Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱-۱(کتاب الطہارۃ)
5 - 123
قال وھو الذی مشی علیہ الشیخ علاء الدین الحصکفی ایضا فی صدر شرحہ علی التنویر حیث قال واما نحن فعلینا اتباع ما رجحوہ وصححوہ کما افتوا فی حیاتھم فان قلت قد یحکون اقوالا بلا ترجیح وقد یختلفون فی التصحیح قلت یعمل بمثل ما عملوا من اعتبار تغیرالعرف واحوال الناس وما ھوا لارفق وما ظہر علیہ التعامل وما قوی وجہہ ولا یخلو الوجد ممن یمیز ھذا حقیقۃ لا ظنا وعلی من لم یمیز ان یرجع لمن یمیز لبراء ۃ ذمتہ اھ واللہ تعالی اعلم اھ ۲؎ ۔
آگے علامہ شامی لکھتے ہیں ، یہ ہی وہ ہے جس پر شرح تنویر کے شرو ع میں شیخ علاء الدین حصکفی بھی گام زن ہیں ، وہ رقم طراز ہیں ، لیکن ہم پر تو اسی کی پیروی لازم ہے جسے حضرات مشائخ نے راجح وصحیح قرار دیا جیسے وہ اپنی حیات میں اگر فتوی دیتے تو ہم اسی کی پیروی کرتے ۔ اگریہ سوال ہو کہ حضرات مشائخ کہیں متعدد اقوال بلا ترجیح نقل کردیتے ہیں اور کبھی تصحیح کے معاملے میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں ، ان مسائل میں ہم کیا کریں ؟ تو ہمارا جواب یہ ہوگا کہ جیسے ان حضرات نے عمل کیا ویسے ہی ہمارا عمل ہوگا یعنی لوگو ں کے حالات اور عرف کی تبدیلی کا اعتبار ہوگا ، یوں ہی اس کا اعتبار ہوگا جس میں زیادہ آسانی اور فائدہ ہو یا جس پر لوگو ں کا عمل در آمد نمایاں ہو یا جس کی دلیل قوی ہو ، اور بزم وجود کبھی ایسے افراد سے خالی نہ ہوگی جو محض گمان سے نہیں بلکہ واقعی طو ر پر اقوال کے درمیان اتنی تمیز رکھنے والے ہوں گے اور جس میں تمیز کی لیاقت نہ ہو اس پر عہد ہ بر آہونے کے لئے یہ لازم ہے کہ صاحب تمیز کی جانب رجوع کر ے، واللہ تعالی اعلم
 (۲؎ منحۃ الخالق علی بحرا لرائق    کتاب القضاء  فصل یجوز تقلید من شاء     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۶ /۲۶۹)
اقول وتلک شکاۃ طاھر عنک عارھا، ولنقدم لبیان الصواب مقدمات تکشف الحجاب
یہ ایسی شکایت ہے جس کاعا ر آپ سے دور ہے بیان حق کے لئے ہم پہلے چند مقامات پیش کرتے ہیں جن کے باعث حقیقت کے رخ سے پردہ اٹھ جائے گا ۔
الاولی فـــ۱ لیس حکایۃ قول افتاء بہ فانا نحکی اقوالا خارجۃ عن المذھب ولا یتوھم احد انا نفتی بھا، انما الافتاء ان تعتمد علی شیئ وتبین لسائلک ان ھذا حکم الشرع فی ما سألت وھذا لا یحل لاحد من دون ان یعرفہ عن دلیل شرعی و الاکان جزافا وافتراء علی الشرع ودخولا تحت قولہ عزوجل
ام تقولون علی اللہ مالا تعلمون ۱؎ وقولہ تعالی قل اٰللہ اذن لکم ام علی اللہ تفترون ۲؎
