وقد عد فی العقود مسائل کثیرۃ من ھذا الجنس ثم احال بیان کثیر اُخر علی الاشباہ ثم قال ( فھذہ )کلھا قد تغیرت احکامھا لتغیر الزمان اما للضرورۃ واما للعرف واما لقرائن الاحوال قال وکل ذلک غیر خارج عن المذھب لان صاحب المذھب لو کان فی ھذا الزمان لقال بھا ولحدث ھذا التغیر فی زمانہ لم ینص علی خلافھا، قال وھذا الذی جرأ المجتھدین فی المذھب واھل النظر الصحیح من المتأخرین علی مخالفۃ المنصوص علیہ من صاحب المذھب فی کتب ظاھر الروایۃ بناء علی ماکان فی زمنہ کما تصریحھم بہ ۱؎ الخ
عقود میں ایسے بہت سے مسائل شمار کرائے اور بکثرت دیگر مسائل کے لئے اشباہ کا حوالہ دیا، پھر یہ لکھاکہ یہ سارے مسائل ایسے ہیں جن کے احکام تغیر زمان کی وجہ سے بدل گئے یا تو ضرورت کے تحت ، یا عرف کی وجہ سے ، یا قرائن احوال کے سبب ، فرمایا: اور یہ سب مذہب سے باہر نہیں ، اس لئے کہ صاحب مذہب اگر اس دور میں ہوتے تو ان ہی کے قائل ہوتے ، اور اگر یہ تبدیلی ان کے وقت میں رونما ہوتی تو ان احکام کے بر خلاف صراحت نہ فرماتے ، فرمایا ، اسی بات نے حضرات مجتہدین فی المذہب اور متا خرین میں سے اصحاب نظر صحیح کے اندر یہ جرات پیدا کی کہ وہ اس حکم کی مخالفت کر یں جس کی تصریح خود صاحب مذہب سے کتب ظاہر الروایہ میں موجود ہے ، یہ تصریح ان کے زمانے کے حالات کی بنیاد پر ہے جیسا کہ اس سے متعلق ان کی تصریح گزرچکی ہے الخ۔
(۱؎ شرع عقود رسم المفتی رسالہ من رسائل ابن عابدین سہیل اکیڈمی لاہور ۱/ ۴۵ )
اقول: بل ربما یقع نظیر ذلک فیٖ نص الشارع صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فقدفــــــــــ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا استأذنت احدکم امرأتہ الی المسجد فلا یمنعنھا رواہ احمد والبخاری۱؎
اقول: بلکہ اس کی نظیر خود نص شارع علیہ الصلوۃ والسلام میں بھی ملتی ہے خود حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے جب تم میں سے کسی کی بیوی مسجد جانے کی اجازت مانگے تو وہ ہر گز اسے نہ روکے ، (احمد ، بخار ی ، مسلم ، نسائی )
ف : انہیں وجوہ صحیح اور مؤکد احادیث کا خلاف کیا جاتا ہے اور وہ خلاف نہیں ہوتا جیسے عورتوں کا جماعت اور جمعہ و عیدین میں حاضر ہونا کہ زمانہ رسالت میں حکم تھا اور اب مطلقا منع ہے۔
(۱؎ صحیح للبخاری کتاب الاذان باب الاستیذان المرأۃ لزوجہا الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۲۰)
(صحیح مسلم کتاب الصلوۃ باب خروج النساء الی المسجد قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۱۸۳ )
(مسند احمد بن حنبل عن ابن عمر المکتب الاسلامی بیروت ۲ / ۷)
(سنن النسائی کتاب المساجد النہی عن منع النساء الخ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ۱ / ۱۱۵)
ومسلم والنسائی وفی لفظ لاتمنعوا اماء اللہ مساجد اللہ رواہ احمد۲؎ ومسلم کلھم عن ابن عمر رضی اللہ تعالی عنھما وبالثانی رواہ احمد وابو داود وعن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ عن النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بزیادۃ ولیخرجن تفلات۳؎
