اقول:اما المبسوط فقد قدمنا نقلہ عن الہندیۃ عن المحیط عن المبسوط وکذا عن البرجندی عن المبسوط وکذلک عنہ عن المغنی والمرادفــ۱بالمحیط المحیط البرھانی لاالرضوی وقد تقدم النقل عنہ عن الھندیۃ وعن البرجندی نعم لم ار ھذا فی الخانیۃ بل الواقع فیھافــ۲خلاف ھذا کما سیاتی ان شاء اللّٰہ تعالٰی واما الخلاصۃ فنصہا علی ما فی نسختی ھکذا ان احتلم ولم یرشیا لاغسل علیہ بالاتفاق وان تذکر الاحتلام ورأی بللا ان کان ودیا لایجب الغسل بلا خلاف وان کان مذیا اومنیا یجب الغسل بالاجماع ولسنا نوجب الغسل بالمذی لکن المنی یرق باطالۃ المدۃ فکان مرادہ مایکون صورتہ المذی لاحقیقۃ المذی الثالث اذا رأی البلل علی فراشہ ولم یتذکر الاحتلام عندھما یجب علیہ الغسل وعند ابی یوسف لاغسل علیہ ۱؎ اھ وھوفـــ۳ فیما اری عارٍ عن ذکر المسألۃ اصلا
اقول:مبسوط کی عبارت تو پہلے ہم ہندیہ کے حوالے سے نقل کرآئے ہیں ہندیہ میں محیط اس میں مبسوط سے نقل ہے اسی طرح برجندی کے حوالہ سے مبسوط سے ، اور ایسے ہی بحوالہ برجندی مغنی سے نقل گزرچکی ہے۔اور محیط سے مراد محیط برہانی ہے محیط رضوی نہیں۔اور اس سے نقل ہندیہ کے حوالے سے اور برجندی کے حوالے سے بلکہ اس میں اس کے بخلاف واقع ہے جیسا کہ آگے ان شاء اللہ آئے گا ۔ رہا خلاصہ تو میرے نسخہ میں اس کی عبارت اس طرح ہے : اگر خواب دیکھا اور کوئی تری نہ پائی تو بالاتفاق اس پر غسل نہیں اور اگر خواب دیکھنا یاد ہے اور تری بھی پائی اگر وہ ودی ہو تو بلااختلاف غسل واجب نہیں اور اگر مذی یا منی ہو تو بالاجماع غسل واجب ہے اور ہم مذی سے غسل واجب نہیں کرتے لیکن بات یہ ہے کہ دیر ہوجانے سے منی رقیق ہوجاتی ہے ۔ تو اس سے مراد وہ ہے جو مذی کی صورت میں ہے ، حقیقتِ مذی مراد نہیں ۔ سوم جب اپنے بستر پر تری دیکھے اور احتلام یاد نہیں تو طرفین کے نزدیک اس پر غسل واجب ہے اور امام ابویوسف رحمہ اللہ تعالی کے نزدیک اس پر غسل نہیں اھ میرا خیال ہے کہ زیر بحث مسئلہ کا اس عبارت میں سرے سے کوئی تذکرہ ہی نہیں۔
(۱؎ خلاصۃ الفتاوی کتاب الطہارۃ الفصل الثانی فی الغسل مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۱ /۱۳۔)
فـــ۱ :تطفل علی الحلیۃ
فـــ۲ : تطفل علی مصفی الامام النسفی ۔
فـــ۳ : تطفل آخر علیہ ۔
فان قلت بل فیہ خلاف ما فی المصفی حیث ارسل البلل ارسالا فشمل المذی وقد اوجب فیہ الغسل مع عدم التذکر ومثلہ مافی الخانیۃ عن مبسوط الامام محرر المذھب محمد بن الحسن رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ حیث قال وفی صلاۃ الاصل اذا استیقظ وعندہ انہ لم یحتلم و وجد بللا علیہ الغسل فی قول ابی حنیفۃ ومحمد رحمھما اللّٰہ تعالٰی ۱؎ ۔
اگر یہ کہو کہ نہیں بلکہ اس میں مصفی کے برخلاف تذکرہ موجود ہے کیونکہ اس میں تری کو بغیر کسی قید کے مطلق ذکرکیا ہے تو یہ مذی کو بھی شامل ہے اور اس میں یاد نہ ہونے کے باوجود غسل واجب کیا ہے ۔ اسی کے مثل وہ بھی ہے جو خانیہ میں محرر مذہب امام محمد بن الحسن رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مبسوط سے نقل ہے۔ امام قاضی خاں فرماتے ہیں : مبسوط کتاب الصلوٰۃ میں ہے : جب بیدار ہو اور اس کے خیال میں یہ ہے کہ اس نے خواب نہ دیکھا اور اس نے تری پائی تو اس پر امام ابو حنیفہ وامام محمد رحمہمااللہ تعالٰی کے قول پر غسل واجب ہے۔
