(۲۱) ہر وہ جگہ کہ کسی درد یا مرض کے سبب اُس پر پانی بہنے سے ضرر ہوگا۔
والمسائل مشھورۃ وفی فتاوٰنا مذکورۃ۔(یہ مسائل مشہور ہیں اور ہمارے فتاوی میں مذکور بھی ہیں۔ت)
غرض مدار حرج پر ہے اور حرج بنص قرآن مدفوع اور یہ امت دنیاوآخرت میں مرحومہ، والحمد للہ رب العالمین۔
درمختار میں ہے:
لایجب غسل مافیہ حرج کعین وان فـــ اکتحل بکحل نجس وثقب انضم وداخل قلفۃ وشعرالمرأۃ المضفور ولایمنع الطہارۃ خرء ذباب وبرغوث لم یصل الماء تحتہ ۱؎ (لان الاحتراز عنہ غیر ممکن حلیہ ۲؎) وحناء ولوجرمہ بہ یفتی و وسخ وتراب وطین ولو فی ظفر مطلقاقرویااومدنیا فی الاصح وما علی ظفر صباغ ۳؎ اھ ملخصاً ۔
اسے دھونا واجب نہیں جس کے دھونے میں حرج ہے جیسے اندرونِ چشم۔ اگرچہ ناپاک سرمہ لگالیا ہو۔ اور ایساسوراخ جو بند ہوگیاہو،اور ختنہ کی کھال کے اندر کا حصہ اور عورت کے گُندھے ہوئے بال اور طہارت سے مانع نہیں مکھی اور مچھر کی وہ بیٹ جس کے نیچے پانی نہ پہنچا( اس لئے کہ اس سے بچنا ممکن نہیں ۔حلیہ )اور مہندی اگرچہ اس میں دبازت ہواسی پر فتوی ہے اور میل اور مٹی اور گارا اگرچہ ناخن میں ہومطلقًا دیہی ہو یا شہری اصح یہی ہے اور وہ رنگ جو رنگریز کے ناخن پر بیٹھ گیا ہے اھ ملخصًا۔(ت)
(۱؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۲۸و۲۹
۲؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/۱۰۴
۳؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/۲۹)
ردالمحتار میں ہے:
یؤخذ من مسألۃ الضفیرۃ انہ لایجب غسل عقد الشعر المنعقد بنفسہ لان الاحتراز عنہ غیر ممکن ولو من شعر الرجل ولم ارمن نبہ علیہ من علمائنا تامل ۴؎۔
عورت کے جُوڑے کے مسئلے سے یہ اخذ ہوتا ہے کہ جو بال خود گرہ کھا کر بیٹھ گیا اسے دھونا واجب نہیں اس لئے کہ اس سے بچنا ممکن نہیں اگر چہ مرد کا بال ہو ۔ میں نے اپنے علماء میں سے کسی کی اس پر تنبیہ نہ دیکھی ۔تو غور کرو ۔
(۴؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۱۰۴)
اُسی میں ہے:
فی النھر لوفی اظفارہ عجین فالفتوی انہ مغتفر ۵؎۔
نہر میں ہے اگر اس کے ناخنوں کے اندر خمیر رہ گیا ہو تو فتوی اس پر ہے کہ وہ معاف ہے (ت)
(۵؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۱۰۴)
اقول وباللہ التوفیق ف حرج کی تین صورتیں ہیں:
ف:مصنف کی تحقیق کہ حرج تین قسم ہے ۔
ایک یہ کہ وہاں پانی پہنچانے میں مضرت ہو جیسے آنکھ کے اندر۔
دوم مشقت ہو جیسے عورت کی گندھی ہوئی چوٹی۔
سوم بعد علم واطلاع کوئی ضرر ومشقت تو نہیں مگر اس کی نگہداشت، اس کی دیکھ بھال میں دقت ہے جیسے مکھی مچھر کی بیٹ یا الجھا ہوا گرہ کھایا ہوا بال۔
قسم اول ودوم کی معافی توظاہر اور قسم سوم میں بعد اطلاع ازالہ مانع ضرور ہے مثلاً جہاں مذکورہ صورتوں میں مہندی، سرمہ، آٹا،روشنائی ،رنگ، بیٹ وغیرہ سے کوئی چیز جمی ہوئی دیکھ پائی تو اب یہ نہ ہو کہ اُسے یوں ہی رہنے دے اور پانی اوپر سے بہادے بلکہ چھُڑالے کہ آخر ازالہ میں توکوئی حرج تھا ہی نہیں تعاہد میں تھابعداطلاع اس کی حاجت نہ رہی
ومن المعلوم ان ماکان لضرورۃ تقدربقدرھا ھذا ماظھرلی والعلم بالحق عند ربی، واللّٰہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم وصلی اللّٰہ تعالٰی علی سیدنا محمد والہ وصحبہ اجمعین۔
معلوم ہے کہ جو حکم کسی ضرورت کے باعث ہو وہ قدر ضرورت ہی کی حد پر رہے گا۔ یہ وہ ہے جو مجھ پر منکشف ہوا ، اور حق کا علم میرے رب کے یہاں ہے، اور خدائے پاک و برتر ہی کو خوب علم ہے اور اس مجد بزرگ والے کا علم زیادہ تام اور محکم ہے ۔ا ور ہمارے آقا محمد، ان کی آل اور تمام اصحاب پر خدائے برتر کا درود ہو۔(ت)