فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱-۲(کتاب الطہارۃ) |
ومنھا (وجود ماء رقیق بعد) الانتباہ من (النوم) ولم یتذکر احتلاما عندھما خلافا لابی یوسف وبقولہ اخذ خلف بن ایوب وابو اللیث لانہ مذی وھو الاقیس ولھما ماروی انہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم سئل عن الرجل یجد البلل ولم یذکر احتلاما قال یغتسل ولان النوم راحۃ تھیج الشھوۃ وقد یرق المنی لعارض والاحتیاط لازم فی العبادات۳؎۔
اور انہی اسباب میں سے (یہ ہے کہ نیند) سے بیدارہونے (کے بعد رقیق پانی پائے) اور اسے احتلام یاد نہ ہو۔یہ طرفین کے نزدیک ہے امام ابویوسف اس کے خلا ف ہیں اور امام ابو یوسف ہی کا قول خلف بن ایوب اور امام ابواللیث نے اختیار کیا ہے اس لئے کہ وہ مذی ہے۔اور یہی زیادہ قرین قیاس ہے۔ اور طرفین کی دلیل وہ روایت ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے اس مرد کے بارے میں سوال ہوا جو تری پائے اور اسے احتلام یاد نہ ہو تو فرمایا غسل کرے ۔ اور اس لئے بھی کہ نیند میں ایک راحت ہوتی ہے جو شہوت کو برانگیختہ کرتی ہے اور منی کبھی عارض کی وجہ سے رقیق ہوجاتی ہے اور عبادات کے معاملے میں احتیاط لازم ہے ۔(ت)
(۳؎ مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی فصل مایوجب الاغتسال دارالکتب العلمیۃ بیروت ص۹۹)
تنویر الابصار میں ہے:
ورؤیۃ المستیقظ منیا اومذیا وان لم یتذکر الاحتلام ۱؎۔
اور بیدار ہونے والے کا منی یا مذی دیکھنااگرچہ اسے احتلام یاد نہ ہو۔(ت)
(۱؎ الدرالمختارشرح تنویر الابصار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۱)
ملتقی ومجمع میں ہے:
(و) فرض (لرؤیۃ مستیقظ لم یتذکر الاحتلام بللا ولو مذیا) عند الطرفین (خلافالہ) ای لابی یوسف لہ ان الاصل براء ۃ الذمۃ فلایجب الا بیقین وھو القیاس ولھما ان النائم غافل والمنی قد یرق بالھواء فیصیر مثل المذی فیجب علیہ احتیاطا ۲؎۔
(اوربیدارہونے والا جسے احتلام یاد نہ ہو اس کے تری دیکھنے کے سبب اگرچہ وہ مذی ہی ہو )غسل فرض ہے طرفین کے نزدیک ۔(بخلاف ان کے ) یعنی امام ابو یوسف کے۔انکی دلیل یہ ہے کہ اصل یہ ہے کہ اس کے ذمہ غسل نہیں ہے پھر اس کے بخلاف اس پر غسل کا وجوب ، بغیر یقین کے نہ ہوگا اور قیاس یہی ہے۔ طرفین کی دلیل یہ ہے کہ سونے والا غافل ہوتا ہے۔ اور منی کبھی ہوا سے رقیق ہوکر مذی ہوجاتی ہے تو احتیاطاً اس پر غسل واجب ہوگا۔(ت)
(۲؎ مجمع الانہرشرح ملتقی الابحر کتاب الطہارۃ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۲۳)
جوہر نیرہ میں ہے:
فی الخجندی ان کان منیا وجب الغسل بالاتفاق وان کان مذیا وجب عندھما تذکر الاحتلام او لا وقال ابو یوسف لایجب الا اذا تیقن الاحتلام ۳؎۔
خجندی میں ہے:اگر منی ہو تو بالاتفاق غسل واجب ہے۔ اور اگرمذی ہو تو طرفین کے نزدیک واجب ہے احتلام یاد ہو یا نہ یاد ہو۔ اور امام ابو یوسف نے فرمایا:غسل واجب نہیں مگر جب احتلام کا یقین ہو۔(ت)
(۳؎ الجوہرۃ النیرۃ کتاب الطہارۃ مکتبہ امدادیہ ملتان ۱/ ۱۲)
شرح امام زیلعی میں ہے:
غشی فــ علیہ اوکان سکران فوجد علی فخذہ او فراشہ مذیا لم یلزمہ الغسل لانہ یحال بہ علی ھذا السبب الظاھر بخلاف النائم ۱؎۔
بے ہوش ہوا یا نشے میں تھا پھر اپنی ران یا بستر پر مذی پائی تو اس پر غسل لازم نہ ہوگا اس لئے کہ اس مذی کو اسی ظاہری سبب کے حوالے کیا جائے گا بخلاف سونے والے کے۔(ت)
فـــ:مسئلہ بیماری وغیرہ سے غش آگیا یا معاذاللہ نشہ سے بیہوش ہوا اس کے بعد جو ہوش آیا تو اپنے کپڑے یا بدن پر مذی پائی تو اس پر سوا وضو کے غسل نہ ہوگا اس کا حکم سوتے سے جاگ کر مذی دیکھنے کے مثل نہیں کہ وہاں غسل واجب ہوتا ہے۔
(۱؎ تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق کتاب الطہارۃ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱/ ۶۸)
مستخلص الحقائق میں ہے:
(لامذی و ودی واحتلام بلابلل) روی الشیخ ابو منصور الماتریدی باسنادہ الی عائشۃ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا عن النبی صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم انہ قال اذا رأی الرجل بعد ماینتبہ من نومہ بللا ولم یتذکر الاحتلام اغتسل وان تذکر الاحتلام ولم یر بللا فلا غسل علیہ وھذا النص فی الباب کذا فی البدائع ثم قولہ بلابلل مطلقا یتناول المنی والمذی وقال ابو یوسف لاغسل علیہ فی المذی وھذا نص فی المنی اعتبارا بحالۃ الیقظۃ ولہما اطلاق الحدیث ولان المنی قد یرق بمرور الزمان فیصیر فی صورۃ المذی کذافی البدائع ایضا ۱؎۔
(مذی اور ودی اور بغیرتری کے صرف خواب دیکھنا موجب غسل نہیں) شیخ ابو منصور ماتریدی نے اپنی سند سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا روایت کی وہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:مرد جب نیند سے بیدارہونے کے بعد تری دیکھے اور اسے احتلام یاد نہ ہو تو غسل کرے اور اگر خواب دیکھا اور تری نہ پائی تو اس پر غسل نہیں۔ اور یہ اس باب میں نص ہے۔ ایسا ہی بدائع میں ہے۔ پھر متن میں '' بغیر تری کے '' مطلق ہے منی و مذی دونوں کو شامل ہے ۔ اور امام ابو یوسف فرماتے ہیں کہ مذی کی صورت میں اس پر غسل نہیں۔ اور ان کے نزدیک یہ نص منی سے متعلق ہوگا جیسے بیداری کی حالت میں اور طرفین کی دلیل یہ ہے کہ حدیث مطلق ہے۔ اور اس لئے بھی کہ منی کبھی وقت گزرنے کی وجہ سے رقیق ہوکر مذی کی صورت میں ہوجاتی ہے ۔ ایسا بدائع میں بھی ہے۔(ت)
(۲؎ مستخلص الحقائق شرح کنز الدقائق کتاب الطہارۃ رام کانشی پرنٹنگ ورکس لاہور ص۱/ ۵۰ و ۵۱)