فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱-۲(کتاب الطہارۃ) |
ثانیا: پانی ایسی بے احتیاطی سے بہاتے ہیں کہ بعض مواضع بالکل خشک رہ جاتے ہیں یا اُن تک کچھ اثر پہنچتا ہے تو وہی بھیگے ہاتھ کی تری۔ اُن کے خیال میں شاید پانی میں ایسی کرامت ہے کہ ہر کنج وگوشہ میں آپ دوڑ جائے کچھ احتیاط خاص کی حاجت نہیں حالانکہ جسم ظاہر میں بہت موقع ایسے ہیں کہ وہاں ایک جسم کی سطح دوسرے جسم سے چھپ گئی ہے یا پانی کی گزرگاہ سے جدا واقع ہے کہ بے لحاظ خاص پانی اس پر بہنا ہرگز مظنون نہیں اور حکم یہ ہے کہ اگر ذرّہ بھر جگہ یا کسی بال کی نوک بھی پانی بہنے سے رہ گئی تو غسل نہ ہوگا اور نہ صرف غسل بلکہ وضو میں بھی ایسی ہی بے احتیاطیاں کرتے ہیں کہیں ایڑیوں پر پانی نہیں بہتا، کہیں کہنیوں پر کہیں ماتھے کے بالائی حصے پر،کہیں کانوں کے پاس کنپٹیوں پر۔ ہم نے اس بارہ میں ایک مستقل تحریر لکھی ہے اُس میں ان تمام مواضع کی تفصیل ہے جن کا لحاظ و خیال وضو وغسل میں ضرور ہے مردوں اور عورتوں کی تفریق اور طریقہ احتیاط کی تحقیق کے ساتھ ایسی سلیس وروشن بیان سے مذکور ہے جسے بعونہٖ تعالٰی ہر جاہل بچہ، عورت سمجھ سکے،یہاں اجمالاً ان کا شمار کئے دیتے ہیں۔ ضروریات فـــ۱ وضو مطلقاً یعنی مرد و عورت سب کیلئے:
ف:مسئلہ وضو میں پچیس۲۵ جگہ ہیں جن کی خاص احتیاط مرد و عورت سب پر لازم ہے۔
(۱) پانی مانگ یعنی ماتھے کے سرے سے پڑنا،بہت لوگ لَپ یا چُلّو میں پانی لے کر ناک یا ابرو یا نصف ماتھے پر ڈالتے ہیں پانی تو بہہ کر نیچے آیا وہ اپنا ہاتھ چڑھا کر اوپر لے گئے اس میں سارا ماتھا نہ دُھلا بھیگا ہاتھ پھرا اور وضو نہ ہوا۔ (۲) پٹیاں جھکی ہوں تو انہیں ہٹا کر پانی ڈالے کہ جو حصہ پیشانی کا اُن کے نیچے ہے دُھلنے سے نہ رہ جائے۔ (۳) بھووں کے بال چھدرے ہوں کہ نیچے کی کھال چمکتی ہو تو کھال پر پانی بہنا فرض ہے صرف بالوں پر کافی نہیں۔ (۴) آنکھوں کے چاروں کوئے،آنکھیں زور سے بند کرے،یہاں کوئی سخت چیز جمی ہوئی ہو تو چھڑالے۔ (۵) پلک کا ہربال پورا بعض وقت کیچڑ وغیرہ سخت ہوکر جم جاتا ہے کہ اُس کے نیچے پانی نہیں بہتا اُس کا چھڑانا ضرور ہے۔ (۶)کان کے پاس تک کنپٹی ایسا نہ ہو کہ ماتھے کا پانی گال پر اتر آئے اور یہاں صرف بھیگا ہاتھ پھرے۔ (۷) ناک کا سوراخ عـہ اگر کوئی گہنا یاتنکا ہوتو اسے پھرا پھرا کر ورنہ یونہی دھار ڈالے، ہاں اگر بالکل بند ہوگیا تو حاجت نہیں۔ عــہ ناک کا سوراخ،ہاتھ پاؤں کے چھلّے،کلائی کے گہنے چُوڑیاں۔ (۸) آدمی جب خاموش بیٹھے تو دونوں لب مل کر کچھ حصہ چھپ جاتاکچھ ظاہر رہتا ہے یہ ظاہر رہنے والا حصہ بھی دُھلنا فرض ہے،اگر کُلّی نہ کی اور منہ دھونے میں لب سمیٹ کر بزور بند کرلئے تو اس پر پانی نہ بہے گا۔ (۹) ٹھوڑی کی ہڈی اُس جگہ تک جہاں نیچے کے دانت جمے ہیں۔ (۱۰) ہاتھوں کی آٹھوں گھائیاں۔ (۱۱) انگلیوں کی کروٹیں کہ ملنے پر بند ہوجاتی ہیں۔ (۱۲) دسوں ناخنوں کے اندر جو جگہ خالی ہے، ہاں مَیل کا ڈر نہیں۔ (۱۳) ناخنوں کے سرے سے کُہنیوں کے اوپر تک ہاتھ کا ہر پہلو،چُلّومیں پانی لے کر کلائی پر اُلٹ لینا ہرگز کافی نہیں۔ (۱۴)کلائی کا ہربال جڑ سے نوک تک۔