Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱-۲(کتاب الطہارۃ)
16 - 135
فقیر کہتا ہے غفراللہ تعالٰی لہ فقہ وغیرہ ہر فن میں اختلاف اقوال بکثرت ہوتا ہے مگر اس رنگ کا اختلاف نادر ہے کہ ہر فریق یوں کلام فرماتا ہے گویا مسئلہ میں ایک یہی قول ہے قول دیگر واختلاف باہم کا اشعار تک نہیں کرتا گویا خلاف پر اطلاع ہی نہیں یہاں تک کہ جہاں ایک فریق کے شراح نے اپنے مشروح کا خلاف بھی کیا وہاں بھی ایرادیااصلاح کارنگ برتانہ یہ کہ مسئلہ خلافیہ ہے اور ہمارے نزدیک ارجح یہ ہے مثلاً عبارت مذکور تنویر الابصار میں کہ فریق دوم کے موافق تھی مدقق علائی نے یہ استثنا بڑھایا:
الا اذا علم انہ مذی اوشک انہ مذی اوودی اوکان ذکرہ منتشرا قبل النوم فلا غسل علیہ اتفاقا ۲؎۔
مگر جب یقین ہو کہ وہ مذی ہے ، یا شک ہوکہ مذی ہے یا ودی ، یا سونے سے پہلے ذَکر منتشر تھا تو بالاتفاق اس پر غسل نہیں۔ (ت)
(۲؎ الدرمختار شرح تنویر الابصار    کتاب الطہارۃ     مطبع مجتبائی دہلی        ۱/۳۱)
علامہ طحطاوی نے فرمایا:
یرد علی المصنف انہ فی صورۃ المذی مع عدم التذکر لایلزمہ الغسل وقدافادہ الشارح بقولہ الا اذا علم ۱؎۔
مصنف پر اعتراض وارد ہوتا ہے کہ احتلام یادنہ ہونے کے ساتھ مذی کی صورت میں غسل لازم نہیں ہوتا ، شارح نے اپنے قول''مگر جب یقین ہو الخ''سے اس کا افادہ کیا۔(ت)
(۱؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار    کتاب الطہارۃ     المکتبۃ العربیہ کوئٹہ     ۱ /۹۲)
علامہ شامی نے فرمایا:
اعلم ان الشارح قد اصلح عبارۃ المصنف فان قولہ اومذیایحتمل انہ رأی مذیا حقیقۃ بان علم انہ مذی اوصورۃ بان شک انہ مذی اوودی اوشک انہ مذی اومنی فاستثنی ماعدا الاخیر وصار قولہ اومذیا مفروضا فیما اذا شک انہ مذی اومنی فقط فھذہ الصورۃ یجب فیھا الغسل وان لم یتذکر الاحتلام لکن بقیت ھذہ صادقۃ بما اذاکان ذکرہ منتشرا قبل النوم اولا مع انہ اذاکان منتشرا لایجب الغسل فاستثناہ ایضا فصارجملۃ المستثنیات ثلث صور لایجب فیھا الغسل اتفاقا مع عدم تذکر الاحتلام الخ۲؎۔
واضح ہو کہ شارح نے عبارتِ مصنف کی اصلاح فرمائی ہے اس لئے کہ ان کے قول'' اومذیا '' میں احتمال تھا کہ اس نے حقیقۃً مذی دیکھی ہو اس طرح کہ اسے یقین ہو کہ وہ مذی ہے۔یا صورۃً مذی دیکھی اس طرح کہ اسے شک ہو کہ وہ مذی ہے یا ودی ، یا شک ہو کہ وہ مذی ہے یا منی ۔ تو ماسوائے اخیر کا استثناء کردیا اور ان کا قول ''او مذیا''کی صورت مفروضہ ہوگئی جس میں صرف یہ شک ہے کہ مذی ہے یامنی۔ تواس صورت میں غسل واجب ہے اگرچہ احتلام یاد نہ ہو۔ لیکن یہ اس صورت پر بھی صادق ٹھہری جب سونے سے قبل ذَکر منتشر رہاہویانہ رہاہوحالاں کہ منتشر ہونے کی صورت میں غسل واجب نہیں ہوتا تو اس صورت کا بھی استثناء کردیا اب کل تین صورتیں مستثنٰی ہوگئیں جن میں احتلام یاد نہ ہونے کے ساتھ بالاتفاق غسل واجب نہیں ہوتا(ت)
(۲؎ ردالمحتار        کتاب الطہارۃ     دار احیاء التراث العربی بیروت     ۱/ ۱۱۰۹)
اور اسی کے مثل جامع الرموز علامہ قہستانی سے آتا ہے ان شاء اللہ تعالٰی ۔اُدھر صاحب منیۃ المصلی نے جو عبارت مذکورہ میں فریق اول کا قول اختیار کیا۔ علامہ ابراہیم حلبی نے غنیہ میں اس پر یوں فرمایا:
