Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱-۱(کتاب الطہارۃ)
8 - 123
الــسـادسۃ فـــــــ حامل اٰخر علی العدول عن قول الامام مختص باصحاب النظر وھو ضعف دلیلہ۔اقول ای فی نظرھم وذلک لانھم مأمورون باتباع مایظھر لھم قال تعالی
" فاعتبروا یاولی الابصار۱؎ "
ولا تکلیف الا بالوسع فلا یسعھم الا العدول ولا یخرجون بذلک عن اتباع الامام بل متبوعون لمثل قولہ العام اذا صح الحدیث فھو مذھبی، ففی شرح الھدایۃ لابن الشحنۃ ثم شرح الاشباہ لبیری ثم ردالمحتار "اذا صح الحدیث وکان علی خلاف المذھب عمل بالحدیث ویکون ذلک مذھبہ ولا یخرج مقلدہ عن کونہ حنفیا بالعمل بہ فقد صح عنہ انہ قال اذا صح الحدیث فھو مذھبی ۲؎ ھ
مقدمہ ششم : قول امام چھوڑ نے کا ایک اور با عث ہے جو اصحاب نظر کے لئے خاص ہے ۔ وہ یہ ہے کہ اس کی دلیل کمزور ہو ، اقول یعنی  ان حضرات کی نظر میں کمزور ، ان کے لئے یہاں قول امام چھوڑنے کا جواز اس لئے ہے کہ انہیں اسی کی اتباع کا حکم ہے جو ان پر ظاہر ہو ،باری تعالی کا ارشاد ہے : اے بصیرت والو! نظر و اعتبار سے کام لو۔ اور تکلیف بقدر وسعت ہی ہوتی ہے، تو ان کے لئے چھوڑنے کے سوا کوئی گنجائش نہیں ۔ اور وہ اس کے باعث اتباع امام سے باہر نہ ہونگے ، بلکہ امام کے اس طرح کے قول عام کے متبع رہیں گے ، اذا صح الحدیث فھو مذھبی جب حدیث صحیح ہوجائے تو وہی میرا مذہب ہے ابن شخنہ کی شرح ہدایہ ، پھر بیری کی شرح اشباہ پھر رد المحتار میں ہے جب حدیث صحیح ہو اور مذہب کے خلاف ہو تو حدیث پر عمل ہوگا اور وہی امام کا بھی مذہب ہوگا اس پر عمل کی وجہ سے ان کا مقلد حنفیت سے باہر نہ ہوگا اس لئے کہ خود امام سے بروایت صحیح یہ ارشاد ثابت ہیں کہ جب حدیث صحیح مل جائے تو وہی میرا مذہب ہے اھ،
 (۱؎ القرآن     ۵۹ /۲)(۲؎ ردالمحتار     مقدمۃ الکتاب مطلب صح عن الامام انہ قال اذا صح الحدیث الخ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ / ۴۶ )
ف : العدول عن قولہ بدعوی ضعف دلیلہ خاص بالمجتہدین فی المذھب و ھم لایخرجون بہ عن المذھب .
اقول:  (۱) یریدفـــ الصحۃ فقھا ویستحیل معرفتھا الا للمجتہد لاالصحۃ المصطلحۃ عندالمحد ثین کما بینتہ فی الفضل الموھبی بدلائل قاھرۃ یتعین استفاد تھا قال ش فاذ ا نظر اھل المذھب فی الدلیل وعملوا بہ صح نسبتہ الی المذھب لکونہ صادرا باذن صاحب المذھب اذ لا شک انہ لو علم ضعف دلیلہ رجع عنہ واتبع الدلیل الاقوی ولذارد المحقق ابن الھمام علی بعض المشائخ (حیث) افتوا بقول الامامین بانہ لایعدل عن قول الامام الالضعف دلیلہ اھ۱؎
اقول : یہاں صحت سے صحت فقہی مراد ہے جس کی معرفت غیر مجتہد کے لئے محال ہے اصطلاح محدثین والی صحت مراد نہیں ، جیسا کہ میں نے الفضل الموھبی میں اسے ایسے قاہر دلائل سے بیان کیا ہے جن سے آگاہی ضروری ہے۔  علامہ شامی فرماتے ہیں ، جب اہل مذہب نے دلیل میں نظر کی او ر اس پر کار بند ہوئے تو مذہب کی جانب اسے منسوب کرنا بجا ہے اس لئے کہ یہ صاحب مذہب کے اذن ہی سے ہوا کیونکہ انہیں اگر اپنی دلیل کی کمزوری معلوم ہوتی تو یقینا وہ اس سے رجوع کر کے اس سے زیادہ قوی دلیل کی پیروی کرتے اسی لئے جب بعض مشائخ نے صاحبین کے قول پر فتوی دیا تو محقق ابن الہمام نے ان کی تردید فرمائی کہ امام کے قول سے انحراف نہ ہوگا سوا اس صورت کے کہ اس کی دلیل کمزور ہو۔
