فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱-۲(کتاب الطہارۃ) |
جواہر الفتاوٰی کے باب رابع میں کہ فتاوائے امام اجل نجم الدین نسفی کے لئے معقود ہوتا ہے فرمایا:
استیقظ وتذکر انہ رأی فی منامہ مباشرۃ ولم یربللا علی ثوبہ ولا فرشہ ومکث ساعۃ فخرج مذی لایجب الغسل لظاھر الحدیث من احتلم ولم یربللا فلاشیئ علیہ ولیس ھذا کما استیقظ ورأی بلۃ یلزمہ الغسل عند ابی حنیفۃ ومحمد رحمہما اللّٰہ تعالی لانھما یحملان انہ کان منیا فرق بمرور الزمان وھھنا عاین خروج المذی فوجب الوضوء دون الغسل قال ولا یلزم ھذا من احتلم لیلا فاستیقظ ولم یربللا فتوضأ وصلی الفجر ثم نزل المنی یجب الغسل وجازت صلاۃ الفجر عند ابی حنیفۃ ومحمد رحمہما اللّٰہ تعالٰی لانہ انما یجب الغسل بنزول المنی بعد ما استیقظ ولہذا لایعید الفجر بخلاف مسألتنا لانہ زال المذی بعدما استیقظ وھو یراہ فلم یلزم الغسل لانہ مذی ۱؎ اھ بنحو اختصار ۔
نیند سے بیدار ہوا اور اسے یاد آیا کہ اس نے خواب میں مباشرت دیکھی ہے اور اپنے کپڑے اور بستر پر کوئی تری نہ پائی اور کچھ دیر کے بعد مذی نکلی تواس پر غسل واجب نہیں ، اس کی دلیل اس حدیث کا ظاہر ہے کہ '' جس نے خواب دیکھا اور تری نہ پائی تواس پر کچھ نہیں ''۔اور یہ اس صورت کی طرح نہیں جب بیدار ہوا اور تری دیکھے ۔اس پر امام ابو حنیفہ وامام محمد رحمہما اللہ تعالٰی کے نزدیک غسل لازم ہے اس لئے کہ ان کے نزدیک وہ اس پر محمول ہے کہ منی تھی وقت گزرنے کے کی وجہ سے رقیق ہوگئی۔ اور یہاں تو اس نے مذی نکلنے کا مشاہدہ کیا ہے اس لئے اس پر وضو واجب ہے غسل نہیں۔ فرماتے ہیں:اس پر اس مسئلے سے اعتراض نہ ہوگا کہ کسی نے رات کو خواب دیکھا اور بیدار ہوا تو تری نہ پائی ، وضو کرکے نمازِ فجر ادا کرلی پھر منی نکلی تو اس پر غسل واجب ہے اور نمازِ فجر ہوگئی ۔ امام ابو حنیفہ وامام محمد رحمہما اللہ تعالٰی کے نزدیک - اس لئے کہ یہاں بیداری کے بعد منی نکلنے کی وجہ سے غسل واجب ہوا اسی لئے اسے نمازِ فجر کا اعادہ نہیں کرنا ہے اور مسئلہ سابقہ میں ایسا نہیں اس لئے کہ بیدار ہونے کے بعد اس کے سامنے مذی نکلی تو مذی ہونے کی وجہ سے اس پر غسل لازم نہ ہوا،اھ کچھ اختصار کے ساتھ عبارت ختم ہوئی ۔(ت)
(۱؎ جواہر الفتاوٰی الباب الرابع قلمی فوٹو ص ۵ و ۶)
فتاوٰی امام قاضی خان میں ہے:
انتبہ ورأی علی فراشہ اوفخذہ المذی یلزمہ الغسل فی قول ابی حنیفۃ ومحمد رحمہما اللّٰہ تعالی تذکر الاحتلام اولم یتذکر ۲؎۔
بیدار ہوا اپنے بستر یا ران پر مذی دیکھی توامام ابو حنیفہ اورامام محمد رحمہمااللہ تعالٰی کے قول پر غسل اس پر لازم ہے احتلام یاد ہو نہ ہو۔