مقدمہ اول : کسی قول کی نقل وحکایت اور کسی قول پر افتا دو نوں ایک نہیں ، ہم ایسے بہت سے اقوال بیان کرتے ہیں جو ہمارے مذہب سے باہر کے ہیں اور کسی کو یہ وہم نہیں ہوتا کہ ہم ان اقوال پر فتوی دے رہے ہیں افتا یہ ہے کہ کسی بات پر اعتماد کر کے سائل کو بتا یا جائے کہ تمہاری مسئولہ صورت میں حکم شریعت یہ ہے ۔ یہ کام کسی کے لئے بھی اس وقت تک حلال نہیں جب تک اسے کسی دلیل شرعی سے اس حکم کا علم نہ ہوجائے ، ورنہ جزاف (اٹکل سے بتانا ) اور شریعت پر افترا ہوگا اور ان ارشاد ات کا مصداق بھی بننا ہوگا (۱) کیا تم خدا پر وہ بولتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں (۲) فرماؤ کیا اللہ نے تمہیں اذن دیا یا تم خدا پر افتر ا کرتے ہو ۔
فـــ۱ : معنی الافتا وانہ لیس حکایۃ محضۃ وانہ لایجوز الا عن دلیل
 (۱؎ القرآن     ۲ /۸۰ ) ( ۲؎ القرآن ۱۰ /۵۹)
الــثـانـیۃ فـــــ۲ الدلیل علی وجھین اما تفصیلی ومعرفتہ خاصۃ باھل النظر والاجتھاد فان غیرہ وان علم دلیل المجتھد فی مسألۃ لا یعلمہ الا تقلیدا کما یظہر مما بیناہ فی رسالتنا المبارکۃ ان شاء اللہ تعالی "الفضل الموھبی فــ۱ فی معنی اذا صح الحدیث فھو مذھبی" فان قطع تلک المنازل التی بینا فیھا لا یمکن الا لمجتھدو اشارالی بعض قلیل منہ فی عقود رسم المفتی اذنقل فیھا ان معرفۃ الدلیل انما تکون للمجتہد لتوقفھا علی معرفۃ سلامتہ من المعارض وھی متوقفۃ علی استقراء الادلۃ کلہا ولا یقدر علی ذلک الاالمجتہد اما مجرد معرفۃ ان المجتھد الفلانی اخذ الحکم الفلانی من الدلیل الفلانی فلا فائدۃ فیھا ۱؎ اھ
مقدمہ دو م : دلیل دو طر ح کی ہوتی ہے (۱) تفصیلی اس سے آگا ہی اہل نظر و اجتہاد کا خاص حصہ ہے دو سرے کو اگر کسی مسئلے میں دلیل مجتہد کا علم ہوتا بھی ہے تو تقلیدا ہوتا ہے، جیسا کہ یہ اس سے ظاہر ہے جو ہم نے اپنے رسالہ
''الفضل الموھبی فی معنی اذا صح الحدیث فہو مذھبی''
میں بیان کیا (خدا نے چاہا تو یہ رسالہ بابر کت ثابت ہوگا ) اس لئے کہ اس رسالہ میں جو منزلیں ہم نے بتائی ہیں انہیں طے کرنا سوائے مجتہد کے اور کسی کے بس کی بات نہیں، اس میں سے کچھ تھوڑی سی مقدار کی جانب'' عقود رسم المفتی'' میں بھی اشارہ ہے اس میں یہ نقل کیا ہے کہ دلیل کی معرفت مجتہد ہی کو ہوتی ہے اس لئے کہ یہ اس امر کی معرفت پر موقوف ہے کہ دلیل ہر معارض سے محفو ظ ہے اور یہ معرفت تمام دلائل کے استقراء اور چھان بین پر موقوف ہے جس پر بجز مجتہد کسی کو قدرت نہیں ہوتی ، اور صرف اتنی واقفیت کہ فلاں مجتہد نے فلاں حکم فلاں دلیل سے اخذ کیا ہے تو اتنے سے کوئی فائدہ نہیں ۔ ا ھ
فــ۲ :الدلیل دلیلان تفصیلی خاص معرفتہ بالمجتہد واجمالی الابد منہ حتی للمقلد

فــــ : رسالــــہ الفضل الموھبی فتاوی رضویہ مطبوعہ رضا فاونڈیشن جلد ۲۷ ص ۶۱ پر ملاحظہ ہو ۔
