Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱-۱(کتاب الطہارۃ)
9 - 123
السابعۃ فـاذا اختلف التصحیح تقدم قول الامام الاقدم فی ردالمحتار قبل ما یدخل فی البیع تبعا اذا اختلف التصحیح اخذ بما ھو قول الامام لانہ صاحب المذھب ۱؎ اھ
جب تصحیح میں اختلاف ہو تو امام اعظم کا قول مقدم ہوگا
''رد المحتا ر'''' مایدخل فی البیع تبعا''
 (بیع میں تبعا داخل ہونے والی چیزوں کا بیان ) سے پہلے یہ تحر یر ہے : جب تصحیح میں اختلاف ہو تو اسی کو لیا جائے گا جو امام کا قول ہے اس لئے کہ صا حب مذہب وہی ہے اھ
 (۱؎ ردالمحتار کتاب البیوع دار احیاء التراث العربی بیروت ۴ / ۳۳)
ف : عند اختلاف تصحیح یقدم قول الامام،
وقال فی الدر فی وقف البحر وغیرہ متی کان فی المسألۃ قولان مصححان جاز القضاء والافتاء باحدھما ۲؎ اھ
د ر مختار میں ہے کہ، البحر الرائق کتاب الوقف وغیرہ میں لکھا ہوا ہے کہ جب کسی مسئلہ میں دو قول تصحیح یا فتہ ہوں تودونوں میں سے کسی پر بھی قضا وافتا جائز ہے اھ ،
 (۲؎ الدر المختار رسم المفتی مطبوعہ مجتبائی دہلی ۱ / ۱۴)
فقال العلامۃ ش لا تخییر لوکان احدھما قول الامام والاٰخر قول غیرہ لانہ لما تعارض التصحیحان تساقطا فرجعنا الی الاصل وھو تقدیم قول الامام بل فی شہادات الفتاوی الخیریۃ المقرر عندنا انہ لایفتی ولا یعمل الا بقول الامام الاعظم ولا یعدل عنہ الی قولہما او قول احدھما او غیرھما الالضرورۃ کمسألۃ المزارعۃ وان صرح المشائخ بان الفتوی علی قولھما لانہ صاحب المذھب والامام المقدم ۳؎ اھ
اس پر علامہ شامی نے لکھا کہ یہ تخییر اس صورت میں نہیں جب دونوں قولوں میں ایک قول امام ہو اور دوسرا کسی اور کا قول ہو. اسلئے کہ جب دو نوں تصحیحوں میں تعا رض ہوا تو دونوں ساقط ہوگئیں اب ہم نے اصل کی جانب رجوع کیا ، اصل یہ ہے کہ قول امام مقدم ہوگا بلکہ فتا وی خیر یہ کتاب الشہادات میں ہے کہ  ہمارے نزدیک طے شدہ امر یہ ہے کہ فتوی او ر عمل امام اعظم ہی کے قول پر ہوگا اسے چھوڑ کر صاحبین یا ان میں سے کسی ایک ، یا کسی اور کا قول اختیار نہ کیا جائے گا بجز صورت ضرورت کے ، جیسے مسئلہ مزار عت میں ہے ، اگرچہ مشائخ نے تصریح فرمائی ہو کہ فتو ی قول صاحبین پر ہے ، اس لئے کہ وہی صاحب مذہب اور امام مقدم ہیں اھ،
 (۳؎الدر المختار رسم المفتی دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ / ۴۹  )
ومثلہ فی البحر وفیہ یحل الافتاء بقول الامام بل یجب وان لم یعلم من این قال ۱؎ اھ
اسی کے مثل بحر میں بھی ہے ، اس میں یہ بھی ہے کہ قول امام پر افتا جائز بلکہ واجب ہے اگر چہ یہ معلوم نہ ہو کہ ان کی دلیل اور ماخذ کیا ہے اھ
 (۱؎ البحرالرائق کتاب القضاء فصل یجوز تقلید من شاء الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۶ / ۲۶۹)
اذا عرفت ھذا وضح لک کلام البحر وطاح کل ماردبہ علیہ وان شئت التفصیل المزید، فالق السمع وانت شھید
ان مقدمات وتفصیلا ت سے آگاہی کے بعد آغا ز رسالہ میں نقل شدہ کلام بحر کا مطلب روشن وواضح ہوگیااور جو کچھ اس کی تردید میں لکھا گیا بیکار و بے ثبات ٹھہرا مزید تفصیل کا اشتیاق ہے تو بگوش ہوش سماعت ہو ۔
قول ش رحمہ اللہ تعالی لا یخفی علیک مافی ھذا الکلام من عدم الانتظام ۱؎
علامہ شامی رحمہ اللہ تعالی کے اس کلام کی بے نظمی ناظر ین پر مخفی نہیں ۔