(۱؎ فتاوی قاضی خان کتاب الطہارۃ فصل فیما یوجب الغسل نو لکشور لکھنؤ ۱/ ۲۱)
قلت:لا تعجل و اورد الکلام موردہ فانہ اما ان یکون المراد بلل معلوم الحقیقۃ اوغیر معلومھا او اعم لاسبیل الی الاول لانہ ارسل البلل ارسالا فیشمل ما اذا علم انہ منی ولیس مرادا قطعا لان فیہ الغسل بلاخلاف وما اذا علم انہ ودی ولیس مرادا قطعا اذ لا غسل فیہ بالاتفاق ولا الی الثالث لشمولہ الاول فیعود المحذوران فتعین الثانی وکانہ لھذا ابھم وارشد بالابہام اللفظی الی الابہام المعنوی فالمعنی رأی بللا لایدری ماھو فھذہ صورۃ الشک فی انہ منی اوغیرہ ولا مساس لھا بصورۃ علم المذی ونظیرہ قول مسکین اذا استیقظ فوجد فی احلیلہ بللا ۱؎ اھ فقال ابو السعود وشک فی کونہ منیا اومذیا خانیۃ ۲؎ اھ وقول المنیۃ ان استیقظ فوجد فی احلیلہ بللا ۳؎ الخ فقال فی الغنیۃ لایدری ا منی ھو ام مذی ۴؎ اھ
تومیں کہوں گا جلدی نہ کرو اور کلام کو اس کے مورد ہی پر وارد کرو۔ اس لئے کہ یا تو ایسی تری مراد ہے جس کی حقیقت معلوم ہے یا نہ معلوم ہے یا وہ جو دونوں سے عام ہے اول ماننے کی کوئی سبیل نہیں اس لئے کہ اس میں تری کو مطلق ذکر کیا ہے تو یہ اس صورت کو بھی شامل ہے جب یقین ہو کہ وہ منی ہے اور یہ قطعاً مراد نہیں اس لئے کہ اس میں بلا اختلاف غسل ہے اور اس صورت کو بھی شامل ہے جب یقین ہوکہ وہ ودی ہے ۔ اور یہ بھی قطعاً مراد نہیں اس لئے کہ اس میں بالاتفاق غسل نہیں ہے۔ اور سوم ماننے کی بھی گنجائش نہیں اس لئے کہ وہ اول کو بھی شامل ہے تو اس کے تحت جو دونوں خرابیاں ہیں وہ پھر لوٹ آئیں گی اب دوسری صورت متعین ہوگئی شاید اسی لئے امام محمد نے ابہام رکھا اور لفظی ابہام سے معنوی ابہام کی جانب رہنمائی فرمائی۔تو معنی یہ ہے کہ ایسی تری دیکھی جس کے بارے میں اسے پتہ نہیں کہ وہ کیا ہے تو یہ اس تری کے منی یا غیر منی ہونے میں شک کی صورت ہوئی۔ اور اسے مذی کے یقین کی صورت سے کوئی مس نہیں۔ اسی کی نظیر مسکین کی یہ عبارت ہے: اگر بیدارہونے کے بعد ذَکر کی نالی میں تری پائی الخ اس پر ابو السعود نے لکھا:اور اس کے منی یا مذی ہونے میں اسے شک ہوا-خانیہ - اھ۔ اور اسی طرح منیہ کی یہ عبارت ہے :اگر بیدار ہونے کے بعد ذَکر کی نالی میں تری پائی الخ ۔ اس پر غنیہ میں لکھا: اور اسے پتہ نہیں کہ وہ منی ہے یا مذی اھ
(۱؎ شرح الکنز لملامسکین علی ھامش فتح المعین کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۵۹
۲؎ فتح المعین کتاب الطہارۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۵۹
۳؎ منیۃ المصلی مکتبہ قادریہ جامعہ نظامیہ لاہور ص۳۳
۴؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی مطلب فی الطہارۃ الکبری سہیل اکیڈمی لاہور ص۴۳)
