Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱-۲(کتاب الطہارۃ)
2 - 135
بالجملہ غسل میں ان احتیاطوں سے روزہ دار کوبھی چارہ نہیں ہاں غرغرہ فــــــــــ اسے نہ چاہئے کہ کہیں پانی حلق سے نیچے نہ اتر جائے غیر روزہ دار کے  لیےغرغرہ سنت ہے ۔
فـــ:مسئلہ:وضو و غسل میں غرغرہ سنت ہے مگرروزہ دار کو مکروہ ۔
درمختار میں ہے:
سنتہ المبالغۃ بالغرغرۃ لغیر الصائم لاحتمال الفساد ۲؎۔
وضو و غسل میں غرغر ہ کر کے مبالغہ سنت ہے اس کے لئے جو روزہ دار نہ ہو ، روزہ دار کے لئے نہیں کیونکہ اس میں روزہ جانے کا احتمال ہے۔(ت)
 (۲؎ الدرالمختار     کتاب الطہارت     مطبع مجتبائی دہلی        ۱ /۲۱)
اسی کے بیان غسل میں ہے :
سننہ کسنن الوضوء سوی الترتیب ۱؎ الخ
غسل کی سنتیں وضوکی سنتوں کی طرح ہیں بجز ترتیب کے الخ ۔(ت)
 (۱؎ الدرالمختار     کتاب الطہارۃ      مطبع مجتبائی دہلی        ۱ /۲۹)
استنشاق:ناک کے دونوں نتھنوں میں جہاں تک نرم جگہ ہے یعنی سخت ہڈی کے شروع تک دھلنا۔ردالمحتارمیں بحرالرائق سے ہے :
الاستنشاق اصطلاحا ایصال الماء الی المارن،ولغۃ من النشق وھو جذب الماء ونحوہ بریح الانف الی داخلہ۲؎۔
اصطلاح میں استنشاق کا معنی ناک کے نرم حصہ تک پانی پہنچانا۔اور لغت میں یہ لفظ نشق سے لیاگیا ہے جس کامعنی پانی اور اس جیسی چیز کو سانس کے ذریعہ ناک کے اندر کھینچنا۔(ت)
 (۲؎ ردالمحتار     کتاب الطہارۃ     داراحیاء التراث العربی بیروت     ۱/ ۷۸و۷۹ )
اُسی میں قاموس سے ہے:
المارن مالان من الانف۳ ؎
مارن ناک کا وہ حصہ ہے جو نرم ہے(ت)
 (۲؎ ردالمحتار     کتاب الطہارۃ     داراحیاء التراث العربی بیروت         ۱/ ۷۹)
اور یہ یونہی ہوسکے گا کہ پانی لے کر سونگھے اور اوپر کو چڑھائے کہ وہاں تک پہنچ جائے لوگ اس کابالکل خیال نہیں کرتے اوپر ہی اوپر پانی ڈالتے ہیں کہ ناک کے سرے کو چھو کر گرجاتا ہے بانسے میں جتنی جگہ نرم ہے اس سب کو دھونا تو بڑی بات ہے ظاھر ہے کہ پانی کا بالطبع میل نیچے کوہے اوپربے چڑھائے ہرگزنہ چڑھے گاافسوس کہ عوام توعوام بعض پڑھے لکھے بھی اس بلامیں گرفتار ہیں۔ کاش استنشاق کے لغوی ہی معنی پر نظر کرتے تو اس آفت میں نہ پڑتے استنشاق سانس کے ذریعہ سے کوئی چیز ناک کے اندر چڑھاناہے نہ کہ ناک کے کنارہ کو چھو جانا وضوفــــــــ میں تو خیر اس کے ترک کی عادت ڈالے سے سنت چھوڑنے ہی کاگناہ ہوگاکہ مضمضہ واستنشاق بمعنی مذکور دونوں وضو میں سنتِ مؤکدہ ہیں کمافی الدرالمختار(جیساکہ درمختار میں ہے ۔ت)،اور سنت فـــ۱ مؤکدہ کے ایک آدھ بار ترک سے اگرچہ گناہ نہ ہو عتاب ہی کااستحقاق ہو مگربارہا ترک سے بلاشبہ گناہگار ہوتا ہے کمافی ردالمحتار وغیرہ من الاسفار(جیساکہ معتبرکتاب ردالمحتاروغیرہ میں ہے۔ت) تاہم وضو ہوجاتا ہے اور غسل تو ہرگز اُترے ہی گانہیں جب تک سارامنہ حلق کی حدتک اور سارا نرم بانسہ سخت ہڈی کے کنارہ تک پورا نہ دھل جائے یہاں تک کہ علماء فرماتے ہیں کہ اگر ناک فــــ۲کے اندر کثافت جمی ہے تو لازم کہ پہلے اسے صاف کرلے ورنہ اس کے نیچے پانی نے عبور نہ کیا توغسل نہ ہوگا۔
