فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱-۲(کتاب الطہارۃ) |
فان قلت : العلم الفقہی بشیئ لاینفی احتمال ضدہ بل یحققۃ اذماھوالاغلبۃ ظن فلوقطع الاحتمال لکان قطعا۔قلت بلی ینفی الفقہی اذلو نشأعن دلیل غیرساقط نفی غلبۃ الظن بضدہ والالم یکن احتمالا یبنی علیہ حکم فقہی لان الساقط المضمحل لاعبرۃ بہ کما سمعت والا لوجب الغسل فی علم الودی ایضالاسیماعندتذکر الحلم اذیحتمل ان یکون فیہ قلیل منی رق وامتزج فصارمستہلکاولیس ھذااحتمالا عن غیردلیل فکفی بتذکر الاحتلام دلیلا علیہ بل النوم نفسہ مظنۃ لہ علی ماتقدم عن التجنیس والمزید۔
اگر یہ کہو کہ کسی شئی کا یقین فقہی اس کی ضد کے احتمال کی نفی نہیں کرتا بلکہ اس کا اثبات کرتا ہے اس لئے کہ علم فقہی وہی غلبہ ظن ہے اگر احتمال ختم کردیا جائے تو وہ قطعی ہو جائے۔ میں کہوں گاکیوں نہیں ؟وہ احتمال فقہی کی نفی کرتا ہے ۔اس لئے کہ احتمال اگر دلیل غیر ساقط سے پیدا ہوا ہے تو اپنی ضد کے غلبہ ظن کی نفی کردے گا ورنہ وہ ایسا احتمال ہی نہ ہوگا جس پر کسی فقہی حکم کی بنیاد رکھی جائے اس لئے کہ ساقط مضمحل کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا ۔جیسا کہ پہلے سن چکے۔ورنہ ودی کے یقین کی صورت میں بھی غسل واجب ہوتا خصوصاً اس وقت جب خواب یاد ہو اس لئے کہ احتمال ہے کہ اس میں قلیل منی رہی ہو جو رقیق اور مخلوط ہوکر گم ہوگئی ۔اور یہ احتمال بلادلیل نہیں (اگر چہ دلیل ساقط ہے ۱۲م ) احتلام کا یاد ہونا اس کی دلیل ہو نے کے لئے کافی ہے بلکہ خود نیند میں اس کے گمان کی جگہ ہے جیسا کہ تجنیس ومزید کے حوالہ سے گزرا ۔
وثانیھا فــ انہ یرفع الفرق بین التذکر وعدمہ علی مذھب الطرفین رضی اللّٰہ تعالی عنہما لانھما یوجبان الغسل باحتمال المنی قطعا مطلقا وان لم یتذکر ولایمکن ان یوجبا بما لیس منیا اصلا حتی بالاحتمال وان تذکر لما تلونا علیک اٰنفا فکان علم المذی والتردد بین المذی والودی کل کمثل العلم بالودی للاشتراک فی عدم احتمال ماھو موجب شرعا فبطل الفرق مع اجماعھم علی اثباتہ۔
وجہ دوم(اگر حقیقت شئی کے یقین کا اعتبار ہو تو) اس سے طرفین رضی ا للہ تعالٰی عنہما کے مذہب پر خواب یاد ہونے اور نہ یا د ہونے کی تفریق اٹھ جائے گی اس لئے کہ یہ حضرات منی کے احتمال سے قطعاً مطلقاً غسل واجب کہتے ہیں ۔ اگرچہ خواب یاد نہ ہو ۔ اور یہ ممکن نہیں کہ ایسی چیز سے غسل واجب قرار دے دیں جو منی ہر گز نہیں یہاں تک کہ احتمالاً بھی نہیں،اگرچہ خواب یاد ہی ہو ، اس کی وجہ ابھی ہم بتاچکے ۔ تو مذی کا یقین ، اور مذی وودی کے مابین تردّد ہر ایک ویسے ہی ہوگا جیسے ودی کا علم ویقین ، اس لئے کہ سب میں یہ قدر مشترک ہے کہ اس چیز کااحتمال نہیں جو شرعاً موجبِ غسل ہے ۔ تو یا د ہونے نہ ہونے کی تفریق بیکار ہوئی ۔ حالانکہ اس کے اثبات پر تینوں ائمہ کا اجماع ہے ۔
