فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱-۲(کتاب الطہارۃ) |
ضروریات فـــ غسل مطلقاًظاہر ہے کہ وضو میں جس جس عضو کا دھونا فرض ہے غسل میں بھی فرض ہے تو یہ سب اشیاء یہاں بھی معتبر اور ان کے علاوہ یہ اور زائد۔
ف: غسل میں ان ۲۵ یا ۳۰ گزشتہ کے علاوہ ۲۲ جگہ اور ہیں جن کی احتیاط مرد و عورت سب پر لازم۔
(۳۱) سر کے بال کہ گندھے ہوئے ہوں ہر بال پر جڑ سے نوک تک پانی بہنا۔ (۳۲)کانوں میں بالی پتّے وغیرہ زیوروں کے سوراخ کا غسل میں وہی حکم ہے جو ناک میں بلاق وغیرہ کے چھید کا غسل و وضو دونوں میں تھا۔ (۳۳) بھنووں کے نیچے کی کھال اگرچہ بال کیسے ہی گھنے ہوں۔ (۳۴)کان کا ہر پرزہ اس کے سوراخ کا منہ۔ (۳۵)کانوں کے پیچھے بال ہٹا کر پانی بہائے۔ (۳۶) استنشاق بمعنی مذکور۔ (۳۷) مضمضہ بطرز مسطور۔ (۳۸) داڑھوں کے پیچھے ، (۳۹) دانتوں کی کھڑکھیوں میں جو سخت چیز ہو پہلے جدا کرلیں۔ (۴۰) چونا ریخیں وغیرہ جو بے ایذا چھوٹ سکے چھڑانا۔ (۴۱) ٹھوڑی اور گلے کاجوڑ کہ بے منہ اٹھائے نہ دُھلے گا۔ (۴۲) بغلیں بے ہاتھ اٹھائے نہ دُھلیں گی۔ (۴۳) بازو کا ہر پہلو، (۴۴) پیٹھ کا ہردرہ۔ (۴۵) پیٹ وغیرہ کی بلٹیں اٹھا کر دھوئیں۔ (۴۶) ناف انگلی ڈال کر جبکہ بغیر اس کے پانی بہنے میں شک ہو۔ (۴۷) جسم کا کوئی رونگٹاکھڑا نہ رہ جائے۔ (۴۸) ران اور پیڑو کا جوڑ کھول کر دھوئیں۔ (۴۹) دونوں سرین ملنے کی جگہ، خصوصاً جب کھڑے ہوکر نہائیں۔ (۵۰) ران اور پنڈلی کا جوڑ جبکہ بیٹھ کر نہائیں۔ (۵۱) رانوں کی گولائی۔ (۵۲) پنڈلیوں کی کروٹیں۔ خاص فــ بمرداں۔ ف: ان ۵۲کے سوا آٹھ مواقع اور ہیں جن کی احتیاط غسل میں خاص مردوں کو ضرور۔ (۵۳)گندھے ہوئے بال کھول کر جڑ سے نوک تک دھونا۔ (۵۴) مونچھوں کے نیچے کی کھال اگرچہ گھنی ہوں۔ (۵۵) داڑھی کا ہر بال جڑ سے نوک تک۔ (۵۶) ذکر وانثیین کے ملنے کی سطحیں کہ بے جدا کیے نہ دُھلیں گی۔ (۵۷) انثیین کی سطح زیریں جوڑ تک۔ (۵۸) انثیین کے نیچے کی جگہ تک۔ (۵۹) جس کا ختنہ نہ ہوا ہو بہت علماء کے نزدیک اُس پر فرض ہے کہ کھال چڑھ سکتی ہو تو حشفہ کھول کر دھوئے۔ (۶۰) اس قول پر اس کھال کے اندر بھی پانی پہنچنا فرض ہوگا بے چڑھائے اُس میں پانی ڈالے کہ چڑھنے کے بعد بند ہوجائے گی۔ خاص فــ بزنان
ف: اُن۶۰ کے سوا دس مواضع اور ہیں جن کی احتیاط غسل میں خاص عورتوں پر لازم۔
(۶۱) گندھی چوٹی میں ہر بال کی جڑ تر کرنی، چوٹی کھولنی ضرور نہیں مگر جب ایسی سخت گندھی ہو کہ بے کھولے جڑیں تر نہ ہوں گی۔ (۶۲) ڈھلکی ہوئی پستان اٹھا کر دھونی۔ (۶۳) پستان وشکم کے جوڑ کی تحریر۔ (۶۴تا۶۷) فرج خارج کے چاروں لبوں کی جیبیں جڑتک۔ (۶۸) گوشت پارہ بالاکاہر پرت کہ کھولے سے کھل سکے گا۔ (۶۹) گوشت پارہ زیریں کی سطح زیریں۔ (۷۰) اس پارہ کے نیچے کی خالی جگہ غرض فرج خارج کے ہر گوشے پرزے کنج کا خیال لازم ہے ہاں فرج داخل کے اندر انگلی ڈال کر دھونا واجب نہیں، بہتر ہے۔
درمختار میں ہے:
یفرض غسل کل مایمکن من البدن بلا حرج مرۃ کاذن وسرۃ وشارب وحاجب (ای بشرۃ وشعراوان کثف بالاجماع کما فی المنیۃ) ولحیۃ وشعر رأس ولو متلبدا وفرج خارج لانہ کالفم لاداخل ولا تدخل اصبعھا فی قبلھابہ یفتی(ای لایجب ذلک کما فی الشرنبلالیۃ ح وفی التتارخانیۃ عن محمد انہ ان لم تدخل الاصبع فلیس بتنظیف ) لاداخل قلفۃ بل یندب ھوالاصح قالہ الکمال وعللہ بالحرج وفی المسعودی ان امکن فتح القلفۃ بلامشقۃ یجب والا فلاوکفی بل اصل ضفیرتھا للحرج اما المنقوض فیفرض غسل کلہ ولولم یبتل اصلہا یجب نقضھاھوالاصح لایکفی بل ضفیرتہ فینقضھا وجوبا ولوعلویا اوترکیا لامکان حلقہ (ھو الصحیح )اھ ملخصا مزیدا من الشامی۔۱؎
