فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱-۲(کتاب الطہارۃ) |
وفی الحلیۃ وجوب الاغتسال فیما اذا تیقن کون البلل مذیا وھو متذکر الاحتلام باجماع اصحابنا علی ما فی کثیر من الکتب المعتبرۃ وفی المصفی ذکر فی الحصر والمختلف والفتاوی الظہیریۃ اذارای مذیا وتذکر الاحتلام لاغسل علیہ عند ابی یوسف فیحتمل ان یکون عن ابی یوسف روایتان۳؎ اھ مختصرا۔
اور حلیہ میں یہ ہے کہ اس صورت میں غسل واجب ہے جب یقین ہو کہ یہ تری مذی ہے اور اسے احتلام بھی یاد ہواس حکم پر ہمارے ائمہ کا اجماع ہے جیسا کہ بہت سی کتب معتبرہ میں مذکور ہے ۔اور مصفی میں یہ لکھا ہے کہ حصر ، مختلف اور فتاوٰی ظہیریہ میں ذکر کیا ہے کہ جب مذی دیکھے اور احتلام یاد ہو تو امام ابو یوسف کے نزدیک اس پر غسل نہیں۔ تو ہوسکتا ہے کہ امام ابو یوسف سے دوروایتیں ہوں اھ مختصراً ۔
(۳؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)
اقول: بل ثلث فـــ الاولی لا غسل بلا تذکر وان رأی منیا کما مرعن شرحی النقایۃ عن الامام علی الاسبیجابی''الثانیۃ لا الا بالمنی وان رأی المذی متذکرا و ھی''ھذہ والثالثۃ یغتسل فی التذکر باحتمال المذی ایضا وفی عدمہ بعلم المنی وھی الاظھر الاشھر ومرویۃ الاکثر بل عند رابعۃ نحوقولھما علی ما فی القھستانی عــــہ عن العیون وغیرھا واللّٰہ تعالٰی اعلم۔
اقول : بلکہ تین روایتیں(۱) احتلام یاد آئے بغیر غسل نہیں اگرچہ منی ہی دیکھ لے جیسا کہ امام علی اسبیجابی کے حوالے سے دونوں شرح نقایہ (قہستانی وبرجندی) سے نقل گزری ۔(۲) بغیر منی دیکھے غسل نہیں اگرچہ مذی دیکھے اور احتلام بھی یاد ہو۔یہی وہ اختلافی روایت ہے جس کا ذکر ہورہا ہے(۳) احتلام یاد ہونے کی صورت میں تری کے بارے میں مذی کا احتمال ہونے سے بھی غسل واجب ہے اور احتلام یاد نہ ہونے کی صورت میں جب تری کے منی ہونے کا یقین ہو تو غسل واجب ہے ۔یہی اظہر واشہر اور مرویِّ اکثر ہے ۔بلکہ امام ابو یوسف سے ایک چوتھی روایت قول طرفین کے مطابق بھی ہے۔ جیسا کہ قہستانی میں عیون وغیرہا کے حوالے سے نقل ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم (ت)
فــ: تطفل ما علی الحلیۃ والعلامۃ قاسم۔
عــہ حیث ذکرالوجوب عندھما بالمذی وان لم یتذکر ثم قال وکذا عند ابی یوسف اذا تذکرالاحتلام واما اذا لم یتذکر فلا غسل وفی العیون وغیرہ انہ واجب عندہ فلعل عنہ روایتین کما فی الحقائق۱؎اھ فالروایتان ھھنا عدم الوجوب بالمذی اذا لم یتذکر وھی المشہورۃ والوجوب بہ وان لم یتذکر وھی التی فی العیون وھی کما فی مذھبھما والروایتان فی قول العلامۃ قاسم والحلیۃ الوجوب بالمذی اذا تذکر وھی المشہورۃ وعدمہ بہ وان تذکر وھی التی فی العیون فروایتا العون والعیون علی طرفی نقیض ھذا مایعطیہ سوق القھستانی واللّٰہ اعلم بحقیقۃ الحال ۱۲ منہ (م)
اس میں یہ ذکر ہے کہ طرفین (امام اعظم و امام محمد کے نزدیک مذی سے غسل واجب ہے اگرچہ احتلام یاد نہ ہو پھر یہ بتایا کہ ایسا ہی امام ابو یوسف کے نزدیک بھی ہے جب کہ احتلام یاد ہو۔ اور یاد نہ ہو تو ان کے نزدیک غسل نہیں ۔اور عیون وغیرہ میں ہے کہ اس صورت میں بھی ان کے نزدیک غسل واجب ہے ۔توشاید ان سے دو روایتیں ہوں جیسا کہ حقائق میں ہے اھ۔ تویہاں پر دو روایتیں یہ ہوئیں(۱) مذی سے غسل واجب نہیں جب کہ احتلام یاد نہ ہو ، یہی مشہور روایت ہے (۲) مذی سے غسل واجب ہے اگرچہ احتلام یاد نہ ہو۔یہ وہ روایت ہے جو عیون میں ہے۔ اور یہ مذہب طرفین کے مطابق ہے۔اور علامہ قاسم اور حلیہ کے کلام میں جو روایتیں مذکور ہوئیں وہ یہ ہیں (۱) مذی سے غسل واجب ہے۔جب کہ احتلام یاد ہو۔یہ وہی مشہور روایت ہے(۲) مذی سے غسل واجب نہیں اگرچہ احتلام یاد ہو۔یہ وہ روایت ہے جو عیون میں مذکور ہے۔ تو عون اور عیون کی دونوں روایتیں بالکل ایک دوسری کی ضد ہیں۔قہستانی کے سیاق سے یہی حاصل ہوتاہے،اور حقیقتِ حال خدائے برترہی کو خوب معلوم ہے ۱۲منہ ۔(ت)
