فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱-۲(کتاب الطہارۃ) |
اور تحقیق چاہئے توحقیقت امر وہ ہے جس کی طرف محقق علی الاطلاق نے اشارہ فرمایا یعنی قول اول ضرور فی نفسہٖ ایک ٹھیک بات ہے۔ واقعی جب ثابت ہوجائے کہ یہ تری فی الحقیقۃ مذی ہے تو بالضرورۃ منی ہونا محتمل نہ رہے گا اور جب منی کا احتمال تک نہیں تو با لاجماع عدم وجوب غسل میں کوئی شک نہیں مگر مانحن فیہ یعنی سوتے سے اٹھ کر تری دیکھنے میں یہ صورت کبھی موجود نہ ہوگی جب مذی دیکھی جائے گی منی ضرور محتمل رہے گی کہ بارہا بدن یا ہوا کی گرمی سے منی رقیق ہو کر شکل مذی ہوجاتی ہے تو بیدار ہوکر دیکھنے والے کو علم مذی ہمیشہ احتمال منی ہے اورشک نہیں کہ مذہب طرفین میں اُسے احتمال منی ہمیشہ موجب غسل ہے اگرچہ احتلام یاد نہ ہو تو اس صورت میں بھی امام اعظم وامام محمد رضی اللہ تعالٰی عنہما کے نزدیک وجوبِ غسل لازم بالجملہ ترجیح لویا تطبیق چلو۔ بہرحال صحیح وثابت وہی قول دوم ہے وباللہ التوفیق۔
اقول : وبیان ذلک علی ماظھر للعبد الضعیف بحسن التوقیف من المولی اللطیف ان فـــــ الحکم بشیئ اماان یحتمل خلافہ احتمالاصحیحاناشئاعن دلیل غیر ساقط حتی یکون للقلب الیہ رکون اولا الاول ھو الظن باصطلاح الفقہ والثانی العلم ویشمل مااذالم یکن ثمہ تصورماللخلاف اصلا وھو الیقین بالمعنی الاخص اوکان تصورہ بمجردامکانہ فی حدنفسہ من دون ان یکون ھھنامثارلہ من دلیل مااصلا وھو الیقین بالمعنی الاعم اوکان عن دلیل ساقط مضمحل لایرکن الیہ القلب و ھو غالب الظن واکبرالرأی والیقین الفقہی لالتحاقۃ فیہ بالیقین ۔
اقول : اس کا بیان جیسا کہ رب لطیف کے حسن توقیف سے بندہ ضعیف پر منکشف ہوایہ ہے کہ کسی شئی کا حکم کرنے میں یا تو اس کے خلاف کا احتمال ہوگا۔ایسااحتمال صحیح جو دلیل غیر ساقط سے پیدا ہوا ہویہاں تک کہ اس کی جانب دل کاجھکاؤ ہو۔یا اس کے خلاف کا ایسا احتمال نہ ہوگا۔اول اصطلاح فقہ میں ظن کہلاتاہے ۔ اور ثانی کو علم و یقین کہا جاتاہے۔اس علم کے تحت تین صورتیں ہوتی ہیں(۱)خلاف کا وہاں بالکل کوئی تصور ہی نہ ہو۔یہ یقین بمعنی اخص ہے (۲)خلاف کا تصور محض اس کے فی نفسہٖ ممکن ہونے کی حد تک ہو،اس پر کسی طرح کی کوئی دلیل بالکل نہ ہویہ یقین بمعنی اعم ہے(۳)خلاف کا تصور ایسی کمزور ساقط دلیل سے پیدا ہو جس کی طرف دل کا جھکاؤ نہ ہو ۔ یہ غالب ظن ، اکبر رائے اور یقین فقہی کہلاتا ہے اس لئے کہ فقہ میں اسے یقین کا حکم حاصل ہے ۔
فــــ:فائدہ معانی العلم والظن والاحتمال فی اصطلاح الفقہ۔
وبہ علم ان فی الاحکام الفقھیۃ لاعبرۃ بالاحتمال المضمحل الساقط اصلاکما لاحاجۃ الی الیقین الجازم بشیئ من المعنیین کذلک ففی بناء الاحکام اذااطلقواالاحتمال فانما یریدون الاحتمال الصحیح وھو الناشیئ عن دلیل غیرساقط واذااطلقواالعلم فانمایعنون المعنی الاعم الشامل لاکبرالرأی ای مالایحتمل خلافہ احتمالاصحیحاوبہ علم ان غلبۃ الظن بشیئ واحتمال ضدہ لایمکن اجتماعھمابالمعنی المذکور۔
