Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱-۲(کتاب الطہارۃ)
11 - 135
فتاوٰی عالمگیریہ میں ہے :
ان رأی بللا الا انہ لم یتذکر الاحتلام فان تیقن انہ مذی لایجب الغسل وان شک انہ منی اومذی قال ابو یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی لایجب حتی یتیقن بالاحتلام وقالا یجب ھکذا ذکرہ شیخ الاسلام کذا فی المحیط ۱؎۔
اگر تری دیکھے مگر احتلام یاد نہ آئے تو اگر یقین ہے کہ تری مذی ہے تو غسل واجب نہیں۔اور اگر شک ہے کہ وہ منی ہے یا مذی ہے تو امام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ غسل واجب نہیں جب تک احتلام کا یقین نہ ہو۔اور طرفین نے فرمایا : واجب ہے۔ایسا ہی شیخ الاسلام نے ذکر کیا۔ایسا ہی محیط میں ہے۔(ت)
(۱؎ الفتاوی الہندیہ کتاب الطہارۃ ، الباب الثانی الفصل الثالث     نورانی کتب خانہ پشاور    ۱ /۱۵)
بحرالرائق میں ہے:
لایجب الغسل اتفاقاً فیما اذا تیقن انہ مذی ولم یتذکر الاحتلام۲؎۔
اس صورت میں بالاتفاق غسل واجب نہیں جب تری کے مذی ہونے کا یقین ہو اور احتلام یاد نہ ہو۔ (ت)
(۲؎ بحرالرائق    کتاب الطہارۃ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/ ۵۶)
درمختار میں دربارہ عدم تذکر احتلام ہے:
اذا علم انہ مذی فلا غسل علیہ اتفاقا ۳؎۔
جب یقین ہو کہ یہ تری مذی ہے بالاتفاق اس پر غسل نہیں۔(ت)
(۳؎ الدرالمختار     کتاب الطہارۃ        مطبع مجتبائی دہلی        ۱/ ۳۱)
ردالمحتار میں ہے:
لایجب اتفاقا فیما اذا علم انہ مذی مع عدم تذکر الاحتلام ۴؎۔
اس صورت میں بالاتفاق غسل واجب نہیں جب اسے یقین ہو کہ وہ مذی ہے اور احتلام یاد نہ ہو۔(ت)
(۴؎ ردالمحتار        کتاب الطہارۃ    دار احیاء التراث العربی بیروت        ۱/ ۱۱۰)
بعینہٖ اسی طرح منحۃ الخالق میں ہے، حاشیہ طحطاوی میں ہے:
اذا علم انہ مذی مع عدم التذکر لایجب الغسل اتفاقا ۱؎۔
جب یقین ہو کہ وہ مذی ہے اور احتلام یاد نہ ہو تو بالاتفاق غسل واجب نہیں۔(ت)
(۱؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار    کتاب الطہارۃ    المکتبۃ العربیۃ کوئٹہ        ۱/ ۹۳)
برجندی میں ہے:
ذکر فی المبسوط والمحیط والمغنی ھھنا تفصیلات وھو انہ اذا استیقظ ورأی بللا ولم یتذکر الاحتلام فان تیقن انہ مذی لایجب الغسل وان تیقن انہ منی یجب وان شک انہ مذی اومنی قال ابو یوسف لایجب وقالا یجب ۲؎۔
مبسوط، محیط اور مغنی میں یہاں کچھ تفصیلات ذکر کی ہیں ، وہ یہ کہ جب بیدار ہو کر تری دیکھے اور احتلام یاد نہ ہوتو اگر اسے یقین ہو کہ یہ منی ہے تو واجب اور اگر شک ہو کہ مذی ہے یا منی تو امام ابو یوسف نے فرمایا :غسل واجب نہیں ، اور طرفین نے فرمایا : واجب ہے ۔(ت)
(۲؎ شرح نقایہ للبرجندی        کتاب الطہارۃ     نولکشورلکھنؤ    ۱/ ۳۰)
رحمانیہ میں محیط سے ہے:
استیقظ فوجد علی فراشہ او فخذہ بللا ولم یتذکر الاحتلام فان تیقن انہ منی یجب الغسل والا لایجب وان شک انہ منی اومذی قال ابو یوسف لایجب الغسل ۳؎ اھ