بدن کا ہر وہ حصہ جسے بلاحرج دھونا ممکن ہے اسے ایک بار دھونا فرض ہے جیسے کان،ناف مونچھیں، بھوں ( یعنی جلد اور بال دونوں ،اگرچہ بال گھنے ہوں۔ اس پر اجماع ہے جیسا کہ منیہ میں ہے )داڑھی ، سر کے بال اگرچہ گندھے ہوئے ہوں، فرج خارج اس لئے کہ اس کا حکم منہ کی طرح ہے۔ فرج داخل نہیں ، فرج داخل میں اسے انگلی ڈال کر دھونا نہیں ہے اسی پر فتوی ہے( یعنی واجب نہیں ہے، جیسا کہ شر نبلالیہ میں ہے ،حلبی ۔ اور تاتا ر خانیہ میں ہے امام محمد سے روایت ہے کہ اگر عورت انگلی نہ ڈالے تو تنظیف نہ ہوگی ) جس کا ختنہ نہ ہوا ہو اس پر ختنہ کی کھال کے اندر دھونا فرض نہیں بلکہ مستحب ہے ، یہی اصح ہے ۔ یہ کمال ابن الہمام نے فرمایا اور اس کا سبب حرج کو بتایا ۔اور مسعود ی میں ہے کہ اگر بغیر مشقت کے اس کھال کو کھول سکتا ہے تو واجب ہے ورنہ نہیں۔ عورت کو اپنے جوڑوں کی جڑ تر کر لینا کافی ہے حرج کی بناء پر۔ لیکن بال کھلے ہوئے ہیں تو سب دھونا فرض ہے۔اور اگر جُوڑے کی جڑ تر نہیں ہوتی تو کھولنا واجب ہے ، یہی اصح ہے ۔ مرد کو جُوڑے تر کر لیناکافی نہیں بلکہ اس پر کھولنا واجب ہے اگرچہ علوی یا ترکی ہو اس لئے کہ وہ بال کٹاسکتا ہے ( یہی صحیح ہے ) اھ درمختار کی عبارت تلخیص اور شامی سے اضافوں کے ساتھ ختم ہوئی۔
(۱؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۲۸و۲۹ الدرالمختار کتاب الطہارۃ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱/۱۰۳و۱۰۴)
اُسی میں ہے:
من آدابہ تحریک القرط ان علم وصول الماء والافرض۔۲؎
غسل کے آداب میں سے ہے کہ بالی کو حرکت دے اگر معلوم ہوکہ پانی پہنچ گیا ورنہ پانی پہنچانا فرض ہے ۔(ت)
(۲؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۲۳)
اُسی میں ہے:
لوخاتمہ ضیقانزعہ اوحرکہ وجوباکقرط ولولم یکن بثقب اذنہ قرط فدخل الماء فی الثقب عندمرورہ علی اذنہ اجزأہ کسرۃ واذن دخلہماالماء والایدخل ادخلہ ولوباصبعہ ولا یتکلف بخشب ونحوہ والمعتبرف۱ غلبۃ ظنہ بالوصول ۱؎۔
اگر انگوٹھی تنگ ہوتو اتاردے ورنہ واجب ہے کہ حرکت دے کر پانی پہنچائے جیسے بالی کا حکم ہے اور اگر کان کے سوراخ میں بالی نہیں ہے اور پانی کان پر گذرنے کے وقت سوراخ میں بھی چلاگیا تو کافی ہے جیسے ناف اور کان میں پانی چلا جائے تو کافی ہے اور اگر پانی نہ جائے تو پہنچائے اگر چہ انگلی کے ذریعہ ۔لکڑی وغیرہ کے استعمال کا تکلف نہ کرے۔اعتبار اس کا ہے کہ پانی پہنچ جانے کا غالب گمان ہوجائے۔
ف۱:مسئلہ: مواضع احتیاط میں پانی پہنچنے کاظن غالب کافی ہے یعنی دل کو اطمینان ہوکہ ضرور پہنچ گیا مگر یہ اطمینان نہ بے پرواہوں کاکافی ہے جو دیدہ ودانستہ بے احتیاطی کررہے ہیں نہ وہمی وسوسہ زدہ کا اطمینان ضرور جسے آنکھوں دیکھ کر بھی یقین آنا مشکل بلکہ متدین محتاط کااطمینان چاہئے ۔
(۱؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۲۹)
اقول : ای فی غیرالموسوس وغیرماجن لایبالی فالاول ینزل الیقین الی محض الشک والثانی یرفع الشک الی عین الیقین کما ھو معلوم مشاھد واللّٰہ المستعان۔
اقول : یہ ضابطہ اعتبار وسوسہ کے مریض ، اور تماشہ باز بے پروا کے حق میں ہے اول تو یقین کو شک کی منزل میں لاتا ہے اور ثانی شک کو یقین بنالیتا ہے جیساکہ مشاہدہ اور معلوم ہے ۔اور خدا ہی سے استعانت ہے۔(ت)