فــــ:معروضۃ اخرٰی علیہ ۔
وثالثھا فــــ یضیع حینئذ لحاظ شیئ من علم المذی واحتمالہ فی بیان الصور اذلا اثر لہ فی الحکم وکان یجب القصر علی ثلث علم المنی واحتمالہ فیوجب اولا ولافلابل اثنین علی الوجہ الثانی ای ان احتمل منیا وجب والا لاوھو ایضا خلاف الروایات قاطبۃ ۔
وجہ سوم برتقدیر مذکور صورتوں کے بیان میں مذی کے یقین واحتمال میں سے کسی کالحاظ بے کار ہوگا اس لئے کہ حکم میں اس کاکوئی اثر نہیں۔اور واجب تھاکہ صرف تین صورتوں پر اکتفاہو۔ اگر منی کا یقین یا احتمال ہے تو وجوب ہے ورنہ نہیں ۔ بلکہ بطریق دوم صرف دو ہی پر اکتفاء ضروری تھی ۔ اگر منی کا احتمال ہے تو وجوب ہے ورنہ نہیں ۔یہ بھی تمام روایات کے برخلاف ہے ۔
فــــ:معروضۃ ثالثۃ علیہ۔
فبان کالشمس ان الصورلم تؤخذ الاباعتبارتعلق العلم بالصورۃ دون الحقیقۃ لاجرم ان صرح فی الخلاصۃ بان مرادہ ماصورتہ المذی لاحقیقۃ المذی اھ ۱؎
تو مہرِ تاباں کی طرح روشن ہوا کہ مذکورہ صورتیں حقیقت نہیں بلکہ صورت ہی سے علم ویقین متعلق ہونے کے اعتبار سے لی گئی ہیں یہی بات ہے کہ خلاصہ میں تصریح کردی ہے یہ کہ حقیقت مذی مراد نہیں مراد وہ ہے جو مذی کی صورت میں ہے اھ
(۱؎خلاصۃ الفتاوٰی کتاب الطہارۃ الفصل الثانی فی الغسل مکتبۃ حبیبیہ کوئٹہ ۱/۱ ۳)
وفی الحلیۃ وجد مذیا یعنی ماصورتہ صورۃ المذی اھ۱؎ وکذلک عبربا لصورۃ فی البدائع والایضاح والسراجیۃ وغیرھامما تقدم فالتوفیق الذی سلکہ العلامۃ ش لاسبیل الیہ وایاک ان تغتر بما یوھمہ ظاھرکلام المحقق فی الفتح والسید ط فی حواشی المراقی تبعا للنھرکماذکرہ فی حواشی الدرحیث حکمابتعذرالیقین مع النوم وانماالمتعذربہ التیقن بالحقیقۃ دون الصورۃ کمالایخفی فلیس ذلک لان المراد فی الصور العلم بالحقیقۃ بل السرفیہ۔مااقول ان العلم بصورۃ الشیئ علم کلامی بحقیقتہ اذا لم تکن لغیرہ کصورۃ المنی وعلم فقھی بھا اذا امکنت لغیرھولم یکن احتمالہ ھنالک ناشنا عن دلیل یرکن الیہ ولیس علمابھااصلا اذانشأ عن دلیل صحیح کصورۃ المذی عندتذکرالاحتلام فانھالاتختص بہ بل ربمایکتسیھاالمنی و الاحتلام اقوی دلیل علیہ فالعلم بصورۃ المذی لایکون فیہ علما بحقیقتہ ولا غالب الظن بل مع احتمال صحیح للمنویۃ فیجب الغسل