بیدار ہونے کے بعد اپنے بستر یا ران پر تری پائی اور احتلام یاد نہیں تو اگر اسے یقین ہوکہ یہ تری منی ہے تو غسل واجب ہے ورنہ (اگر ایسا نہیں تو)واجب نہیں۔اور اگر شک ہو کہ منی ہے یا مذی تو امام ابو یوسف نے فرمایا:غسل واجب نہیں اھ ۔(ت)
(۳؎ رحمانیہ )
اقول:فی قولہ فـــ والا لایجب تدافع ظاھر مع مسألۃ الشک ولعل الجواب انھا حلت محل الاستثناء ویعکرہ لزوم ان لایجب وفاقا اذا شک انہ منی او ودی لانہ لم یستثن الا الشک فی المنی والمذی الا ان یقال ان المراد بالمذی غیر المنی وھو ظاھر البعد والاولی ان یقال ان اصل قولہ والا لایجب وان لامفصولا والتقدیر وان تیقن انہ لامنی لایجب۔
اقول:ان کی عبارت ''والا لایجب''ورنہ واجب نہیں میں مسألہ شک کے ساتھ کھلا ہوا ٹکراؤ ہے (اول سے معلوم ہوا کہ منی کایقین ہونے کی صورت میں۔جس میں صورتِ شک بھی داخل ہے۔ بالاتفاق غسل واجب نہیں، اور مسئلہ شک سے معلوم ہو اکہ طرفین کے نزدیک غسل واجب ہے)شاید اس کا یہ جواب دیا جائے کہ مسئلہ شک استثناء کے قائم مقام ہے ( یعنی صوتِ شک کے سوا اور صورتوں میں بالاتفاق غسل واجب نہیں ) مگراس جواب پر یہ اعتراض پڑتاہے کہ پھر لازم ہے کہ اس صورت میں بالاتفاق غسل واجب نہ ہو جب منی یا ودی ہونے میں شک ہو کیونکہ استثناء صرف منی اور مذی میں شک کی صورت کا ہوا۔ مگر اس کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ مذی سے مراد غیر منی ہے ، خواہ ودی ہی ہو۔ اور اس مراد کا بعید ہونا ظاہر ہے۔ اور بہتر یہ ہے کہ کہا جائے کہ ان کے قول ''والا لایجب'' کی اصل ''وان لا'' فصل کے ساتھ ہے، اور تقدیر عبارت یہ ہوگی کہ وان تیقن انہ لامنی ، لایجب ۔ اور اگر یقین ہو کہ وہ منی نہیں تو غسل واجب نہیں۔(ت)
شرح الکنز للعلامۃ مسکین میں ہے:
اذا لم یتذکر الاحتلام وتیقن انہ مذی فلاغسل علیہ ۱؎۔
جب احتلام یاد نہ ہواوریقین ہوکہ یہ تری مذی کی ہے تو اس پر غسل نہیں۔(ت)
(۱؎ شرح الکنزلملا مسکین علی ھامش فتح المعین کتاب الطہارۃ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۵۹)
ابو السعود میں ہے:
اما صور مالا یجب فیھا الغسل اتفاقا فاربعۃ (الی قولہ) الثالثۃ علم انہ مذی ولم یتذکر ۱؎۔
لیکن بالاتفاق غسل واجب نہ ہونے کی چار صورتیں ہیں - تیسری صورت یہ کہ مذی ہونے کا یقین ہو اور احتلام یاد نہ ہو۔(ت)
(۱؎ فتح المعین     کتاب الطہارۃ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/ ۵۸ و ۵۹)
حلیمی علی الدرر میں ہے:
لاغسل علیہ ان تیقن انہ مذی وکذا لوشک انہ مذی او ودی ولم یتذکر الاحتلام ۲؎۔
اس پر غسل واجب نہیں اگر اسے یقین ہو کہ یہ مذی ہے اسی طرح اگراسے شک ہو کہ مذی ہے یا ودی اور احتلام یاد نہ ہو۔( ت)
(۲؎ حاشیۃ الدررعلی الغررلعبد الحلیم         دار سعادت        ۱/ ۱۵)
فتح القدیر میں ہے :
