ذکر فی الحصر والمختلف والفتاوی الظھیریۃ انہ اذا استیقظ فرأی مذیا وقد تذکر الاحتلام اولم یذکرہ فلاغسل علیہ عند ابی یوسف وقالا علیہ الغسل ۴؎۔
حصر، مختلف اور فتاوی ظہیریہ میں ذکر کیا ہے کہ جب بیدار ہوکرمذی دیکھے اور احتلام یاد ہے یا نہیں توامام ابو یوسف کے نزدیک اس پر غسل نہیں، اور طرفین نے فرمایا اس پر غسل ہے۔ (ت)
جب خواب یاد نہ ہو اور یقین ہو کہ یہ مذی ہے یا شک ہو کہ منی ہے یا مذی تو اس صورت میں وجوبِ غسل کا حکم امام ابو حنیفہ وامام محمد کا قول ہے بخلاف امام ابویوسف کے، رحمہم اللہ تعالٰی۔ (ت)
(۱؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)
اُسی میں ہے:
اطلق الجم الغفیر انہ اذا استیقظ ووجدمذیایعنی ماصورتہ صورۃ المذی ولم یتذکر الاحتلام یجب علیہ الغسل عند ابی حنیفۃ ومحمد خلافا لابی یوسف۲؎۔
جم غفیر نے بتایا کہ جب بیدار ہو اور مذی پائے یعنی وہ جو مذی کی صورت میں ہے اور احتلام یاد نہیں تو امام ابو حنیفہ وامام محمدکے نزدیک اس پر غسل واجب ہے بخلاف امام ابویوسف کے۔(ت)
(۲؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)
خزانہ امام سمعانی میں برمزطح لشرح الطحاوی ہے:
استیقظ فوجد علی فراشہ بللا فانکان مذیا فعند ابی حنیفۃ ومحمد رحمہما اللّٰہ تعالٰی یجب الغسل احتیاطاتذکرالاحتلام اولم یتذکر وقال ابو یوسف رحمہ اللّٰہ تعالٰی لاغسل علیہ حتی یتیقن بالاحتلام ۳؎۔
بیدار ہوکر اپنے بستر پر تری پائی اگر وہ مذی ہوتوامام ابو حنیفہ وامام محمد رحمہمااللہ تعالٰی کے نزدیک احتیاطاً اس پر غسل واجب ہے ۔ احتلام یاد ہویانہ ہو۔اورامام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالٰی نے فرمایا:اس پر غسل نہیں یہاں تک کہ اسے احتلام کا یقین ہو ۔(ت)
(۳؎ خزانۃ المفتین کتاب الطہارۃ فصل فی الغسل (قلمی فوٹو) ۱/ ۵)
ارکان بحرالعلوم میں ہے:
من موجبات الغسل وجدان المستیقظ البلل سواء کان منیااومذیاوسواء تذکرالاحتلام ام لا عند الامام ابی حنیفۃ والامام محمد وقال ابویوسف لالان الغسل لایجب بالاحتمال ولھماماروی الترمذی وابوداؤد عن ام المؤمنین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا(فذکرالحدیث المذکور ثم قال)المعنی فی وجوب الغسل علی المستیقظ الواجد البلل ان النوم حالۃ غفلۃ ویتوجہ الی دفع الفضلات ویکون الذکرصلباشاھیاللجماع ولذایکثر فی النوم الاحتلام وخروج المنی یکون بشھوۃ غالبابخلاف حالۃ الیقظۃ فانہ یندرفیہ خروج المنی بلاتحریک فاذاوجدالمستیقظ البلل فالغالب انہ منی دفعہ الطبیعۃ بشھوۃ وان کان البلل رقیقا مثل الذی فالغالب فیہ انہ رق بحرارۃ البدن فاوجب الشارع فی البلل الغسل مطلقا لانہ مظنۃ الخروج بالشھوۃ فافھم ۱؎۔
غسل کے موجبات میں سے یہ ہے کہ بیدار ہونے والا تری پائے خواہ وہ منی ہو یا مذی اور خواہ اسے احتلام یاد ہویانہ ہوامام ابو حنیفہ وامام محمد کے نزدیک ۔اورامام ابو یوسف نے نفی کی اس لئے کہ محض احتمال سے غسل واجب نہیں ہوتا۔اور طرفین کی دلیل وہ حدیث ہے جو ترمذی و ابوداؤد نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے روایت کی(اس کے بعد حدیثِ مذکور بیان کی ، پھر بیان فرمایا:) بیدار ہوکر تری پانے والے پر غسل واجب ہونے کا سبب یہ ہے کہ نیند غفلت اور فضلات دفع کرنے کی جانب توجہ کی حالت ہے اوراس وقت ذَکر میں سختی و شہوتِ جماع ہوتی ہے۔اسی لئے نیند میں احتلام اور شہوت کے ساتھ منی کا نکلنا زیادہ ہوتا ہے۔بیداری کی حالت میں ایسا نہیں ، اس میں بغیر تحریک کے منی نکلنا نادر ہے ۔تو بیدار ہونے والا جب تری پائے تو غالب گمان یہی ہے کہ وہ منی ہے جسے طبیعت نے شہوت کے ساتھ دفع کیا ہے ۔ اورتری اگر مذی کی طرح رقیق ہوتو اس کے بارے میں غالب گمان یہ ہے کہ وہ بدن کی حرارت سے رقیق ہوگئی ہے تو شارع نے تری میں مطلقاً غسل واجب کیا اس لئے کہ اس میں شہوت سے نکلنے کے گمان کا موقع ہے ۔فافہم (ت)