 (۱؎ شرح عقود رسم المفتی رسالہ من رسائل ابن عابدین سہیل اکیڈمی لاہور۱ /۳۰)
اواجمالی کقولہ سجنہ
فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون ۲؎ وقولہ تعالی اطیعو اللہ واطیعوا الرسول و اولی الامرمنکم ۳؎
فانھم العلماء علی الاصح وقولہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم الا سألوا اذلم یعلموا فانما شفاء العی السؤال۴؎
 (۲) اجمالی ، جیسے باری تعالی کا ارشاد ہے ذکر والوں سے پو چھو اگر تمہیں علم نہیں اور ارشاد ہے ، اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کر و اور ان کی جو تم میں صاحب امر ہیں ، یہ اصحاب امر بر قول اصح حضرات علماء کرام ہیں ، اور سرکار اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے '' جب انہیں معلوم نہ تھا تو پوچھا کیوں نہیں ، عاجز کا علاج یہی ہے کہ سوال کرے ۔''
 (۲؎ القرآن    ۱۶ /۴۳ )،(   ۳؎ القرآن ۴ /۵۹)(۴؎ سنن ابی داؤد،باب المجذور یتیم،مجتبائی دہلی ،۱ /۴۹)
وعن ھذا فـــ نقول ان اخذنا با قوال امامنا لیس تقلیدا شرعیا لکونہ عن دلیل شرعی انما ھو تقلید عرفی لعدم معرفتنا بالدلیل التفصیلی اما التقلید الحقیقی فلا مساغ لہ فی الشرع وھو المراد فی کل ماورد فی ذم التقلید والجھال الضلّال یلبسّون علی العوام فیحملونہ علی التقلید العرفی الذی ھو فرض شرعی علی کل من لم یبلغ رتبۃ الاجتھاد۔
اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ اپنے امام کے اقوال کو تسلیم وقبول کر نا تقلید شرعی نہیں ، بس تقلید عرفی ہے اس لئے کہ دلیل تفصیلی کی ہمیں معرفت نہیں، اور تقلید حقیقی کی تو شریعت میں کوئی گنجائش ہی نہیں اور مذمت تقلید میں جو کچھ وارد ہے اس میں تقلید حقیقی ہی مراد ہے اہل جہالت وضلالت عوام پر تلبیس کر کے اسے تقلید عرفی پر محمول کر تے ہیں جب کہ یہ ہر اس شخص پر فر ض شرعی ہے جو رتبہ اجتہاد تک نہ پہنچا ہو ۔
فـــــ : الفرق بین التقلید الشرعی المذموم والعرفی الواجب وبیان ان اخذنا باقوال امامنالیس تقلید فی الشرع بل بحسب العرف وھو عمل بالدلیل حقیقۃ وبیان تلبیس الوھابیہ فی ذالک۔
قال المدقق البھاری فی مسلم الثبوت التقلید العمل بقول الغیر من غیر حجۃ کا خذ العامی والمجتہد من مثلہ فالرجوع الی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم او الی الاجماع لیس منہ و کذا العامی الی المفتی والقاضی الی العدول لا یجاب النص ذلک علیھما لکن العرف علی ان العامی مقلد للمجتھد قال الامام وعلیہ معظم الاصولیین ۱؎ اھ