فـــ:مسئلہ منہ کے ہر ذرہ پر حلق تک پانی بہنا ناک کی ہڈی شروع ہونے تک پانی چڑھانا غسل میں فرض اور وضو میں سنت مؤکدہ ہیں۔

فـــ۱:مسئلہ سنت مؤکدہ کے ترک کی عادت سے گناہگار و مستحق عذاب ہوتاہے۔ 

فـــ۲:مسئلہ ناک میں کوئی کثافت جمی ہوتوپہلے اس کاچھڑالیناغسل میں فرض اور وضو میں سنت ہے ۔
درمختار میں ہے:
فرض الغسل غسل انفہ حتی ماتحت الدرن ۱؎۔
غسل میں ناک کا دھونا فرض ہے یہاں تک کہ وہ حصہ بھی جو کثافت اور میل کے نیچے ہے۔(ت)
 (۱؎ الدرالمختار        کتاب الطہارۃ     مطبع مجتبائی دہلی    ۱/ ۲۸)
اس فـــ۳ احتیاط سے بھی روزہ دار کو مفر نہیں،ہاں اس سے اوپرتک اُسے نہ چاہئے کہ کہیں پانی دماغ کو نہ چڑھ جائے غیر روزہ دارکے لئے یہ بھی سنت ہے۔
فـــ۳:مسئلہ وضو وغسل میں سنت ہے کہ ناک کی جڑ تک پانی چڑھائے مگر روزہ دار اس سے بچے ہاں تمام نرم بانسے تک چڑھانااسے بھی ضروری ہے
درمختار میں ہے:
سنتہ المبالغۃ بمجاوزۃ المارن لغیر الصائم ۲؎۔
غیر روزہ دار کے لئے نرمہ سے اوپر پانی پہنچا کر مبالغہ سنت ہے۔(ت)
 (۲؎ الدرالمختار    کتاب الطہارۃ    مطبع مجتبائی دہلی    ۱/ ۲۱)
اسالۃ الماء علی ظاھر البدن سر کے بالو ں سے تلووں سے نیچے تک جسم کے ہر پرزے،رونگٹے کی بیرونی سطح پر پانی کا تقاطر کے ساتھ بہہ جانا سوا اُس موضع یا حالت کے جس میں حرج ہو جس کا بیان آتا ہے۔درمختار میں ہے:
یفرض غسل کل مایمکن من البدن بلاحرج ۳؎۔
بدن کا ہر وہ حصہ دھونا فرض ہے جسے بغیر حرج کے دھونا ممکن ہے۔(ت)
 (۳؎ الدرالمختار    کتاب الطہارۃ    مطبع مجتبائی دہلی    ۱/ ۲۸)
لوگ فـــ یہاں دو قسم کی بے احتیاطیاں کرتے ہیں جن سے غسل نہیں ہوتا اور نمازیں اکارت جاتی ہیں۔
ف: لوگ وضو و غسل میں دوقسم کی بے احتیاطیاں کرتے ہیں جن سے نمازیں اکارت جاتی ہیں۔
اوّلاً:غَسل بالفتح کے معنی میں نافہمی کہ بعض جگہ تیل کی طرح چپڑ لیتے ہیں یابھیگا ہاتھ پہنچ جانے پر قناعت کرتے ہیں حالانکہ یہ مسح ہوا،غسل میں تقاطراور پانی کابہنا ضرور ہے جب تک ایک ایک ذرّے پر پانی بہتا ہوا نہ گزرے گا غسل ہرگز نہ ہوگا۔
درمختار میں ہے:
غسل ای اسالۃ الماء مع التقاطر ۱؎
غسل یعنی قطرے ٹپکنے کے ساتھ پانی بہانا ۔(ت)
 (۱؎ الدرالمختار        کتاب الطہارۃ    مطبع مجتبائی دہلی    ۱ /۲۹)
ردالمحتار میں ہے:
البلّ بلاتقاطر مسح ۲؎
قطرے ٹپکے بغیر صرف ترکرلیناتو مسح ہے۔(ت)
 (۲؎ رد المحتار    کتاب الطہارۃ     داراحیاء التراث العربی بیروت     ۱ /۶۵)
اُسی میں ہے:
لولم یسل الماء بان استعملہ استعمال الدھن لم یجز۳؎۔
اگر پانی نہ بہا اس طرح کہ تیل کی طرح پانی صرف مل لیا تو فرض ادا نہ ہوا۔(ت)
(۳؎ رد المحتار    کتاب الطہارۃ     داراحیاء التراث العربی     ۱/ ۶۵)
Flag Counter