(۲؎ فتاوٰی قاضی خاں کتاب الطہارۃ فصل فیما یوجب الغسل نولکشور لکھنؤ ۱/ ۲۱)
اسی میں ہے:
مغمی علیہ افاق فوجد مذیا لاغسل علیہ وکذا السکران ولیس ھذا کالنوم لان مایراہ النائم سببہ مایجدہ من اللذۃ والراحۃ التی تھیج منھا الشہوۃ والاغماء والسکر لیسا من اسباب الراحۃ ۳؎۔
بے ہوش تھا افاقہ ہوا تو مذی پائی اس پر غسل نہیں ۔یہی حکم نشہ والے کا ہے اور یہ نیند کی طرح نہیں،اس لئے کہ سونے والا جو دیکھتا ہے اس کا سبب اسے محسوس ہونے والی وہ لذت و راحت ہے جس سے شہوت برانگیختہ ہوتی ہے اور بیہوشی و نشہ،راحت کے اسباب سے نہیں۔
(۳؎ فتاوٰی قاضی خاں کتاب الطہارۃ فصل فیما یوجب الغسل نولکشور لکھنؤ ۱/ ۲۲)
سراجیہ میں ہے:
اذا استیقظ النائم فوجد علی فراشہ بللا علی صورۃ المذی اوالمنی علیہ الغسل وان لم یتذکر الاحتلام ۴؎۔
سونے والا بیدار ہوکر اپنے بستر پر مذی یا منی کی صورت میں تری پائے تو اس پر غسل ہے اگرچہ احتلام یاد نہ ہو۔(ت)
(۴؎ الفتاوی السراجیۃ کتاب الطہارۃ باب الغسل نولکشورلکھنؤ ص۳)
وجیر امام کردری میں ہے:
احتلم ولم یربللا لاغسل علیہ اجماعا ولو منیا اومذیا لزم لان الغالب انہ منی رق لمضی الزمان ۱؎۔
خواب دیکھا اور تری نہ پائی تو اس پر بالاجماع غسل نہیں۔ اور اگر منی یا مذی دیکھی تو غسل لازم ہے اس لئے کہ غالب گمان یہی ہے کہ وہ منی ہے جو وقت گزرنے سے رقیق ہوگئی ۔ (ت)
(۱؎ الفتاوی البزازیۃ علی ھامش الفتاوی الہندیۃ کتاب الطہارۃ الفصل الثانی نورانی کتب خانہ پشاور ۴/ ۱۰ )
اُسی میں ہے :
افاق بعد الغشی اوالسکر و وجد علی فراشہ مذیا لاغسل علیہ بخلاف النائم ۲؎۔
بے ہوشی یا نشہ کے بعد ہوش آیا اور اپنے بستر پر مذی پائی تو اس پر غسل نہیں ، بخلاف سونے والے کے۔ (ت)
(۲؎ الفتاوی البزازیۃ علی ہامش الفتاوی الہندیۃ کتاب الطہارۃ الفصل الثانی نورانی کتب خانہ پشاور ۴/ ۱۰ )
التجنیس والمزید میں ہے:
استیقظ فوجد علی فراشہ مذیا کان علیہ الغسل ان تذکر الاحتلام بالاجماع وان لم یتذکر فعند ابی حنیفۃ ومحمد رحمہما اللّٰہ تعالی لان النوم مظنۃ الاحتلام فیحال علیہ ثم یحتمل انہ منی رق بالھواء اوالغذاء فاعتبرناہ منیااحتیاطا ۳؎ اھ من الفتح ملتقطا۔
بیدار ہوکر اپنے بستر پر مذی پائی تواس پر غسل ہو گا اگراحتلام یاد ہو تو بالاجماع-اور یاد نہ ہو تو امام ابو حنیفہ اورامام محمد رحمہمااللہ تعالٰی کے نزدیک -اس لئے کہ نیند گمان احتلام کی جگہ ہے تو اسے اسی کے حوالے کیا جائے گا پھر یہ احتمال بھی ہے کہ وہ منی تھی جو ہوا یا غذا سے رقیق ہوگئی ، توہم نے احتیاطاً اسے منی ہی مانا اھ من فتح القدیر ملتقطاً۔( ت)
(۳؎التجنیس والمزید کتاب الطہارات مسئلہ۱۰۳ ادارۃالقرآن کراچی ۲/ ۱۷۸ و ۱۷۹)