ایسا نہ ہو کہ کھڑے بالوں کی جڑ میں پانی گزر جائے نوکیں رہ جائیں۔ (۱۵) آرسی، چھلّے اور کلائی کے ہر گہنے کے نیچے۔ (۱۶) عورتوں کو پھنسی چُوڑیوں کا شوق ہوتا ہے اُنہیں ہٹا ہٹا کر پانی بہائیں۔ (۱۷) چوتھائی سرکا مسح فرض ہے پوروں کے سرے گزار دینا اکثر اس مقدار کو کافی نہیں ہوتا۔ (۱۸) پاؤوں کی آٹھوں گھائیاں۔ (۱۹) یہاں انگلیوں کی کروٹیں زیادہ قابلِ لحاظ ہیں کہ قدرتی ملی ہوئی ہیں۔ (۲۰) ناخنوں کے اندر کوئی سخت چیز نہ ہو۔ (۲۱) پاؤوں کے چھلّے اور جو گہنا گٹوں پر یا گٹوں سے نیچے ہو اس کے نیچے سیلان شرط ہے۔ (۲۲) گٹّے۔ (۲۳) تلوے۔ (۲۴) ایڑیاں۔ (۲۵) کونچیں خاص فــ بہ مردان۔
ف: وضو میں پانچ مواقع اورہیں جن کی احتیاط خاص مردوں پر لازم۔
(۲۶) مونچھیں۔ (۲۷) صحیح مذہب میں ساری داڑھی دھونا فرض ہے یعنی جتنی چہرے کی حد میں ہے نہ لٹکی ہوئی کہ ہاتھ سے گلے کی طرف کو دباؤ تو ٹھوڑی کے اُس حصّے سے نکل جائے جس پر دانت جمے ہیں کہ اس کا صرف مسح سنّت اور دھونا مستحب ہے۔ (۲۸ و ۲۹) داڑھی مونچھیں چھدری ہوں کہ نیچے کی کھال نظر آتی ہو تو کھال پر پانی بہنا۔ (۳۰) مونچھیں بڑھ کر لبوں کو چھپالیں تو انہیں ہٹا ہٹا کر لبوں کی کھال دھونا اگرچہ مونچھیں کیسی ہی گھنی ہوں۔
درمختار میں ہے:
ارکان الوضوء غسل الوجہ من مبدء سطح جبھتہ الی منبت اسنانہ السفلی طولا ومابین شحمتی الاذنین عرضافیجب غسل المیاقی ومایظھر من الشفۃ عند انضمامھا(الطبیعی لاعند انضمامھا بشدۃ وتکلف اھ ح وکذالوغمض عینیہ شدیدا لا یجوزبحر) وغسل جمیع اللحیۃ فرض علی المذھب الصحیح المفتی بہ المرجوع الیہ وماعداھذہ الروایۃ مرجوع عنہ ثم لاخلاف ان المسترسل(وفسرہ ابن حجر فی شرح المنھاج بمالومد من جہۃ نزولہ لخرج عن دائرۃ الوجہ ثم رأیت المصنف فی شرحہ علی زادالفقیرقال وفی المجتبی قال البقالی ومانزل من شعراللحیۃ من الذقن لیس من الوجہ عندناخلافاللشافعی اھ)لایجب غسلہ ولا مسحہ بل یسن (المسح) وان الخفیفۃ التی تری بشرتھا یجب غسل ماتحتھا نھر وفی البرھان یجب غسل بشرۃ لم یسترھا الشعرکحاجب وشارب وعنفقۃ فی المختار(ویستثنی منہ مااذاکان الشارب طویلا یسترحمرۃ الشفتین لمافی السراجیۃ من ان تخلیل الشارب الساترحمرۃ الشفتین واجب۱؎)اھ ملخصامزیدامابین الاھلۃ من ردالمحتار۔
ارکان وضو یہ ہیں: چہرے کو لمبائی میں پیشانی کی سطح کے شروع سے نیچے کے دانتوں کے اُگنے کی جگہ تک،اور چوڑائی میں ایک کان کی لُو سے دوسرے کان کی لُو تک جتناحصہ ہے سب دھونا-توآنکھوں کے گوشوں کو دھونا ضروری ہے اور لب کا وہ حصہ بھی جو لب بند ہونے کے وقت کھلا رہتا ہے (یعنی طبعی طور پر بندہونے کے وقت ،شدت اور تکلیف سے بند کرنے کے وقت نہیں،اھ ،حلبی - اسی طرح اگر وقتِ وضو آنکھیں سختی سے بند کرلیں تو وضو نہ ہوگا - بحر-) اور پوری داڑھی کا دھونا فرض ہے - مذہبِ صحیح مُفتی بہ پر- جس کی طرف امام نے رجوع کرلیا ہے۔ اور اس کے علاوہ جو روایت ہے اس سے رجوع ہوچکا ہے ۔ پھر اس میں اختلاف نہیں کہ داڑھی کے لٹکتے ہوئے بالوں کا دھونا یا مسح کرنا فرض نہیں بلکہ ( اس کا مسح ) مسنون ہے۔( مستر سل ، لٹکتے بالوں ،کی تفسیر علامہ ابن حجر شافعی نے شرح منہاج میں یہ لکھی ہے :بالوں کا وہ حصہ جو نیچے کو پھیلایا جائے تو چہرے کے دائرے سے باہر ہوجائے۔