 (۱؎ ردالمحتار مقدمۃ الکتاب مطلب صح عن الامام انہ قال اذا صح الحدیث الخ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ / ۴۶)
فـ: المراد فی اذا صح الحدیث فھو مذھبی ھی الحجۃ الفقھیۃ و لاتکفی الاثریۃ
اقول:  ھذا فــــ غیر معقول ولا مقبول وکیف یظھر ضعف دلیلہ فی الواقع لضعفہ فی نظر بعض مقلدیہ وھؤلاء اجلۃ ائمۃ الاجتھاد المطلق مالک والشافعی واحمد ونظراؤھم رضی اللہ تعالی عنہم یطبقون کثیرا علی خلاف الامام وھو اجماع منھم علی ضعف دلیلہ ثم لا یظھر بھذا ضعفہ ولا ان مذھب ھؤلاء مذھبہ فکیف بمن دونھم ممن لم یبلغ رتبتھم نعم ھم عاملون فی نظرھم بقولہ العام فمعذرون بل ماجورون ولا یتبدل فــــــ بذلک المذھب الاتری ان تحدیدا الرضاع بثلثین شھرا دلیلہ ضعیف بل ساقط عند اکثرالمرجحین ولا یجوز لاحدان یقول الاقتصار علی عامین مذھب الامام وتحریم حلیلۃ الاب والابن رضاعا نظر فیہ الامام البالغ رتبۃ الاجتھاد المحقق علی الاطلاق وزعم ان لا دلیل علیہ بل الدلیل قاض بحلھما ولم ارمن اجاب عنہ وقد تبعہ علیہ ش فھل یقال ان تحلیلھما مذھب الامام کلابل بحث  من ابن الھمام ،
اقول:  یہ ناقابل فہم اور ناقابل قبول ہے بعض مقلدین کی نظر میں دلیل کے کمزور ہونے سے دلیل امام کا فی الواقع کمزور ہونا کیسے ظاہر ہوسکتا ہے ؟ اجتہاد مطلق کے حامل یہ بزرگ ائمہ مالک ، شافعی ، احمد اور ان کے ہم پایہ حضرات رضی اللہ تعالی عنہم بار ہا مخالفت امام پر متفق نظر آتے ہیں یہ ان حضرات کا اس بات پر اجماع ہے کہ اس جگہ دلیل امام کمزور ہے ، پھر بھی اس سے واقعۃ اس کا کمزور ہونا ثابت نہیں ہوتا ، نہ ہی یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان حضرات کا جو مذہب ہے وہی امام کا بھی مذہب ہے ، جب ان کا یہ معاملہ ہے تو ان کا کیا حکم ہوگا جو ان سے فر و تر ہیں جنہیں ان کے منصب تک رسائی حاصل نہیں؟  ہاں وہ اپنی نظر میں امام کے قول عام پر عامل ہیں اس لئے معذور بلکہ ماجورا ور مستحق ثواب ہیں مگراس وجہ سے مذہب امام بدل نہ جائے گا ، دیکھئے مدت رضاعت تیس ماہ ٹھہرانے کی دلیل اکثر مرجحین کے نزدیک ضعیف بلکہ ساقط ہے پھر بھی کوئی یہ نہیں کہہ سکتاکہ دوسال پر اکتفا کرنا ہی مذہب امام ہے ، یوں ہی رضاعی باپ اور رضاعی بیٹے کی بیوی کے حرام ہونے کے حکم میں رتبہ اجتہاد تک رسائی پانے والے امام محقق علی الاطلاق کو کلام ہے ، ان کا خیال ہے کہ اس پر کوئی دلیل نہیں بلکہ دلیل یہ حکم کرتی ہے کہ دو نوں حلال ہیں ، میں نے اس کلام کا جواب کسی کتاب میں نہ دیکھا ، علامہ شامی نے بھی انہی کی پیروی کی ہے ، پھر بھی کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان دونوں کی حلت ہی مذہب امام ہے ؟ہر گز نہیں ! بلکہ یہ صرف ابن الہمام کی ایک بحث ہے ۔