اقول:وبہ فــ ظھر الجواب عن ایراد الحلیۃ بقولہ انت علیم بما فی ھذا الاطلاق فانہ یشتمل المنی والمذی ولاشک ان المنی غیر مراد منہ بالاتفاق فلاجرم ان ذکر المصنف انہ لوتیقن انہ منی فعلیہ الغسل ۵؎ اھ ونظائر ھذا کثیر فی کلامھم غیر یسیر۔
اقول:اسی سے حلیہ کے اس اعتراض کا جواب بھی واضح ہوگیا جو ان الفاظ میں ہے : اس اطلاق میں جو خامی ہے وہ تمہیں معلوم ہے اس لئے کہ وہ منی و مذی دونوں کو شامل ہے۔ اور بلا شبہ اس سے منی بالاتفاق مراد نہیں تو لا محالہ مصنف نے یہ ذکر فرمایا کہ اگر اسے منی ہونے کا یقین ہے تو اس پر غسل ہے اھ۔ اور اس کی نظیریں کلامِ علماء میں ایک دو نہیں بہت ہیں۔(ت)
اور عامہ متون مذہب وجما ہیرا جلّہ عمائد کی تصریح ہے کہ صورت پنجم بھی مثل صورت چہارم ہمارے ائمہ میں مختلف فیہ ہے طرفین غسل واجب فرماتے ہیں اور امام ابو یوسف کا خلاف ہے رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین (۱)وقایہ (۲) ونقایہ (۳) واصلاح (۴) وغرر (۵) ونور الایضاح (۶) و تنویر الابصار (۷) و ملتقی الابحر (۸) و بدائع (۹) واسبیجابی (۱۰) و صدرالشریعۃ (۱۱) وحلیہ (۱۲) و غنیہ (۱۳) و ایضاح (۱۴) و درر (۱۵) و مراقی الفلاح (۱۶) وجوہرہ نیرہ (۱۷) و تبیین الحقائق (۱۸) و مستخلص (۱۹) و شمنی (۲۰) و مجمع الانہر (۲۱) و فتوائے امام اجل نجم الدین نسفی (۲۲) و جواہرالفتاوی للامام الکرمانی (۲۳) و خانیہ (۲۴) و سراجیہ (۲۵) و خجندی (۲۶) و بزازیہ (۲۷) و تجنیس (۲۸) و حصر (۲۹) و مختلف (۳۰) و ظہیریہ (۳۱) و خزانۃ المفتین (۳۲) و ارکان اربعہ اور شروح حدیث سے(۳۳) لمعات (۳۴) و مرقاۃ جزماً اسی طرف ہیں اور(۳۵) امام محقق علی الاطلاق نے بحثاً اُس کا افادہ فرمایا کما مر ویاتی بیانہ ان شاء اللّٰہ تعالٰی(جیساکہ گزرا اور اس کا بیان ان شاء اللہ تعالی آگے آئیگا۔ت)
وقایہ وشرح میں ہے:(رؤیۃ المستیقظ المنی والمذی وان لم یحتلم) امافی المنی فظاھر واما فی المذی فلاحتمال کونہ منیا رق بحرارۃ البدن وفیہ خلاف لابی یوسف ۱؎۔
(اور بیدار ہونے والے کا منی یا مذی دیکھنا اگرچہ احتلام یاد نہ ہو )منی میں تو وجہ ظاہر ہے ۔ مذی میں اس لئے کہ ہو سکتا ہے وہ منی رہی ہو جو بدن کی حرارت سے رقیق ہوگئی اور اس کے بارے میں امام ابویوسف کا اختلاف ہے ۔
(۱؎ شرح الوقایۃ کتاب الطہارۃ موجبات الغسل مکتبہ امدادیہ ملتان ۱/ ۸۲)
اصلاح وایضاح میں ہے:
(و رؤیۃ المستیقظ المنی اوالمذی وان لم یتذکر الاحتلام) فان ماظھر فی صورۃ المذی یحتمل ان یکون منیا رق بحرارۃ البدن او باصابۃ الھواء فمتی وجب من وجہ ما فالاحتیاط فی الایجاب وفیہ خلاف لابی یوسف ۲؎۔
(اوربیدار ہونے والے کا منی یا مذی کو دیکھنا ہے اگرچہ احتلام یاد نہ ہو) اس لئے کہ جو تری مذی کی صورت میں نظر آرہی ہے ہو سکتاہے کہ منی رہی ہو جو بدن کی حرارت سے یا ہوا لگنے سے رقیق ہوگئی ہو تو جب کسی صورت سے غسل کا وجوب ہوتاہے تو احتیاط واجب رکھنے ہی میں ہے اور اس میں امام ابویوسف کا اختلاف ہے۔ (ت)