مدقق بہاری مسلم الثبوت میں فرماتے ہیں تقلید یہ ہے کہ دوسرے کے قول پر بغیر کسی دلیل کے عمل ہو ، جیسے عامی اور مجتہد کا اپنے جیسے سے اخذ کرنا تو نبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی جانب یا اجماع کی جانب رجوع لانا تقلید نہیں اسی طر ح عامی کا مفتی کی جانب اور قاضی کا گو اہان عادل کی جانب رجوع ، اس لئے کہ یہ ان دونوں پرنص نے واجب کیا ہے ، لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے ، امام نے فرمایا اسی پر بیش تر اہل اصول ہیں۔
 (۱؎ مسلم الثبوت الاصل الرابع القیاس فصل فی التعریف التقلید الخ مطبع انصاری دہلی ۲۸۹)
وشرحہ المولی بحر العلوم فی فواتح الرحموت ھکذا ( التقلید العمل بقول الغیر من غیر حجۃ ) متعلق بالعمل والمراد بالحجۃ حجۃ من الحجج الاربع والا فقول المجتھد دلیلہ وحجۃ (کاخذ العامی) من المجتہد (و) اخذ (المجتھد من مثلہ فالرجوع الی النبی علیہ) واٰلہ واصحابہ (الصّلٰوۃ والسّلام والی الاجماع لیس منہ) فانہ رجوع الی الدلیل (وکذا) رجوع (العامی الی المفتی والقاضی الی العدول ) لیس ھذا الرجوع نفسہ تقلید وان کان العمل بما اخذ وابعدہ تقلیدا ( لا یجاب النص ذالک علیھما ) فھو عمل بحجۃ لا بقول الغیر فقط (لکن العرف) دل (علی ان العامی مقلد للمجتہد ) بالرجوع الیہ ( قال الامام ) امام الحرمین ( وعلیہ معظم الاصولیین ) وھوالمشتھر المعتمد علیہ ۱؎ اھ
مولانا بحر العلوم نے فواتح الرحموت میں اس کی شرح یوں کی ہے ، (قوسین کے درمیان متن کے الفا ظ ہیں )تقلید ، دو سرے کے قول پر عمل ، بغیر کسی دلیل کے یہ عمل سے متعلق ہے اور دلیل سے مراد ادلہ اربعہ (کتاب سنت ، اجماع ، قیاس) میں سے کوئی دلیل ہے ، ورنہ مجتہد کا قول ہی اس کی دلیل اور حجت ہے (جیسے عامی کا اخذ کرنا )مجتہد سے (اور مجتہد کا اپنے مثل سے) اخذ کرنا (تو نبی علیہ ) وآلہ واصحابہ (الصلوۃ والسلام یا اجماع کی جانب رجوع تقلید نہیں) اس لئے کہ یہ تو دلیل کی جانب رجوع ہے ، (اور اسی طر ح عامی کا مفتی ، او رقاضی کا گواہان عادل کی جانب ) رجوع کرنا ،کہ خو د یہ رجوع تقلید نہیں اگر چہ بعد رجوع جو اخذ کیا اس پر عمل ، تقلید ہے (کیونکہ یہ دونوں پر خود نص نے واجب کیا ہے) تو یہ ایک دلیل پر عمل ہے (لیکن عرف اس پر دلالت کرتی ہے) کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے کیونکہ وہ اس کی طرف رجوع کرتا ہے (امام نے فرمایا) امام الحرمین نے (اوراسی پر اکثر اہل اصول ہیں) اور یہی مشہور ہے جس پر ا عتماد ہے۔
 (۲؎ فواتح الرحموت بذیل المستصفی الاصل الرابع فصل فی تعریف التقلید الخ مطبعۃ منشورات الرضی قم ایران     )
اقول :  فیہ نظر من وجوہ 

فاولا فـــ۱ : لافرق فی الحکم بین الاخذ والرجوع حیث لا رجوع الا للاخذ اذلم یوجبہ الشرع الا لہ ولو سأل العامی امامہ ولم یعمل بہ کان عابثا متلا عباوالشرع متعال عن الامر بالعبث فان لم یکن الرجوع تقلید الوجوبہ بالنص لم یکن الاخذ ایضا من التقلید قطعا لوجوبہ بعین النص،