المصنف مشی علی قول ابی یوسف ولم ینبہ علیہ فیوھم انہ مجمع علیہ علی ان الفتوی علی قولھما ۱؎۔
مصنف کی مشی امام ابو یوسف کے قول پر ہے مگر اس پر تنبیہ نہ کی جس سے یہ وہم ہوتاہے کہ اس حکم پر تینوں ائمہ کا اجماع ہے ۔ علاوہ ازیں فتوٰی طرفین کے قول پر ہے۔ (ت)
(۱؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی    مطلب فی الطہارۃ الکبرٰی    سہیل اکیڈمی لاہور    ص۴۳)
حالانکہ فریق اول کے طور پر ضروریہ قول مجمع علیہ ہی تھایوہیں حلیہ میں عبارت مذکورہ مصفی سے مبسوط ومحیط ومغنی کے نصوص نقل کرکے فرمایا:
یفید عدم الوجوب بالاجماع فی المذی کمافی الودی ولیس کذلک بل ھو علی الخلاف کما صرح بہ نفس صاحب المصفی فی الکافی وقاضی خان فی فتاوٰیہ وغیرھمامن المشائخ ۲؎ اھ
اس کا مفاد یہ ہے کہ ودی کی طرح مذی میں بھی بالاجماع غسل واجب نہیں ، حالاں کہ ایسا نہیں بلکہ اس میں اختلاف ہے جیسا کہ خود صاحبِ مصفی نے کافی میں ، امام قاضی خاں نے اپنے فتاوٰی میں اور دیگر مشائخ نے اس کی تصریح فرمائی ہے۔ (ت)
(۲؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃالمصلی     )
بالجملہ یہ خلاف نوادر دہر سے ہے اور راہ تطبیق ہے یا ترجیح۔اگر ترجیح لیجئے فاقول وہ تو سردست بوجوہ قول دوم کیلئے حاضر۔
اولاً : اسی پر متون ہیں۔
ثانیا : اسی طرف اکثر ہیں
وانما العمل بما علیہ الاکثر۳؎۔
(عمل اسی پر ہوتا ہے جس پر اکثر ہوں۔ت)
(۳؎ردالمحتار     کتاب الصلوٰۃ    باب صلوٰۃ المریض   دار احیاء التراث العربی بیروت     ۱ /۵۱۰)
ثالثاً : اسی میں احتیاط بیشتر اور امر عبادات میں احتیاط کا لحاظ اوفر۔
رابعاً : اس کے اختیار فرمانے والوں کی جلالتِ شان جن میں امام اجل فقیہ ابو اللیث سمرقندی صاحب حصرو امام ملک العلما ابو بکر مسعود کا شانی وامام اجل نجم الدین عمر نسفی وامام علی بن محمد اسبیجابی ہردو استاذ امام برہان الدین صاحبِ ہدایہ وخودامام اجل صاحبِ تجنیس وہدایہ وامام ظہیر الدین محمد بخاری وامام فقیہ النفس قاضیخان وامام محقق علی الاطلاق وغیرہم ائمہ ترجیح وفتوے بکثرت ہیں اور قول اول کی طرف زیادہ متاخرین قریب العصر۔
اور اگر تطبیق کی طرف چلئے تو نظر ظاہر میں وہ توفیق حاضر جسے علامہ شامی (عــہ) رحمہ اللہ تعالٰی نے اختیار کیااور من وجہ اُس کاپتااور بعض کتب سے بھی چلتاہے کہ قولِ اوّل میں حقیقت مذی مراد ہے یعنی جب یقین یا غلبہ ظن سے کہ وہ بھی فقہیات میں مثل یقین ہے معلوم ہو کہ یہ تری حقیقۃً مذی ہے، اُس کا منی ہونا محتمل نہیں تو بالاجماع غسل نہ ہوگااور قول دوم میں صورت مذی مقصود ہے یعنی صورۃً مذی ہونے کا علم ویقین ہواور دربارہ حقیقت تردد کہ شاید منی ہو جو گرمی پاکر اس شکل پر ہوگئی۔عبارت درِمختار ابھی گزری،
(عــہ) قال رحمہ اللّٰہ تعالٰی تحت قول الماتن رؤیۃ مستیقظ منیااومذیا۲؎ قولہ اومذیا یقتضی انہ اذا علم مذی ولم یتذکر احتلامایجب الغسل وقدعلمت خلافہ وعبارۃ النقایۃ کعبارۃ المصنف واشارالقہستانی الی الجواب حیث فسرقولہ اومذیابقولہ ای شیا شک فیہ انہ منی اومذی فالمراد ماصورتہ المذی لاحقیقتہ اھ فلیس فیہ مخالفۃ لما تقدم فافھم۳؎ اھ فافادان المراد فی قول النفاۃ العلم بحقیقۃ المذی وفی قول الموجبین العلم بصورتہ فلا خلاف اھ منہ ۔
