فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱-۱(کتاب الطہارۃ) |
واذا عرفت ان التقلید الحقیقی یعتمد انتفاء الحجۃ رأسا (فالر جوع الی النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اوالٰی الاجماع) وان لم نعرف دلیل ماقالہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اوقالہ اھل الاجماع تفصیلا (لیس منہ) ای من التقلید الحقیقی لوجود الحجۃ الشرعیۃ ولو اجمالا (وکذا) رجوع (العامی) من لیس مجتھدا (الی المفتی) وھوالمجتھد (و ) رجوع القاضی الی الشہود (العدول) واخذھما بقولھم لیس من التقلید فی شیئ لانفس الرجوع ولاالعمل بعدہ (لا یجاب النص) ذلک الرجوع والعمل (علیھا) فیکون عملا بحجۃ ولو اجمالیۃ کما عرفت ھذا ھو حقیقۃ التقلید (لکن العرف) عــــہ مضی (علی ان العامی مقلد للمجتھد فجعل عملہ بقول من دون معرفۃ دلیلہ التفصیلی تقلیدا لہ وانکان انما یرجع الیہ لانہ مامور شرعا بالرجوع الیہ والاخذ بقولہ فکان عن حجۃ لابغیرھا وھذا اصطلاح خاص بھذہ الصورۃ فالعمل بقول النبی صلی تعالی علیہ وسلم وبقول اھل الاجماع لا یسمیہ العرف ایضا تقلیدا (قال الامام) ھذا عرف العامۃ (و) مشی (علیہ معظم الاصولیین) والاصطلاحات سائغۃ لا محل فیھا للتذییل بان ھذا ضعیف وذاک معتمد کمالا یخفی ھذا ھو التقریر الصحیح لھذا الکلام واللہ تعالی ولی الانعام
جب یہ معلوم ہوگیا کہ تقلید حقیقی کا مدار اس پر ہے کہ سرے سے کوئی دلیل نہ ہو(تو نبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم یا اجماع کی طر ف رجوع ) اگر چہ ہمیں تفصیلی طور پر اس کی دلیل معلوم نہ ہو جو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یا جو اہل اجماع نے کہا (اس سے نہیں) یعنی تقلید حقیقی نہیں ا سلئے کہ حجت شرعیہ موجود ہے اگرچہ اجمالا ہے (اسی طرح عامی) جو مجتہدنہیں (کامفتی )مفتی ، وہی ہے جو مجتہد ہو (کی طر ف ) رجوع ( اور قاضی کا عادل) گواہوں (کی طر ف ) رجوع ، اور ان کا قول لینا کسی طر ح تقلید نہیں ، نہ ہی نفس رجوع اور نہ ہی اس کے بعد عمل ، کوئی بھی تقلید نہیں،(اس لئے کہ ان دو نوں پر ) یہ رجوع و عمل(نص نے واجب کیا ہے ) تو یہ ایک دلیل پر عمل ہوگا اگرچہ اجمالی دلیل پر جیسا کہ معلوم ہوا تقلید کی حقیقت تو یہی ہے (لیکن عرف اس پر ) جاری (ہے کہ عامی ، مجتہد کا مقلد ہے) قول مجتہد کی دلیل تفصیلی سے آشنائی کے بغیر اس پر عامی کے عمل کو اس کی تقلید قرار دیا گیا ہے ، اگر چہ مجتہد کی طر ف عامی اسی لئے رجو ع کرتا ہے کہ اسے شرعا اس کی جانب رجوع کرنے اور اس کا قول لینے کا حکم دیا گیا ہے ، تو یہ رجوع دلیل کے تحت ہے بلا دلیل نہیں ، یہ ایک اصلاح ہے جو اسی صورت سے خاص ہے او رقول رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اور قول اہل اجماع پر عمل کو تو عرف میں بھی تقلید نہیں کہا جاتا (امام نے فرمایا) یہ عرف عام ہے (اور اسی پر اکثر اہل اصول) گام زن (میں) اصطلاح کوئی بھی قائم کرنے لگے گنجائش ہوتی ہے تو سبھی اصطلاحیں روا ہوتی ہیں ان سے متعلق یہ نوٹ لگانا بے محل ہے کہ فلاں اصطلاح ضعیف ہے او رفلاں معتمد ہے ، جیسا کہ مخفی نہیں ، یہ ہے کلام مذکور کی صحیح تقریر، او رخدائے تعالی ہی فضل وانعام کا مالک ہے ،
عــــہ تقدیرہ اولی من تقدیر دل کمالا یخفی اھ منہ غفرلہ۔ (م)
یہ لفظ مقدر ماننا لفظ دلالت مقدر ماننے سے اولی ہے جیسا کہ ظاہر ہے ۱۲منہ (ت)
فــــ :معروضۃ علیہ
الثالثۃ اقول: حیث علمت ان الجمھور علی منع اھل النظر من تقلید غیرہ وعندھم اخذہ بقولہ من دون معرفۃ دلیلہ التفصیلی یرجع الی التقلید الحقیقی المحظور اجماعا بخلاف العامی فان عدم معرفتہ الدلیل التفصیلی یوجب علیہ تقلید (المجتہد والالزم التکلیف بما لیس فی الواسع او ترکہ سدی ظھران عدم معرفۃ الدلیل التفصیلی لہ اثران تحریم التقلید فی حق اھل النظر وایجابہ فی حق غیرھم ولا غر وان یکون شیئ واحد موجبا ومحرما معالشیئ اٰخر با ختلاف الوجہ فعدم المعرفۃ لعدم الاھلیۃ موجب للتقلید ومعھا محرم لہ،
مقدمہ سوم اقول معلوم ہوچکاہے کہ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ اہل نظر و ا جتہاد کے لئے یہ جائز نہیں کہ دوسرے کسی مجتہد کی تقلید کر ے او ر وہ اگر دو سرے کا قول اس کی دلیل تفصیلی سے آگاہی کے بغیر لے لیتا ہے تو جمہور کے نزدیک یہ تقلید حقیقی میں شامل ہے جو بالا جماع حرام ہے ، عامی کا حکم اس کے بر خلاف ہے اس لئے کہ دلیل تفصیلی سے نا آشنائی اس پر واجب کرتی ہے کہ وہ مجتہد کی تقلید کرے ورنہ لازم آئیگا کہ اسے ایسے امر(دلیل تفصیلی سے آگاہی) کا مکلف کیا جائے جو اس کے بس میں نہیں یا یہ کہ اسے بیکار چھوڑ دیا جائے ، اس سے ظاہر ہوا کہ دلیل تفصیلی سے نا آشنائی کے دو اثر ہیں(۱) صاحب نظر کے لئے و ہ تتقلید کو حرام ٹہراتی ہے (۲) اور غیر اہل نظر کے لئے وہ ہی نا آشنائی تقلید کو واجب قرار دیتی ہے ، اوریہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ایک ہی چیز کسی دو سری چیز کو الگ الگ وجہوں کے تحت واجب بھی ٹھہرائے اور حرام بھی ، تو یہی ناآشنائی فقدان اہلیت کے باعث تقلید کو واجب قرار دیتی ہے ۔ اور اہلیت ہوتے ہوئے تقلید کو حرام قرار دیتی ہے ۔
