بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
خلاصہ تبیان الوضوء
(وضو وغسل کے مسائل کامختصربیان )
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم ط
مسئلہ ۱۲: مسئولہ مولوی علی احمد صاحب مصنف تہذیب الصبیان ۱۵ جمادی الاولٰی ۱۳۱۴ھ
کیافرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ فرائض غسل جنابت جو تین ہیں ان میں مضمضہ واستنشاق واسا لۃ الماء علی کل البدن سے کیسا مضمضہ واستنشاق واسا لہ ماء مراد ہے، بینوا توجروا(بیان فرمائیے اجر پائیے۔ت)
الجواب
مضمضہ:سارے دہن کامع اس کے ہر گوشے پر زے کنج کے حلق کی حد تک دھلنا درمختارمیں ہے:
فرض الغسل غسل کل فمہ ۱؎
(غسل میں پورے منہ کو دھونافرض ہے۔( ت)
(۱؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۲۸)
ردالمحتارمیں ہے:
عبر عن المضمضۃ بالغسل لافادۃ الاستیعاب اھ۱؎ ۔
مضمضہ کی تعبیر غسل(دھونے) سے کی تاکہ احاطہ کرلینے کا افا دہ ہو۔اھ(ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الطہارت داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۱۰۲)
وفی افادتہ بنفس لفظ الغسل کلام قدمہ فی الوضوء والصحیح ان مفیدہ لفظ کل۔
صرف لفظ غسل سے احاطہ کاافادہ ہونے میں کلام ہے جو خود علامہ شامی وضو کے بیان میں ذکرکرچکے ہیں۔ اورصحیح یہ ہے کہ احاطہ کاافادہ لفظ''کل ''سے ہو رہا ہے۔
اقول:وعلی فـــ التسلیم فلیست دلالتہ علی الاستیعاب ظاھرۃ کدلالۃ کل فلا یرد ما قال ش لکن علی الاول لاحاجۃ الی زیادۃ کل ۲؎۔
اقول اگر یہ تسلیم بھی کرلیاجائے کہ لفظ غَسل (دھونا)احاطہ کوبتارہا ہے تو بھی احاطہ پر اس کی دلالت واضح نہیں جیسے اس معنی پرلفظ کل کی دلالت واضح ہے ۔تو وہ اعتراض نہ وارد ہوگا جو علامہ شامی نے کیا، کہ بر تقدیر اول 'لفظِ کل بڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔(ت)
فـــ: معروضہ علی العلامۃ ش۔
(۲؎ ردالمحتار کتاب الطہارت داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۱۰۲)
اسی میں بحرالرائق سے ہے:
المضمضۃ اصطلاحا استیعاب الماء جمیع الفم ۳؎۔
اصطلاح میں مضمضہ یہ ہے کہ پانی پورے منہ کا احاطہ کرے ۔(ت)
(۳؎ ردالمحتار کتاب الطہارت داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۷۸)
اور ہم نے دھلنا کہا دھونا نہ کہا اس لئے کہ طہارت میں کچھ اپنا فعل یا قصد شرط نہیں پانی گزرنا چاہئے جس طرح ہو۔
اقول: وبہ ظھر ان عبارۃ البحر احسن من عبارۃ الدرالا ان یجعل الغسل مبنیا للمفعول ای مغسولیۃ کل فمہ۔
اقول اور اسی سے ظاہر ہوا کہ عبارتِ بحر عبارتِ درمختار سے بہتر ہے مگر یہ کہ عبارتِ در میں لفظِ غَسل کو مصدر مجہول مانا جائے یعنی پورے منہ کا دُھل جانا۔(ت)
آج کل بہت بے علم اس مضمضہ کے معنی صرف کُلّی کے سمجھتے ہیں ،کچھ پانی منہ میں لے کر اُگل دیتے ہیں کہ زبان کی جڑ اور حلق کے کنارہ تک نہیں پہنچتا،یوں غسل نہیں اُترتا،نہ اس غسل سے نماز ہوسکے نہ مسجد میں جاناجائزہوبلکہ فرض ہے کہ داڑھوں کے پیچھے گالوں کی تہ میں دانتوں کی جڑ میں دانتوں کی کھڑکیوں میں حلق کے کنارے تک ہرپرزے پر پانی بہے یہاں تک کہ اگر کوئی سخت فـــ۱ چیز کہ پانی کے بہنے کو روکے گی دانتوں کی جڑ یا کھڑکیوں وغیرہ میں حائل ہو تو لازم ہے کہ اُسے جُداکرکے کُلّی کرے ورنہ غسل نہ ہوگا،ہاں اگر اُس کے جُدا فـــ۲ کرنے میں حرج و ضرر و اذیت ہو جس طرح پانوں کی کثرت سے جڑوں میں چونا جم کر متحجرہوجاتا ہے کہ جب تک زیادہ ہوکر آپ ہی جگہ نہ چھوڑ دے چھڑانے کے قابل نہیں ہو تا یاعورتوں کے دانتوں میں مسی کی ریخیں جم جاتی ہیں کہ ان کے چھیلنے میں دانتوں یا مسوڑھوں کی مضرت کا اندیشہ ہے تو جب تک یہ حالت رہے گی اس قدر کی معافی ہوگی فان الحرج مدفوع بالنص(اس لیےکہ نص سے ثابت ہے کہ جہاں حرج ہواسے دفع کیاجائے ۔ت)
فـــ۱:مسئلہ دانتوں کی جڑ یاکھڑکی میں سخت چیز جمی ہوتوچھڑا کرکلی کرنالازم ورنہ غسل نہ اترے گا۔
فـــ۲:مسئلہ چونایامسی کی ریخیں جن کے چھڑانے میں ضرر ہومعاف ہیں ۔
درمختار میں ہے :
لایمنع طعام بین اسنانہ اوفی سنہ المجوف بہ یفتی وقیل ان صلبا منع وھو الاصح ۱؎۔
کھانے کا ٹکڑا جو دانتوں کے درمیان یا خول دار دانت کے اندر ہو وہ مانع نہیں، اسی پر فتوٰی ہے۔ اور کہا گیاکہ اگر سخت ہو تو مانع ہے اور یہی اصح ہے۔(ت)
(۱؎ الدرالمختار کتاب الطہارۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۲۹)
ردالمحتار میں ہے:
قولہ بہ یفتی صرح بہ فی الخلاصۃ وقال لان الماء شیئ لطیف یصل تحتہ غالبا اھ ویرد علیہ ماقدمناہ اٰنفا (ای ان مجرد الوصول غیرکاف بل الواجب الاسالۃ والتقاطر) ومفادہ ای مفاد مافی الخلاصۃ عدم الجواز اذ اعلم انہ لم یصل الماء تحتہ(ای لان غلبۃ الوقوع لاتعارض العلم بعدم الوقوع) قال فی الحلیۃ وھواثبت قولہ وھو الاصح صرح بہ فی شرح المنیۃ وقال لامتناع نفوذ الماء مع عدم الضرورۃ والحرج اھ ولایخفی ان ھذا التصحیح لاینافی ماقبلہ ۱؎ اھ ملخصا مزیدا ما مابین الاھلۃ۔
عبارتِ شارح ''اسی پر فتوٰی ہے ''خلاصہ میں اس کی تصریح ہے،اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ : وجہ یہ ہے کہ پانی لطیف شے ہے غالب یہی ہے کہ اس کے نیچے پہنچ جائے گا اھ۔اس پر وہ اعتراض وارد ہوگا جو ابھی ہم نے ذکر کیا( یعنی یہ کہ محض پہنچناکافی نہیں ، بلکہ بہانا اور قطرے ٹپکنا واجب ہے) اور اس کا مفاد( یعنی کلامِ خلاصہ کا مفاد) یہ ہے کہ اگر معلوم ہوجائے کہ نیچے پانی نہ پہنچا تو جواز نہ ہوگا(یعنی اس لئے کہ جب یقین ہو کہ اس خاص حالت میں وقوع نہ ہواہو تواکثر حالات میں واقع ہونااس کے معارض نہیں ہوسکتا)حلیہ میں کہا :یہ اثبت ہے۔ عبارت شارح''یہی اصح ہے ''اس کی تصریح شرح منیہ میں کی۔اور یہ بھی لکھا کہ وجہ یہ ہے کہ سخت ہونے کی صورت میں پانی نفوذ نہ کرسکے گااور ضرورت و حرج کی صورت بھی نہیں اھ ۔ مخفی نہیں کہ یہ تصحیح اگلی تصحیح کے منافی نہیں۔ رد المحتار کی عبارت ہلالین کے درمیان ہمارے اضافوں کے ساتھ ختم ہوئی ۔
(۱؎ رد المحتار کتاب الطہارۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۱۰۴)