کبیری علی المنیہ میں قول مذکور متن کو عند ابی یوسف سے مقید کرکے وعندھما یجب۲؎ فرمایا ۔
(۲؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی مطلب فی الطہارۃ الکبرٰی سہیل اکیڈمی لاہور ص۴۲ و ۴۳)
پھر محل دلیل میں افادہ کیا:
قولھماوجوب الغسل اذاتیقن انہ مذی ولم یتذکرالاحتلام لان النوم حال ذھول وغفلۃ شدیدۃ یقع فیہ اشیاء فلا یشعربھافتیقن کون البلل مذیالایکاد یمکن الا باعتبارصورتہ و رقتہ وتلک الصورۃ کثیراما تکون للمنی بسبب بعض الاغذیۃ ونحوھا مما یوجب غلبۃ الرطوبۃ ورقۃ الاخلاط والفضلات وبسبب فعل الحرارۃ والھواء فوجوب الغسل ھوالوجہ ۱؎۔
طرفین کا قول کہ غسل واجب ہے جب یقین ہوکہ وہ مذی ہے اور احتلام یاد نہ ہو ، اس کی وجہ یہ ہے کہ نیند ذہول اور شدید غفلت کی حالت ہے اس میں بہت سی ایسی چیزیں واقع ہوجاتی ہیں جن کا سونے والے کو پتہ نہیں چلتا تو تری کے مذی ہونے کا یقین اس کی صورت اور رقت ہی کے اعتبار سے ہوپائے گا اور یہ صورت بارہا منی کی بھی ہوتی ہے جس کا سبب بعض غذائیں اور ایسی چیزیں ہوتی ہیں جن سے رطوبت زیادہ ہوجاتی ہے ۔ خِلطیں اور فضلات رقیق ہوجاتے ہیں اور حرارت وہوا کے عمل سے بھی ایسا ہوتا ہے تو غسل کا وجوب ہی صحیح صورت ہے۔ (ت)
(۱؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی مطلب فی الطہارۃ الکبرٰی سہیل اکیڈمی لاہور ص۴۲ و ۴۳)
سنن دارمی وابو داؤد وترمذی وابن ماجہ میں ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے ہے:
قالت سئل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم عن الرجل یجد البلل ولا یتذکر احتلاما قال صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم یغتسل وعن الرجل الذی یری انہ قداحتلم ولا یجد بللا قال لاغسل علیہ ۲؎۔
حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے استفتاء ہو اکہ آدمی تری پائے اور احتلام یاد نہیں ۔ فرمایا : نہائے عرض کی : احتلام یاد ہے اور تری نہ پائی ۔ فرمایا : اس پر غسل نہیں ۔
(۲؎ سنن ابی داؤد کتاب الطہارۃ باب فی الرجل یجد البلۃ فی منامہ آفتاب عالم پریس لاہور۱/۳۱
سنن ابن ماجہ ابواب الطہارۃ باب من احتلم ولم یر بللا ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۴۵
سنن الترمذی ابواب الطہارۃ حدیث ۱۱۳ دارالفکر بیروت ۱/۱۶۴
سنن الدارمی باب من یری بللا حدیث ۷۷۱ دارالمحاسن الطباعۃ القاھرہ ۱/۱۶۱)
مولٰنا علی قاری شرح مشکوٰۃ میں یجد البلل کے نیچے لکھتے ہیں:
منیا کان او مذیا ۳؎۔
(منی ہو یا مذی۔ت)
(۳؎مرقاۃ المفاتیح کتاب الطہارۃ باب الغسل تحت الحدیث ۴۴۱ المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ ۲/۱۴۴)
لمعات التنقیح میں ہے:
مذھب ابی حنیفۃ ومحمد انہ اذا رأی المستیقظ بللا منیا کان اومذیا وجب الغسل یتذکر الاحتلام اولم یتذکر قال الشُّمُنِّی قال ابو یوسف لاغسل اذارأی مذیا ولم یتذکر الاحتلام لان خروج المذی یوجب الوضوء لاالغسل ومتمسکہما ھذا الحدیث ۱؎۔
امام ابو حنیفہ وامام محمد کا مذہب یہ ہے کہ جب بیدار ہونے والا تری دیکھے ۔منی ہو یا مذی ۔ تو اس پر غسل واجب ہے احتلام یاد ہو یا نہ ہو۔ شمُنّی نے فرمایا:امام ابو یوسف کا قول ہے کہ اس صورت میں غسل نہیں جب مذی دیکھے اوراحتلام یاد نہ ہو اس لئے کہ مذی نکلنے سے وضو واجب ہوتا ہے غسل نہیں، اور طرفین کا استدلال اسی حدیث سے ہے۔ (ت)
(۱؎لمعات التنقیح شرح مشکوٰۃ المصابیح کتاب الطہارۃ باب فی الغسل حدیث ۴۴۱ المکتبۃ المعارف العلمیہ لاہور ۲/۱۱۳و۱۱۴)