اور ایک روایت کے الفاط یہ ہیں : اللہ کی بندیوں کو مسجدوں سے نہ روکو ، اس کے راوی اما م احمد ومسلم ہیں اور یہ سبھی حضرات ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے راوی ہیں ، اور بلفظ دوم : ولیخرجن تفلات (اور وہ خوشبو لگائے بغیر نکلیں )کے اضافے کے ساتھ امام احمد وابوداؤد نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی۔
( ۲؎ صحیح مسلم کتاب الصلوۃ باب خروج النساء الی المساجد قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ / ۱۸۳)
(مسند احمد بن حنبل عن ابن عمر المکتب لاسلامی بیروت ۲ / ۱۶)
(۳ ؎سنن ابی داؤد کتاب الصلوۃ باب ماجاء خروج النساء الی المساجد آفتاب عالم پریس لاہور ۱ / ۸۴ )
(مسند احمد بن حنبل عن ابی ہریرہ مکتب الاسلامی ۲ / ۴۳۸، ۴۷۵، ۵۲۸)
وقد امر صلی اللہ تعالی علیہ وسلم باخراج الحیض وذوات الخدوریوم العیدین فیشھدن جماعۃ المسلمین ودعوتھم وتعتزل الحیض المصلی قالت امرأۃ یا رسول اللہ احدٰنا لیس لھا جلباب قال صلی اللہ تعالی علیہ وسلم تلبسھا صاحبتھا من جلبا بھا ۱؎ رواہ البخاری ومسلم واٰخرون عن ام عطیۃ رضی اللہ عنھا ،
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی حکم دیا کہ رو ز عیدین حیض والی اور پردہ نشین عورتوں کو باہر لائیں تا کہ وہ مسلمانوں کی جماعت ودعا میں شریک ہوں اور حیض والی عورتیں عید گاہ سے الگ رہیں ، ایک خاتون نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہماری بعض عورتوں کے پاس چادر نہیں حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا ساتھ والی عورت اسے اپنی چادر کا ایک حصہ اڑھا دے ، اسے بخاری ومسلم اور دیگر محدثین نے حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کیا
(۱؎ صحیح البخاری کتاب الحیض باب شہود الحائض العیدین قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ / ۴۶ )
(صحیح مسلم کتاب العیدین فصل فی اخراج العواتق و ذوات الخدور الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ / ۲۹۱ )
ومع فـــ ذلک نھی الائمۃ الشواب مطلقا والعجائز نھارا ثم عمموا النھی عملا بقولہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم الضروری المستفاد من قول ام المؤمنین الصدیقۃ رضی اللہ تعالی عنہا لو ان رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم رأی من النساء مارأینا لمنعھن من المسجد کما منعت بنو اسرائیل نساء ھارواہ احمد والبخاری ۱؎ ومسلم ،
اس کے با وجود ائمہ کرام نے جوان عورتوں کو مطلقا اور بوڑھی عورتوں کو صرف دن میں مسجد جانے سے منع فرمایا ، پھر سب کے لئے ممانعت عام کردی ، یہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے اس قول ضروری پر عمل کے تحت کیا جو ام المومنین حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کے درج ذیل بیان سے مستفاد ہے :اگر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ان عورتوں کا وہ حال مشاہدہ کر تے جو ہم نے مشاہدہ کیا تو انہیں مسجد سے روک دیتے جیسے بنی اسرائیل نے اپنی عورتوں کو روک دیا ، (احمد ، بخاری ، مسلم)
(۱؎ صحیح بخاری کتاب الاذان باب خروج النساء الی المساجد باللیل قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۱۲۰ )
(صحیح مسلم کتاب الصلوۃ باب خروج النساء الی المساجد باللیل قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۱۸۳ )