 (۱؎ البحرالرائق کتاب القضاء فصل یجوز تقلید من شاء الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۶ / ۲۶۹)
اقول : بل ھو متسق النظام اٰخذ بعضہ بحجز بعض کما ستری ،
اقول:  نہیں بلکہ پورا کلام مربو ط و مبسوط ، ایک دوسرے کی گرہ تھامے ہوئے ہے جیسا کہ ابھی عیاں ہوگا
قول العلامۃ الخیر قولہ مضاد لقول الامام ۲؎
قول علامہ خیر رملی ، اس کلام او رکلام امام میں تضا د ہے۔
 (۲؎ شرح عقود رسم المفتی رسالہ من رسائل ابن عابدین سہیل اکیڈمی لاہور ۱ / ۲۹ )
اقول: تعرف فــــ بالرابعۃ ان قول الامام فی الفتوی الحقیقۃ فیختص باھل النطر لامحمل لہ غیرہ والا کان تحریما للفتوی العرفیۃ مع حلہا بالا جماع وفی قضاء منحۃ الخالق عن الفتاوی الظھیریۃ روی عن ابی حنیفۃ رضی اللہ تعالی عنہ انہ قال لا یحل لاحد ان یفتی بقولنا مالم یعلم من این قلنا وان لم یکن من اھل الاجتہاد لایحل لہ ان یفتی الابطریق الحکایۃ ۱؎ اھ
اقول : مقدمہ چہارم سے معلوم ہوا کہ قول امام فتوے حقیقی سے متعلق ہے ، تو وہ قول صرف اہل نظر کے حق میں ہے ، اس کے سوا ان کے کلام کا اور کوئی معنی ومحمل نہیں ورنہ لازم آئیگا کہ امام نے فتوے عرفی کو حرام کہا ، حالاں کہ وہ بالاجماع جائز وحلال ہے ، منحۃ الخالق کتاب القضا ء میں فتاوی ظہیریہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کسی کے لئے ہمارے قول پر فتوی دینا روا نہیں جب تک یہ نہ جان لے کہ ہم نے کہا ں سے کہا ، اور اگر اہل اجتہا د نہ ہو اس کے لئے فتوی دینا جائز نہیں مگر نقل وحکایت کے طور پر فتوی دے سکتا ہے ۔
 (۱؎ منحۃ الخالق علی البحرا لرائق کتاب القضاء فصل یجوز تقلید من شاء الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۶ /۲۶۹)
فـــــ : تطفل علی العلامۃ الخیر الرملی وعلی ش۔
وقول البحر فی الفتوی العرفیۃ لامحمل لہ سواہ لقولہ اما فی زماننا فیکتفی بالحفظ وقولہ وان لم نعلم وقولہ یجب علینا الافتاء بقول الامام وقولہ اما نحن فلنا الافتاء فاین التضاد ولم یردا موردا واحدا۔
اور بحر کا کلام فتوائے عرفی سے متعلق ہے ، اس کے سوا اس کا کوئی اور معنی ومحمل نہیں ، دلیل میں ان کے یہ الفا ظ دیکھیں (۱)لیکن ہمارے زمانے میں بس یہی کافی ہے کہ ہمیں امام کے اقوال حفظ ہوں (ب) اگر چہ ہمیں دلیل معلوم نہ ہو (ج)قول اما م پر فتو ی دینا ہم پر واجب ہے (د) اما نحن فلنا الافتاء ،مگر ہم فتوے دے سکتے ہیں الخ، اب بتائے جب دونوں کلام کا مورد و محل ایک نہیں ہے تو تضا د کہا ں سے ہوا؟
قولہ ھو صریح فی عدم جوازالافتاء لغیر اھل الاجتہاد فکیف یستدل بہ علی وجوبہ۲؎
خیر رملی ، قول امام سے صراحۃ واضح ہے کہ اہلیت اجتہاد کے بغیر فتوی دینا ناجائز ہے ، پھر اس سے وجوب افتا ء پر استدلال کیسے ؟
 (۲؎ شرح عقود ر سم المفتی رسالہ من رسائل ابن عابدین سہیل اکیڈمی لاہور ۱ / ۲۹)
اقول : نعم صریح فــــــ فی عدم جواز الحقیقی ونشوء الحرمۃ والجواز معاعن شیئ واحد فرغنا عنہ فی الثالثہ َ
ہاں اس سے فتوے حقیقی کا عدم جواز صراحۃ واضح ہے (اور بحر میں فتوائے عرف کا وجوب مذکور ہے )اب رہا یہ کہ ایک ہی چیز سے دوسری چیز کی حرمت وحلت دونوں کیسے پیداہوسکتی ہیں ؟ اس کی تحقیق ہم مقدمہ سوم میں کر آئے ہیں
فـــــ : تطفل علی الخیر وعلی ش
Flag Counter