مستیقظ وجد فی ثوبہ اوفخذہ بللا ولم یتذکر احتلاما لوتیقن انہ مذی لایجب اتفاقا لکن التیقن متعذر مع النوم ۳؎ اھ۔
بیدار ہونے والے نے اپنے کپڑے یا ران میں تری پائی اور احتلام یاد نہیں تو اگر اسے یقین ہوکہ وہ مذی ہے تو بالاتفاق غسل واجب نہیں ۔ لیکن سونے کے باوجود اس بات کا یقین متعذر ہے۔( ت)
(۳؎ فتح القدیر    کتاب الطہارات فصل فی الغسل        مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر        ۱/ ۵۴)
طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:
لایجب الغسل اتفاقا فیما اذا تیقن انہ مذی ولم یتذکر والمراد بالتیقن غلبۃ الظن لان حقیقۃ الیقین متعذرۃ مع النوم ۴؎۔
بالاتفاق غسل واجب نہیں اُس صورت میں جب کہ اسے یقین ہو کہ وہ مذی ہے اور احتلام یاد نہ ہو اور یقین سے مراد غلبہ ظن ہے اس لئے کہ حقیقت یقین باوجود نیند کے متعذر ہے ۔
(۴؎ حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح کتاب الطہارۃ    دارالکتب العلمیۃ بیروت    ص۹۹)
اقول:کانہ یشیر الی الجواب عما اورد المحقق وما کان المحقق لیغفل عن مثل ھذا وانما ھو لتحقیق انیق سنعود الیہ بتوفیق من لا توفیق الا من لدیہ۔
اقول:گویا یہ حضرت محقق کے اعتراض کے جواب کی طرف اشارہ ہے اور حضرت محقق اس طرح کی بات سے غافل رہنے والے نہیں دراصل ان کی عبارات ایک دلکش تحقیق کے پیش نظر ہے ، آگے ہم اس کی طرف لوٹیں گے اس کی توفیق جس کے سوا اور کسی سے توفیق نہیں۔(ت)
منیہ میں ہے:
ان تیقن انہ مذی فلا غسل علیہ اذا لم یتذکر الاحتلام ۱؎۔
اگر یقین ہوکہ وہ مذی ہے تواس پر غسل نہیں جب کہ احتلام یاد نہ ہو۔(ت)
(۱؎ منیہ المصلی    کتاب الطہارۃ    مکتبہ قادریہ جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور    ص۳۳)
مصفی میں ہے:
ان رای بللا ولم یتذکر الاحتلام ان تیقن انہ ودی او مذی لایجب الغسل وان تیقن انہ منی یجب وان شک انہ منی اومذی قال ابو یوسف لایجب حتی تیقن بالاحتلام وقالا یجب کذافی المحیط والمغنی ومبسوط شیخ الاسلام وفتاوی قاضی خان والخلاصۃ ۲؎ ۔
تری دیکھی اور احتلام یاد نہیں اگر یقین ہو کہ وہ ودی یا مذی ہے تو غسل واجب نہیں ۔اور اگر یقین ہو کہ منی ہے تو واجب ہے۔اور اگر شک ہو کہ منی ہے یا مذی تو امام ابو یوسف نے فرمایا : غسل واجب نہیں یہاں تک کہ احتلام کا یقین ہو اور طرفین نے فرمایا: واجب ہے ۔ ایسا ہی محیط ،مغنی،مبسوط شیخ الاسلام ، فتاوٰی قاضی خان اور خلاصہ میں ہے۔(ت)
(۲؎ مصفی)
حلیہ میں یہ کلام مصفی نقل کرکے فرمایا:
لیس فی الفتاوی الخانیۃ ولا الخلاصۃ ذلک کما ذکرہ مطلقا وکذا لیس فی محیط رضی الدین واما المغنی ومبسوط شیخ الاسلام فلم اقف علیہا ۳؎ اھ۔
فتاوی خانیہ اور خلاصہ میں یہ اس طرح نہیں جیسے انہوں نے مطلقاً ذکر کیا ہے ایسے ہی محیط رضی الدین میں بھی نہیں ، اور مغنی و مبسوط شیخ الاسلام سے متعلق مجھے اطلاع نہیں اھ۔(ت)
(۳؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)
Flag Counter