(مسند احمد بن حنبل عن عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا المکتب الاسلامی بیروت ۶ / ۹۱، ۱۹۳، ۲۳۵)
فـــــــــ : مسئلہ رات ہو یا دن ، عورت جوان ہو یا بوڑھی ، جمعہ ہو یا عید ، یا جماعت پنج گانہ یا مجلس وعظ مطلقا عورت کا جانا منع ہے ۔
قال فی التنویر والدر (یکرہ حضور ھن الجماعۃ) ولو لجمعۃ وعید وعظ (مطلقا) ولو عجوز الیلا (علی المذھب) المفتی بہ لفساد الزمان واستثنی الکمال بحثا العجائز المتفانیۃ ۲؎اھ
تنویر الابصار اور اس کی شرح در مختار میں ہے (قوسین میں متن کے الفاظ ہیں ۱۲م) (جماعت) اگر چہ جمعہ یا عید اور وعظ کی ہو (عورتوں کی حاضری مطلقا) اگر چہ بڑھیا ہو ا گرچہ رات ہو (مکروہ ہے ہمارے مذہب پر) اس مذہب پر جس پر فساد زمان کی وجہ سے فتوٰی ہے اور کمال ابن الہمام نے بطور بحث فنا کے قریب پہنچنے والی بوڑھی عورتوں کااستثنا کیا ہے اھ،
(۲؎ الدر المختار شرح تنویر الابصار کتاب الصلوۃ باب الامامۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱ / ۸۳ )
والمراد بالمذھب مذھب المتاخرین ولمارد علیہ البحر بان ھذہ الفتوی مخالفۃ لمذھب الامام وصاحبیہ جمیعا فانھما اباحا للعجائز الحضور مطلقا والامام فی غیر الظھر والعصر والجمعۃ فالافتاء بمنع العاجز فی الکل مخالف للکل فالمعتمد مذھب الامام اھ بمعناہ اجاب عنہ فی النھر قائلا فیہ نظر بل ھو ماخوذ من قول الامام وذلک انہ انما منعھا لقیام الحامل وھو فرط الشھوۃ بناء علی ان الفسقۃ لا ینتشرون فی المغرب لانھم بالطعام مشغولون وفی الفجر والعشاء نائمون فاذا فرض انتشارھم فی ھذہ الاوقات لغلبۃ فسقھم کما فی زماننا بل تحریھم ایاھا کان المنع فیھا اظھر من الظھر اھ قال الشیخ اسمٰعیل وھو کلام حسن الی الغایۃ اھ ش ۱؎
مذہب سے مراد مذہب متا خرین ہے اس پر صاحب بحر نے یوں رد کیا ہے کہ یہ فتوی حضرات امام وصاحبین سبھی کے مذہب کے خلاف ہے اس لئے کہ صاحبین نے بوڑھی عورتوں کے لے مطلقا جواز رکھا ہے اور امام نے ظہر ، عصر اور جمعہ کے علاوہ میں جائز کہا ہے ، تو بوڑھی عورتوں کے لئے بھی نمازوں میں مما نعت کا فتوی دینا سبھی کے خلاف ہے معتمد مذہب امام ہے اھ،
نہر میں اس تردید پر جوابا یہ تحریر ہے ، یہ محل نظر ہے اس لئے کہ زیر بحث فتوی قول امام سے ہی ماخوذ ہے وہ اس لئے کہ امام نے جن اوقات میں منع فرمایا ہے اس کا سبب یہ ہے کہ با عث منع موجود ہے وہ ہے زیادتی شہوت ، اس لئے کہ فساق کھانے میں مشغولیت کی وجہ سے مغرب کے وقت راہوں میں منتشر نہیں رہتے اور فجر وعشا کے وقت سوئے ہوتے (اور دیگر اوقات میں منتشر رہتے ہیں ) تو جب فر ض کیا جائے کہ وہ غلبہ فسق کی وجہ سے ان تینوں اوقات میں بھی منتشر رہتے ہیں جیسے ہمارے زمانے کا حال ہے بلکہ وہ خاص ان ہی اوقات میں نکلنے کی تا ک میں رہتے ہیں ، توان اوقات میں عورتوں کے لئے ممانعت ، ظہر کی ممانعت سے زیادہ ظاہر و واضح ہوگی ، اھ شیخ اسمعیل فرماتے ہیں ، یہ نہایت عمدہ کلام ہے اھ۔(شامی)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الصلوۃ باب الامامۃ دار احیاء التراث العربی بیروت ۱ / ۳۸۰)
(البحر الرائق باب الامامۃ ۱ / ۳۵۹ ونہر الفائق باب الامۃ الخ ۱ / ۲۵۱)