اسی سے معلوم ہواکہ فقہی احکام میں کمزور ساقط احتمال کا بالکل کوئی اعتبار نہیں ۔ جیسے اس میں ان دونوں معنوں میں یقین جازم کی بھی احتیاج نہیں ۔ تو فقہابنائے احکام میں جب لفظ احتمال بولتے ہیں تو اس سے احتمال صحیح مراد لیتے ہیں۔یہ وہی ہے جو کسی غیر ساقط دلیل سے پیدا ہوا ہو۔اور جب لفظ علم ویقین بولتے ہیں تو اس سے وہ معنی اعم مراد لیتے ہیں جو اکبر رائے کو بھی شامل ہے یعنی جس کے خلاف کا کوئی صحیح احتمال نہ ہو۔اسی سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی شئی کا غلبہ ظن اور اس کی ضد کا احتمال بمعنی مذکور دونوں باتیں جمع نہیں ہوسکتیں۔
ثم ان الاشیاء ثلثۃ منی ومذی وودی نعنی بہ کل مالیس منیاولامذیا فصورۃ رؤیۃ البلل بالنظرالی تعلق العلم اوالاحتمال باحدالثلثۃ تتنوع الی سبع صور ثلث للعلم واربع فی الاحتمال وذلک ان یتردد المرئی بین منی ومذی اومنی وودی اومذی وودی اوبین الثلثۃ ومرجع الاربع الی ثنتین احتمال المنی مطلقاوھوفیماعدا الثالث واحتمال المذی خاصۃ ای یحتملہ لاالمنی فعادت السبع خمساوھی مع صورۃ عدم رؤیۃ البلل ست کمافعلنا۔
اب دیکھئے کہ تین چیزیں ہیں: منی، مذی،ودی۔ودی سے ہماری مراد ہر وہ تری جونہ منی ہو نہ مذی۔ تینوں میں سے کسی ایک سے علم یااحتمال متعلق ہونے پر نظر کرتے ہوئے تری کے دیکھنے کی صورت سات صورتوں میں تقسیم ہوتی ہے۔ تین صورتیں علم کی ہیں اور چار احتمال کی۔وہ اس طرح کہ مرئی میں تردّد منی و مذی کے درمیان ہوگا یا منی و ودی یا مذی و ودی یا تینوں کے درمیان ہوگا۔ان چاروں کا مآل دو صورتیں ہیں۔ منی کا احتمال ہو مطلقاً ، یہ تیسری صورت کے ماسوا میں ہے ۔صرف مذی کااحتمال ہو منی کا احتمال نہ ہو تو اب (احتمال کی دوصورتیں اور یقین کی سابقہ تین صورتیں رہ گئیں ) سات صورتیں صرف پانچ ہو گئیں ان کے ساتھ تری نہ دیکھنے کی صورت کو بھی ملالیا جائے توکل چھ صورتیں ہوتی ہیں ۔جیسا کہ ہم نے یہی کیا ۔
وضابطہا ان تقول یکون المنی او المذی معلوما اومحتملا اولاولا۔ اقول وان اخذت الاحتمال بحیث یشمل العلم ای تسویغ شیئ سواء ساغ معہ ضدہ فکان احتمالا بالمعنی المعروف اولا فکان علما فحینئذ یرجع التخمیس تثلیثا بان یقال یحتمل منی اومذی اولاولا فیندرج علم المنی واحتمالہ مع مذی او ودی اومعھمافی الاول وعلم المذی واحتمالہ مع ودی فی الثانی وعلم الودی ھو الثالث۔
اسے بطورضا بطہ یوں کہیں کہ منی یامذی معلوم یا محتمل ہوگی یا یہ دونوں نہ معلوم ہوں گی نہ محتمل ۔( ت)اقول اور اگر احتمال کو اس طرح لیجئے کہ علم و یقین کو بھی شامل ہو ۔یعنی کسی شئی کا جواز ہو خواہ اس کے ساتھ اس کی ضد کابھی جواز ہو۔جواحتمال بمغی معروف ہے۔یا اس کی ضد کا کوئی جواز نہ ہو ،جو علم بمعنی معروف ہے ۔ تو اس تقدیر پر پانچ صورتیں صرف تین ہو جائیں گی ۔وہ اس طرح کہ ہم کہیں منی کا احتمال ہو گا یا مذی کا یا دونوں کا احتمال نہ ہوگا۔تو منی کا علم اور مذی یا ودی یا دونوں کے ساتھ اس کا احتمال شق اول میں مندرج ہوجائے گا۔اور مذی کا علم اور ودی کے ساتھ اس کا احتمال شق دوم میں مندرج ہوگا ۔اور ودی کا علم یہ تیسری شق ہے ۔