الرابعۃ فـــ الفتوی حقیقۃ وعرفیۃ فالحقیقۃ (۱) ھوالافتاء عن معرفۃ الدلیل التفصیلی واولٰئک الذین یقال لھم اصحاب الفتوی ویقال بھذا افتی الفقیہ ابو جعفر والفقیہ ابو اللیث واضرابھما رحمھم اللہ تعالی والعرفیۃ (۲) اخبار العالم با قوال الامام جاھلا عنھا تقلیدالہ من دون تلک المعرفۃ کما یقال فتاوی ابن نجیم والغزی والطوری والفتاوی الخیریۃ وھلم تنزلازمانا ورتبۃ الی الفتاوی الرضویۃ جعلھا اللہ تعالی مُرضیۃ مرضیۃ اٰمین
مقدمہ چہارم: ایک حقیقی فتوٰی ہوتا ہے ، ایک عرفی فتوائے حقیقی یہ ہے کہ دلیل تفصیلی کی آشنائی کے ساتھ فتوٰی دیاجائے۔ ایسے ہی حضرات کو اصحاب فتوٰی کہاجاتا ہے اور اسی معنی میں یہ بولا جاتا ہے کہ فقیہ ابو جعفر ، فقیہ ابو اللیث اور ان جیسے حضرات رحمہم اللہ تعالی نے فتوٰی دیا ، اور فتوائے عرفی یہ ہے کہ اقوال امام کا علم رکھنے والا اس تفصیلی آشنائی کے بغیر ان کی تقلید کے طور پر کسی نہ جاننے والے کو بتائے ۔ جیسے کہا جاتا ہے فتا وی ابن نجیم، فتا وی غزی ،فتا وی طوری،فتا وی خیریہ، اسی طرح زمانہ و رتبہ میں ان سے فروتر فتا وٰی رضویہ تک چلے آیئے ، اللہ تعالی اسے اپنی رضا کا باعث اور اپنا پسندیدہ بنائے ، آمین!
فــ : الفتوٰی قسمان حقیقۃ مختصۃ بالمجتھدو عرفیۃ ۔
الخامسۃ فـــ۔ـــــ اقول وباللہ التوفیق القول قولان صوری وضروری فالصوری ھو المقول المنقول والضروری مالم یقلہ القائد نصابالخصوص لکنہ قائل بہ فی ضمن العموم الحاکم ضرورۃ بان لو تکلم فی ھذا الخصوص لتکلم کذا و ربما یخالف الحکم الضروری الحکم الصوری وح یقضی علیہ الضروری حتی ان الاخذ بالصوری یعد مخالفۃ للقائل والعدول عنہ الی الضروری موافقۃ اواتباعا لہ کأن کان زید صالحا فامر عمرو خدامہ باکرامہ نصاجھا راوکرر ذلک علیھم مرارا، وقد کان قال لھم ایاکم ان تکرمو افاسقا ابدا فبعد زمان فسق زید علانیۃ فان اکرمہ بعدہ خدامہ عملا بنصہ المکرر المقرر کانوا عاصین وان ترکوا اکرامہ کانوا مطیعین
مقدمہ پنجم: اقول وباللہ التو فیق، قول کی دو قسمیں ہیں(۱) قول صوری (۲) قول ضروری-- قول صوری وہ جو کسی نے صراحۃ کہا اور اس سے نقل ہوا ، اور قول ضروری وہ ہے جسے قائل نے صراحۃ اور خاص طو ر پر نہ کہا ہو مگر وہ کسی ایسے عموم کے ضمن میں اس کا قائل ہو جس سے ضروری طو ر پر یہ حکم برآمد ہوتا ہے کہ اگر وہ اس خصوص میں کلام کرتا تو اس کا کلام ایسا ہی ہوتا ، کبھی حکم ضروری ، حکم صوری کے خلاف بھی ہوتا ہے ، ایسی صورت میں حکم صوری کے خلاف حکم ضروری راجح وحاکم ہوتا ہے یہاں تک کہ صوری کو لینا قائل کی مخالفت شمار ہوتا ہے اور حکم صوری چھوڑ کر حکم ضروری کی طر ف رجوع کو قائل کی موافقت یا اس کی پیروی کہا جاتا ہے، مثلا زید نیک اور صالح تھا تو عمر و نے اپنے خادموں کو صراحۃ علانیۃ زید کی تعظیم کا حکم دیا اور بار بار ان کے سامنے اس حکم کی تکرار بھی کی ، اور اس سے ایک زمانہ پہلے ان خدام کو ہمیشہ کیلئے کسی فاسق کی تکریم سے ممانعت بھی کر چکا تھا ۔ پھر کچھ دنوں بعد زید فا سق معلن ہوگیا ، اب اگر عمر و کے خدام اس کے مکرر ثابت شدہ صریح حکم پر عمل کرتے ہوئے زید کی تعظیم کریں توعمر و کے نافرمان شمار ہوں گے اور اگر اس کی تعظیم ترک کر دیں تو اطا عت گزار ٹھہریں گے۔ فــ : القول قولان صوری و ضروری وھو یقتضی علی الصوری ولہ ستۃوجوہ۔
ومثل ذلک یقع فـــ۔ـــــ فی اقوال الائمۃ اما لحدوث ضرورۃ او حرج اوعرف او تعامل او مصلحۃ مھمۃ تُجلب اومفسدۃ مـلمۃ تُسلب وذلک لان استشناء الضرورات ورفع الحرج ومراعاۃ المصالح الدینیۃ الخالیۃ عن مفسدۃ تربو علیھا ودرء المفاسد والاخذ بالعرف والعمل بالتعامل کل ذلک قواعد کلیۃ معلومۃ من الشرع لیس احد من الائمۃ الا مائلا الیھا وقائلا بہا ومعولا علیھا فاذا کان فی مسألۃ نص الامام ثم حدث احد تلک المغیرات علمنا قطعا ان لوحدث علی عھدہ لکان قولہ علی مقتضاہ لا علی خلافہ و ردہ ،فالعمل بقولہ الضروری الغیر المنقول عنہ ھو العمل بقولہ لا الجمود علی المأثور من لفظہ،
اسی طر ح اقوال ائمہ میں بھی ہوتا ہے (کہ ان کے حکم صوری کے خلاف کوئی حکم ضروری پالیا جاتا ہے) اس کے درج ذیل اسباب پیدا ہوتے ہیں (۱) ضرورت(۲) حرج(۳) عرف (۴) تعامل(۵)کوئی اہم مصلحت جس کی تحصیل مطلوب ہے (۶) کوئی بڑا مفسد ہ جس کا ازالہ مطلوب ہے ،
یہ اس لئے کہ صورتوں کا استثنا، حرج کا دفعیہ ، ایسی دینی مصلحتو ں کی رعایت جو کسی ایسی خرابی سے خالی ہوں جو ان سے بڑھی ہوئی ہے ، مفاسد کو دور کرنا ، عرف کا لحاظ کرنا ، اور تعامل پر کار بند ہونا یہ سب ایسے قواعد کلیہ ہیں جو شریعت سے معلوم ہیں ، ہر امام ان کی جانب مائل ان کا قائل اور ان پر اعتماد کرنے والا ہی ہے۔ اب اگر کسی مسئلے میں امام کا کوئی صریح حکم رہا ہو پھر حکم تبدیل کرنے والے مذکورہ امور میں سے کوئی ایک پیدا ہو تو ہمیں قطعا یہ یقین ہوگا کہ یہ امر اگر ان کے زمانے میں پیدا ہو تا تو ان کا قول اس کے تقاضے کے مطابق ہی ہوتا اسے رد نہ کرتا اور اس کے بر خلاف نہ ہوتاایسی صورت میں ان سے غیر منقول قول ضروری پر عمل کرنا ہی در اصل ان کے قول پر عمل ہے ، ان سے نقل شدہ الفاظ پر جم جانا ان کی پیروی نہیں،
فــ: چھ باتیں ہیں جن کے سبب قول امام بدل جاتا ہے لہذا قول ظاہر کے خلاف عمل ہوتا ہے اور وہ چھ باتیں : ضرورت ، دفع حرج ، عرف ، تعامل ، دینی ضروری مصلحت کی تحصیل ، کسی فساد موجود یا مظنون بظن غالب کا ازالہ ، ان سب میں بھی حقیقۃقول امام ہی پر عمل ہوتا ہے ۔