(۱؎ جامع الرموز کتاب الطہارۃ مکتبہ اسلامیہ گنبد قاموس ایران ۱ /۴۳)
اور اگر احتلام یاد نہیں تو امام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالٰی کے نزدیک ان تینوں صورتوں میں اصلا غسل نہیں
وھو الاقیس وبہ اخذ الامام الاجل العارف باللّٰہ خلف بن ایوب والامام الفقیہ ابو اللیث السمرقندی کما فی الفتح وغیرہ۔
اور یہی زیادہ قرین قیاس ہے۔اسی کو امام بزرگ عارف باللہ خلف بن ایوب اور امام فقیہ ابواللیث سمر قندی نے اختیارکیا ، جیساکہ فتح القدیر وغیرہ میں ہے ( ت) شکل اخیر یعنی ششم میں طرفین یعنی حضرت سیدنا امام اعظم وامام محمد رضی اللہ تعالٰی عنہما بھی امام ابویوسف کے ساتھ ہیں یعنی جہاں نہ منی کا احتمال نہ مذی کا یقین بلکہ مذی کا احتمال ہے غسل بالاتفاق واجب نہیں۔
فی رد المحتارلایجب اتفاقا فیما اذا شک فی الاخیرین (یعنی المذی والودی) مع عدم تذکر الاحتلام ۱؎۔
ردالمحتار میں ہے کہ بالاتفاق غسل واجب نہیں اس صورت میں جبکہ مذی و ودی میں شک ہو اور احتلام یاد نہ ہو۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۱۱۰)
اور شکل اول یعنی چہارم میں کہ منی کا احتمال ہو خواہ یوں کہ منی ومذی محتمل ہوں یا منی و ودی یا تینوں (اور ودی سے مراد ہر وہ تری کہ منی ومذی کے سوا ہو) ان سب صورتوں میں دونوں حضرات بالاتفاق روایات غسل واجب فرماتے ہیں۔
فی رد المحتار یجب عندھما فیما اذا شک فی الاولین (ای المنی والمذی) اوفی الطرفین (ای المنی والودی)اوفی الثلثۃ احتیاطا ولا یجب عند ابی یوسف للشک فی وجود الموجب ۲؎۔
رد المحتارمیں ہے :امام اعظم و امام محمد علیہما الرحمہ کے نزدیک احتیاطاً اس صورت میں غسل واجب ہے جب منی و مذی میں یا منی و ودی میں یا تینوں میں شک ہو۔اور امام ابو یوسف کے نزدیک واجب نہیں کیونکہ موجب کے وجود میں شک ہے۔(ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۱۱۰)
لیکن جہاں منی کے ساتھ مذی کا احتمال نہ ہو صرف ودی کا شبہہ ہو وجوب مطلق ہے اور جہاں مذی کا بھی شک ہو اُس میں ایک صورت کا استشناء،وہ یہ کہ اگر سونے سے کچھ پہلے اسے شہوت تھی ذکر قائم تھا اب جاگ کر تری دیکھی جس کا مذی ہونا محتمل ہے اور احتلام یاد نہیں تو اسے مذی ہی قرار دیں گے غسل واجب نہ کریں گے جب تک اس کے منی ہونے کا ظن غالب نہ ہو اور اگر ایسا نہ تھا یعنی نیند سے پہلے شہوت ہی نہ تھی یا تھی اور اُسے بہت دیر گزر گئی۔ مذی جو اس سے نکلنی تھی نکل کر صاف ہوچکی اس کے بعد سویا اور تری مذکور پائی جس کا منی ومذی ہونا مشکوک ہے تو بدستور صرف اسی احتمال پر غسل واجب کردیں گے منی کے غالب ظن کی ضرورت نہ جانیں گے، صور استثناء کہ مذکور ہوئے،یاد رکھئے کہ آئندہ اس پر بحث ہونے والی ہے ان شاء اللہ تعالٰی۔
اب رہی شکل ثانی یعنی پنجم کہ مذی کا یقین ہو اس میں طرفین رضی اللہ تعالٰی عنہما کے بیان مذہب میں علماء کا اختلاف شدید ہے بہت اکابر نے جزم فرمایا کہ اس صورت میں بھی مثل صورت ششم غسل واجب نہ ہونے پر ہمارے ائمہ ثلثہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کا اتفاق ہے(۱) مبسوط امام شیخ الاسلام بکر خواہر زادہ و(۲) محیط امام برہان الدین و(۳) مغنی و(۴)مصفی للامام النسفی و(۵) فتح القدیر نقلاً و (۶) منیۃ المصلی و (۷) شرح نقایہ للعلامۃ البرجندی و(۸)جامع الرموز للعلامۃ القہستانی و (۹)حاشیہ الفاضل عبدالحلیم الرومی علی الدرر والغرر و(۱۰)بحر الرائق و(۱۱) نہرالفائق و(۱۲) در مختار و(۱۳) حواشی الدر للسید الحلبی و(۱۴) السید الطحطاوی و(۱۵) السید الشامی و(۱۶) مسکین علی الکنز و(۱۷) فتح المعین للسید الازہری و (۱۸) تعلیقات ابیہ السید علی بن علی بن علی بن ابی الخیر الحسینی و(۱۹) رحمانیہ و(۲۰) ہندیہ و(۲۱) طحطاوی علی مراقی الفلاح و(۲۲) منحۃالخالق اسی طرف ہیں۔