پھر میں نے دیکھا کہ مصنف نے زاد الفقیرکی شرح میں یہ لکھا ہے : مجتبی میں ہے کہ بقالی نے کہا :داڑھی کے وہ بال جو ٹھوڑی سے نیچے ہیں وہ امام شافعی کے برخلاف ہمارے نزدیک چہرے میں شمار نہیں اھ)ہلکی داڑھی جس کی جلد نظر آتی ہے اس کے نیچے کی جلد دھونا فرض ہے ، نہر۔ اور برہان میں ہے:مذہب مختار میں اس جلد کو دھونا فرض ہے جو بالوں سے چُھپی ہوئی نہیں ہے جیسے بھووں، مونچھوں اور بچیّ کے بالوںسے [نہ چھپنے والی جلد ۱۲م] اس سے وہ صو رت مستثنی ہے جب مونچھیں اتنی لمبی ہوں کہ لبوں کی سُرخی کو چھپالیں، کیونکہ سراجیہ میں ہے کہ لبوں کی سُرخی کو چھپالینے والی مونچھوں کا خلال کرنا یعنی ہٹا کر لب کی جلد دھونا فرض ہے )اھ۔ درمختار کی عبارت تلخیص اور ہلالین کے درمیان رد المحتار سے اضافوں کے ساتھ ختم ہوئی۔
(۱؎ الدرالمختار کتاب الطہارت مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۱۸ و۱۹ ردالمحتار کتاب الطہارت دار احیاء التراث العربی بیروت ۱/۶۶ تا۶۹)
قلت واستحبابی غسل المسترسل نظرا الی خلاف الامام الشافعی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ لما نصوافــ علیہ من ان الخروج عن الخلاف مستحب بالاجماع مالم یرتکب مکروہ مذھبہ کمافی ردالمحتار وغیرہ۔۲؎
قلت داڑھی کے لٹکتے ہوئے بالوں کو دھونا، میں نے امام شافعی رضی اﷲ تعالی عنہ کے اختلاف کا لحاظ کرتے ہوئے مستحب کہا اس لئے کہ علماء نے تصریح فرمائی ہے کہ صورتِ اختلاف سے بچنا بالا جماع مستحب ہے بشرطیکہ اس میں اپنے مذہب کے کسی مکروہ کاارتکاب نہ ہو،جیسا کہ ردالمحتار وغیرہ میں ہے۔
فــ: حتی الامکان اختلاف علما سے بچنا مستحب ہے جب تک اس کی رعایت میں اپنے مذہب کا مکروہ نہ لازم آئے۔
(۲؎ الدرالمختار کتاب الطہارت مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۲۷ ردالمحتار کتاب الطہارت دار احیاء التراث العربی بیروت ۱/۹۹)
اُسی میں ہے:
سننہ تخلیل اصابع الیدین والرجلین وھذابعد دخول الماء خلالھافلو منضمۃ فرض ۱؎۔
ہاتھوں اور پیروں کی انگلیوں کا خلال سنت ہے یہ اس وقت ہے جب پانی ان انگلیوں کے بیچ پہنچ گیاہو اگر ملی ہوئی ہوں ( کہ پانی نہ پہنچے ) تو پانی پہنچانا فرض ہے ۔(ت)
(۱؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۲۲)
اُسی میں ہے:
مستحبہ تحریک خاتمہ الواسع وکذاالضیق ان علم وصول الماء والافرض ۲؎۔
کشادہ انگوٹھی کو حرکت دینا مستحب ہے اسی طرح تنگ کو بھی،اگر معلوم ہو کہ پانی پہنچ گیا ورنہ فرض ہے۔(ت)
(۲؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ ۲۲ و ۲۳)
اُسی میں ہے: ومن الاٰداب تعاھد موقیہ وکعبیہ وعرقوبیہ واخمصیہ ۳؎۔
آداب وضـو میں سے یہ ہے کہ آنکھ کے گوشوں ، ٹخنوں ،ایڑیوں ، تلووں پر خاص دھیان دے اھ(ت)
(۳؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۲۴)
قلت: وھذا ان کان الماء یسیل علیھا وان لم یتعاھد والافرض کنظائرہ المارۃ۔
قلت:یہ اس صورت میں ہے جب پانی ان جگہوں پر خاص دھیان دئیے بغیر بہہ جاتا ہو ورنہ فرض ہوگا جیسے اس کی سابقہ نظیروں میں حکم ہے ۔(ت)