(عــہ) علامہ شامی رحمہ اللہ تعالٰی نے متن کی عبارت ''رؤیۃ مستیقظ منیا اومذیا'' (بیدار ہونے والے کا منی یا مذی دیکھنا موجب غسل ہے)کے تحت فرمایا عبارتِ متن''او مذیا'' کا تقاضا یہ ہے کہ جب اسے مذی ہونے کا یقین ہو اور احتلام یاد نہ ہوتو غسل واجب ہوا،اور تمہیں اس کے خلاف حکم معلوم ہوچکا، اور نقایہ کی عبارت بھی عبارتِ مصنف ہی کی طرح ہے اس کے تحت قہستانی نے جواب کی طر ف اشارہ کیا ۔ اس طرح کہ عبارتِ نقایہ ''اومذیا''کی تفسیر یہ کی یعنی ایسی چیز جس کے بارے میں شک ہو کہ وہ منی ہے یامذی ، تو مراد وہ ہے جو مذی کی صورت میں ہے وہ نہیں جو حقیقتاً مذی ہے اھ تو اس میں حکم سابق کی مخالفت نہیں فافہم اھ۔ اس سے علامہ شامی نے یہ افادہ کیا کہ وجوبِ غسل کی نفی کرنے والے حضرات کے قول میں حقیقت مذی کا یقین مراد ہے اور وجوبِ غسل قراردینے والوں کے قول میں صورت مذی کا یقین مراد ہے تو کوئی اختلاف نہیں ۱۲ منہ( ت)
(۲؎الدرالمختار     کتاب الطہارۃ     مطبع مجتبائی دہلی     ۱ /۳۱

۳؎ردالمحتار         کتاب الطہارۃ     داراحیاء التراث العربی بیروت     ۱/ ۱۱۰)
عبارت نقایہ رؤیۃ المستیقظ المنی اوالمذی ۱؎ کی جامع الرموز میں یوں تفسیر کی:
(المنی) ای شیا یتیقن انہ منی (اوالمذی)ای شیایشک فیہ انہ منی اومذی تذکر الاحتلام اولا وھذا عندھماالخ ۱؎
(منی) یعنی ایسی چیز جس کے متعلق اس کا یقین یہ ہے کہ وہ منی ہے(یا مذی)یعنی ایسی چیز جس کے بارے میں اسے شک ہے کہ وہ منی ہے یا مذی۔احتلام یاد ہو یا نہ ہو۔ اور یہ طرفین کے نزدیک ہے الخ۔(ت)
(۱؎مختصر الوقایہ فی مسائل الھدایہ     کتاب الطہارۃ     نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی         ص۴

۱؎ جامع الرموز     کتاب الطہارۃ     مکتبہ اسلامیہ گنبد قاموس ایران    ۱ /۴۳)
عبارت مذکورہ وقایہ پر ذخیرۃ العقبی میں لکھا:
لایقال قد صرح فی جمیع المعتبرات بانہ لایوجب الغسل کالودی فما بال المصنف رحمہ اللّٰہ تعالٰی عدرؤیتہ من الموجبات لانا نقول الذی یحکم علیہ بعدم کونہ موجبا ھوالمذی یقینا والذی عدموجباھومایکون فی صورتہ مع احتمال کونہ منیارقیقاکمااشارالیہ الشارح رحمہ اللّٰہ تعالٰی بقولہ اماالمذی فلاحتمال کونہ الخ ۲؎
یہاں اعتراض ہوسکتاہے کہ تمام معتبر کتابوں میں تصریح ہے کہ ودی کی طرح مذی سے بھی غسل واجب نہیں ہوتا پھر کیا وجہ ہے کہ مصنف نے مذی دیکھنے کو موجباتِ غسل میں شمار کیا مگر اس کا جواب یہ ہے کہ جس مذی کے غیر موجب ہونے کا حکم ہے وہ مذی یقینی ہے اور جسے موجب غسل شمار کیاہے وہ ایسی تری ہے جو مذی کی صورت میں ہے اور اس کے بارے میں احتمال ہے کہ وہ رقیق منی ہو جیسا کہ اس طرف شارح رحمہ اللہ تعالٰی نے اپنے ا س قول سے اشارہ فرمایاکہ ''لیکن مذی تو اس لئے کہ احتمال ہے کہ ''الخ ۔(ت)
(۲؎ ذخیرۃ العقبی    کتاب الطہارۃ     المبحث فی موجبات الغسل    المطبعۃ الاسلامیہ لاہور    ۱/ ۱۳۰و۱۳۱)
Flag Counter