بالاجماع اما اذا لم یتذکرفان کان ھناک مساغ للمنویۃ بدلیل اخرغیرمضمحل کان علمابصورۃ المذی مع احتمال المنی والا علمابھا مع عدمہ فکان علما فقھیا بالمذی فالاول یجب فیہ ایجاب الغسل عند الطرفین لکونہ فی الاحتمال مثل التذکر وھو مراد الموجبین وقد صدقواوالثانی لایجب فیہ الغسل اجماعا لماعلمت ان لا وجوب من دون احتمال المنی وھومرادالنفاۃ وقدصدقوا فھذا غایۃ مایوجہ بہ طریق التطبیق ۔
اور حلیہ میں ہے:مذی پائی یعنی وہ جس کی صورت، مذی کی صورت ہے الخ ۔ اسی طرح بدائع ، ایضاح ، سراجیہ وغیرہا میں صورت سے تعبیر ہے ان کی عبارتیں گزر چکیں ۔تو علامہ شامی نے جو راہِ تطبیق اختیار کی ہے اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس سے فریب خوردہ نہیں ہوناچاہئے جس کا وہم فتح القدیر میں حضرت محقق کے کلام سے پیداہوتا ہے،اسی طرح مراقی الفلاح کے حواشی میں یہ تبعیت نہر سید طحطاوی کے کلام سے ، جیسا کہ اس کو حواشی در میں ذکر کیاہے وہ یوں کہ دونوں حضرات نے نیند کے ساتھ یقین کے متعذر ہونے کا حکم کیا ہے حالانکہ نیند کے ساتھ متعذر صرف حقیقت کا یقین ہے ، صورت کا یقین متعذر نہیں ، جیسا کہ واضح ہے ، تو وہ حکم اس لئے نہیں کہ مذکورہ صورتوں میں حقیقت کا یقین مراد ہے بلکہ اس کا رمزوہ ہے جو میں بیان کرتا ہوں کسی شیئ کی صورت کا یقین،اس کی حقیقت کایقین کلامی ہوتا ہے جب کہ وہ صورت کسی اور چیز کی ہوتی ہی نہ ہو ۔ جیسے منی کی صورت۔اور (صورت شیئ کا یقین ، حقیقت شیئ کا)یقین فقہی ہوتا ہے جب کہ وہ صورت کسی اور چیز کی بھی ہوسکتی ہو۔اور وہاں اس کا احتمال کسی ایسی دلیل سے نہ پیدا ہوا ہو جس کی طرف قلب کا جھکاؤ ہوتاہے ۔ اور (صورت شئی کا یقین ، حقیقت شئی کا) یقین کسی معنی میں نہیں ہوتا جب کہ دوسری چیز کی صورت ہونے کا احتمال کسی دلیل صحیح سے پید اہو۔جیسے احتلام یا د ہونے کے وقت مذی کی صورت کہ یہ صورت مذی ہی سے خاص نہیں بلکہ بار ہا منی بھی وہ صورت اختیار کرلیتی ہے اور احتلام اس کی قوی دلیل ہے۔ تو صورت مذی کے یقین میں اس کی حقیقت کا نہ یقین ہوگا نہ ظنِّ غالب بلکہ اس کے ساتھ منی ہونے کا بھی احتمال صحیح موجود ہوگا تو غسل بالاجماع واجب ہوگا۔ لیکن جب احتلام یاد نہ ہو تو اگر وہاں کسی دوسری غیر مضمحل دلیل سے منی ہونے کی گنجائش موجو د ہو تو یہ احتمال منی کے ساتھ صورتِ مذی کا یقین ہو گا ورنہ عدم احتمال منی کے ساتھ صور ت مذی کایقین ہوگاتویہ مذی کا یقین فقہی ہوگا۔اول میں طرفین کے نزدیک غسل واجب ہے کیونکہ یہ بھی احتمال میں احتلام یاد ہونے کی طرح ہے۔غسل واجب قرار دینے والوں کی مراد یہی ہے۔ اور وہ راستی پر ہیں۔ اور دوم میں بالا جماع غسل واجب نہیں کیونکہ واضح ہوچکا کہ بغیر احتمال منی کے وجوب غسل نہیں۔ وجوب غسل کی نفی کرنے والوں کی مراد یہی ہے اور وہ بھی راستی پر ہیں۔یہ انتہائی کوشش ہے جس سے طریقہ تطبیق کی توجیہ ہو سکتی ہے۔