ف : معروضۃ علی العلامۃ ش 

ف:لایتبدل المذھب بتصحیحات المرجحین خلافہ
ولیس فـــ۱ فیما ذکر عن ابن الھمام المام الی ما ادعی من صحۃ جعلہ مذھب الامام انما فیہ جواز العدول لھم اذا استضعفوا دلیلہ واین ھذا من ذاک نعم فی الوجوہ السابقۃ تصح النسبۃ الی المذھب لاحاطۃ العلم بانہ لو وقع فی زمنہ لقال بہ کما قال فی التنویر لمسألۃ نھی النساء مطلقا عن حضور المساجد علی المذھب وھذہ نکتۃ غفل فـــ۲ منھا المحقق ش ففسر المذھب مذھب المتأخرین ھذا واما نحن فلم نؤمر لابا عتبار کاولی الابصار بل بالسؤال والعمل بما یقولہ الامام غیر باحثین عن دلیل سوی الاحکام فان کان العدول للوجوہ السابقۃ اشترک فیہ الخواص والعوام اذ لا عدول حقیقۃ بل عمل بقول الامام وانکان لدعوی ضعف الدلیل اختص بمن یعرفہ و لذا قال فی البحر قد وقع للمحقق ابن الھمام فی مواضع الرد علی المشائخ فی الافتاء بقولہما بانہ لایعدل عن قولہ الا لضعف دلیلہ لکن ھو (ای المحقق) اھل للنظر فی الدلیل ومن لیس باھل للنظر فیہ فعلیہ الافتاء بقول الامام اھ ۱؎
علامہ شامی نے جو دعوی کیا کہ صاحب نظر جس پر عمل کر لے اسے مذہب امام قرار دینا بجا ہوگا اس کا امام ابن الہمام سے نقل کردہ کلام میں کوئی اشارہ بھی نہیں اس میں تو بس اس قدر ہے کہ اہل نظر کو جب قول امام کی دلیل کمزورمعلوم ہو تو ان کے لئے اس سے انحراف جائز ہے ، کہاں یہ ، اور کہاں وہ ؟ہاں سابقہ چھ صورتوں میں مذہب امام کی طر ف انتساب بجا ہے اس لئے کہ وہاں اس با ت کو پورے طور سے یقین ہے کہ وہ حالت اگر ان کے زمانے میں واقع ہوتی تو وہ بھی اسی کے قائل ہوتے ، جیسا کہ تنویر الابصارمیں مسجدوں کی حاضر ی سے عورتو ں کی مطلقا ممانعت کے مسئلے میں '' علی المذہب''(بر بنائے مذہب) فرمایا محقق شامی کو اس نکتے سے غفلت ہوئی اس لئے انہوں نے مذہب کی تفسیر میں '' مذہب متاخرین '' لکھ دیا ، یہ ذہن نشین رہے ۔ اوپر کی گفتگواہل نطر سے متعلق تھی ، رہے ہم لوگ تو ہمیں اہل نظر کی طر ح نظر و اعتبار کا حکم نہیں بلکہ ہم اس کے مامور ہیں کہ احکام کے سوا کسی دلیل کی جستجو اور چھان بین میں نہ جاکر صرف قول امام دریافت کریں اور اس پر کاربند ہوجائیں ، اب اگر قول امام سے عدول و انحراف سابقہ چھ وجہو ں کے تحت ہے تو اس میں خواص وعوام سب شریک ہیں کیونکہ حقیقۃ یہاں انحراف نہیں بلکہ قول امام پر عمل ہے اور اگر ضعف دلیل کے دعوے کی وجہ سے انحراف ہو تو یہ اہل معرفت سے خاص ہے ، اسی لئے بحر میں رقم طراز ہیں کہ محقق ابن الہما م کے قلم سے متعد د مقامات پر قول صاحبین پر فتوی دینے کی وجہ سے مشائخ کا رد ہو اہے وہ لکھتے ہیں کہ قول امام سے انحراف نہ ہوگا بجز اس صورت کے کہ اس کی دلیل کمزور ہو ، لیکن وہ محقق موصوف دلیل میں نظر کی اہلیت رکھتے ہیں ، جو اس کا اہل نہ ہو اس پر تو یہی لازم ہے کہ قول امام پر فتوے دے اھ۔
فـــ ۱ : معروضۃ علیہ

فـــ ۲ : معروضۃ علیہ
 (۱؎ بحرالرائق کتاب القضاء فصل یجوز تقلید من شاء الخ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۶ /۲۷۰)
Flag Counter