ثم ان لکل من الثلثۃ صورۃ وحقیقۃ۔ اقول ومعلوم قطعا ان العلم بحقیقۃ شیئ ینفی احتمال ضدہ الکلامی الکلامی والفقھی الفقھی وکذااحتمالہالایکون احتمالہ وان صحب احتمالہ بخلاف العلم بصورتہ اواحتمالہ فانہ لاینفی احتمال حقیقۃ ضدہ بل ربما یفیدہ اذا امکن ان تکون تلک الصورۃ لہ فحینئذ یجامع العلم الفقھی بل الکلا می بصورۃ شیئ الاحتمال الکلامی بل الفقھی لحقیقتہ اذا کان ناشئاعن دلیل غیر مضمحل ۔
پھر تینوں میں سے ہر ایک کی ایک صورت ہے اور ایک حقیقت ہے۔ (ت)اقول اور یہ قطعاً معلوم ہے کہ کسی شئی کی حقیقت کا یقین اس کی ضد کے احتمال کی نفی کرتا ہے ۔یقین کلامی احتمال کلامی کی نفی کرتاہے اور یقین فقہی احتمال فقہی کی ۔اسی طرح حقیقت شئی کااحتمال ضد شئی کااحتمال نہیں ہوتا اگر چہ اس کے احتمال کے ساتھ ہو ۔اور شئی کی صورت کے علم یااحتمال کا حکم اس کے بر خلاف ہے ۔اس لئے کہ وہ ضد شئی کی حقیقت کے احتمال کی نفی نہیں کرتا بلکہ بار ہااس کا افادہ کرتا ہے جب کہ یہ ممکن ہو کہ وہ صورت اس کی ضد ہو ۔ تو ایسی حالت میں کسی شئی کی صورت کا یقین فقہی بلکہ کلامی بھی اس کی ضد کی حقیقت کے احتمال کلامی بلکہ فقہی کے ساتھ بھی جمع ہوتاہے جب کہ وہ احتمال کسی دلیل غیر مضمحل سے پیدا ہو ۔
اذا وعیت ھذا۔فاقول لامساغ لان تؤخذ الصورھھناباعتبارتعلق العلم بحقیقۃ الشیئ عینا لوجوہ یجمعھا۔اولھافـــ وھوانہ یبطل مااجمعواعلیہ من وجوب الغسل بعلم المذی عند تذکرالحلم کیف واذاعلم انہ مذی حقیقۃ لم یحتمل کونہ منیااصلا واذا لم یحتمل کونہ منیاامتنع ان یوجب غسلا ولوتذکرالف حلم لماعلم من الشرع ضرورۃ ان لاماء موجبا للماء الا المنی فیکون ایجابہ بماعلم انہ مذی حقیقۃ تشریعاجدیداوالعیاذ باللّٰہ تعالی اما تراھم مفصحین بانالانوجب الغسل بالمذی بل قدیرق المنی فیری کالمذی کماتقدم فقد ابانوا ان لیس المراد العلم بحقیقۃ المذی والا لم تحتمل المنویۃ لما علمت۔
جب یہ ذہن نشین ہو گیا تو میں کہتاہوں اس کی گنجائش نہیں کہ یہاں مذ کورہ صورتیں معین طور پر شئی کی حقیقت سے علم متعلق ہونے کے اعتبار سے لی جائیں ۔اس کی چند وجہیں ہیں جن کی جامع وجہ اول ہے وہ یہ کہ اس سے وہ باطل ہوجائیگا جس پر اجماع ہے کہ خواب یا دہونے کی صورت میں مذی کے علم ویقین سے غسل واجب ہو تاہے۔یہ کیسے ہو سکے گا جب اسے یقین ہو گیا کہ وہ حقیقۃ مذی ہے تو اس کے منی ہونے کا احتمال بالکل نہ رہا ۔اور جب اس کے منی ہو نے کا احتمال نہ رہا تو ناممکن ہے کہ اس سے غسل واجب ہواگر چہ اسے ہزار خواب یاد ہوں اس لئے کہ شرع سے ضروری طور پر معلوم ہے کہ سوامنی کے کوئی پانی ، غسل واجب نہیں کرتا ۔توا سے جس پانی کے حقیقۃ مذی ہونے کا یقین ہو گیا اس سے غسل واجب کرنا ایک نئی شریعت نکا لنا ہوگا ، والعیاذ باللہ تعالٰی ۔دیکھتے نہیں کہ علماء صاف لکھتے ہیں کہ ہم مذی سے غسل واجب نہیں کرتے بلکہ بات یہ ہے کہ کبھی منی رقیق ہو کر مذی کی طرح دکھائی دیتی ہے ۔جیسا کہ گزرا۔ان الفاظ سے ان حضرات نے واضح کردیا کہ حقیقت مذی کا یقین وعلم مراد نہیں ، ورنہ منی ہونے کااحتمال ہی نہ رہتا ۔وجہ ابھی معلوم ہوئی ۔
فــــ:معروضہ علی العلامۃ ش۔