(۱؎حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )
وبالجملۃ فالکلام انماھوفی علم الصورۃ غیر ان النفاۃ جعلوہ فی صورۃ النفی علما بالحقیقۃ لان صورۃ الشیئ لاتحمل علی غیرہ الا بدلیل ولا دلیل فردہ المحقق بقیام احتمال المنویۃ فی صورۃ مذی یراھا المستیقظ مطلقا وظن العلامۃ ط ان مرادہ الاحتمال النافی للیقین فاجاب بان المراد العلم الفقہی ولم یتنبہ فـــ رحمہ اللّٰہ تعالٰی ان ھذاھوالذی ینکرہ المحقق ویدعی ان علم المستیقظ بصورۃ المذی لاعراء لہ عن احتمال صحیح للمنویۃ فکیف یکون علمافقہیا بحقیقۃ المذی۔
الحاصل کلام صورت ہی کے یقین میں ہے، مگر یہ ہے کہ وجوب غسل کی نفی کرنے والے حضرات نے عدمِ وجوب کی صورت میں مذی کے یقین کو حقیقتِ مذ ی کا یقین قراردیا۔اس لئے کہ ایک شئی کی صورت کو کسی دوسری چیز کی صورت پر بلا دلیل محمول نہیں کیا جا سکتا۔ اور دلیل کوئی ہے نہیں۔ اسے حضرت محقق نے یوں رد کیا کہ اس مذی کی صورت میں جسے خواب سے بیدار ہونے والا دیکھے، منی ہونے کا احتمال مطلقاً موجود ہے۔اور علامہ طحطاوی نے یہ سمجھ لیا کہ حضرت محقق کی مراد وہ احتمال ہے جو یقین کی نفی کردے توجواب دیا کہ یہاں یقین فقہی مراد ہے اور حضرت سید رحمہ اللہ تعالٰی اس پر متنبہ نہ ہوئے کہ حضرت محقق اسی کا تو انکار کررہے ہیں اور یہ دعوٰی کر رہے ہیں کہ صورت مذی سے متعلق بیدار ہونے والے کا یقین فقہی، منی ہونے کے احتمال صحیح سے خالی نہیں ہوسکتا تووہ حقیقتِ مذی کا یقین فقہی کیسے ہوسکے گا؟
فـــ:معروضۃ علی العلامۃ ط۔
وانت تعلم ان مناط الامر ھھنا انما ھو ثبوت ھذا المدعی فانتم ضاع الجواب ولم یفد التطبیق ووجب التعویل علی قول الموجبین فالان اٰن ان نستعین بربناونسرح عنان النظر فی تحقیق ھذا المبحث لکی یتجلی حقیقۃ الامر۔
آپ کو معلوم ہے کہ یہاں کی پوری بحث کا مدار اس پرہے کہ یہ دعوی ثابت ہو۔اگر دعوی ثابت ہوجاتا ہے تو جواب بے کار او ر تطبیق بے سود ہوجائے گی اور غسل واجب قرار دینے والوں کے قول پر اعتماد واجب ہوگا۔اب وقت آیا کہ ہم اپنے رب کی مدد حاصل کریں اور اس بحث کی تحقیق میں عنان نظر کو رخصت دیں تاکہ حقیقتِ امر عیاں ہو سکے۔