اقول :  یہ شرح چند و جہوں سے محل نظرہے :

اولا : اخذ اور رجوع کے حکم میں کوئی فر ق نہیں۔ اس لئے کہ رجوع اخذہی کے لئے ہوتا ہے کیونکہ شریعت نے اخذ ہی کے لئے رجوع واجب کیا ہے اگر عامی اپنے امام سے پوچھے اور اس پر عمل نہ کرے تو عبث اورکھیل کرنے والا قرار پائے گا اور شریعت اس سے بر تر ہے کہ عبث کا حکم فرمائے ۔ تو رجوع اگر اس وجہ سے تقلید نہیں کہ وہ نص سے واجب ہے تو اخذ بھی ہر گز تقلید نہیں کیونکہ یہ بھی بعینہ اسی نص سے واجب ہے ،
فــــ۱ :معروضۃ علی العلامۃ بحرا لعلوم
وثانیا فــــ۲ـ : الاٰیۃ الاولی (۲) اوجبت الرجوع والثانیۃ الاخذ فطاح الفرق
ثانیا: پہلی آیت ''فاسئلوا '' نے رجوع وجواب کیا ، اور دوسری '' اطیعوا'' نے اخذ و اجب کیا ، تواخذ ورجوع کے حکم میں فر ق بیکار ہوا ،
فــــ۲ـــــــ :معروضۃ علیہ
وثالثا: فــــ۳ـــ : حیث اتحد ماٰل الرجوع والاخذ فعلی تقریر الشارح یتناقض قولہ التقلید اخذ العامی من المجتہد وقولہ لیس منہ رجوع العامی الی المفتی فان المفتی ھو المجتہد کمافی المتن متصلا بما مر۔
ثالثا: جب رجوع اور اخذ دونوں کا ماٰل ایک ہے تو بر تقر یر شا رح متن کی ان دو نوں عبارتو ں میں تنا قض لازم آئے گا (۱) عامی کا مجتہد سے اخذ کر نا تقلید ہے (۲)عامی کا مفتی کی جانب رجوع کرنا تقلید نہیں ، اس لئے کہ مفتی وہی ہے جو مجتہد ہو جیسا کہ متن میں عبارت مذکورہ سے متصل ہی گز ر چکا ہے ۔
فــــ۳ـــــــ :معروضۃ علیہ
ورابعا: ان ارید فــــ۱ـــ : بحجۃ من الاربع التفصیلیۃ اعنی الخاصۃ بالجزئیۃ النازلۃ بطل قولہ فالرجوع الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم اوالا جماع لیس منہ فانہ لایکون عن ادراک الدلیل التفصیلی وان ارید الاجمالیۃ کالعمومات الشرعیۃ بطل جعلہ اخذ العامی من المجتہد تقلید افانہ ایضا عن دلیل شرعی،
رابعا :حجت ودلیل کی تو ضیح میں شارح نے '' ادلہ اربعہ میں سے کوئی دلیل ''کہا اگر اس سے مراد دلیل تفصیلی ہے یعنی وہ خاص دلیل جو پیش آمدہ جزئیہ ومسئلہ سے متعلق ہے (اسے جانے بغیر دو سرے کا قول لے لینے کا نام تقلید ہے) تو یہ کہنا باطل ہے کہ نبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم یا اجماع کی طر ف رجوع تقلید نہیں ، اس لئے کہ یہ رجوع دلیل تفصیلی کا علم ادراک نہیں ، او اگر اس سے مراد دلیل اجمالی ہے جیسے عام ارشادات شرعیہ تو مجتہد سے عامی کے اخذ کو تقلید کہنا با طل ہے کیوں کہ یہ بھی ایک دلیل شرعی کے تحت ہے ۔
فــــ۱ـــــــ :معروضۃ علی المولی بحرا لعلوم
خامسا: اذقد حکم فــــ۲ـــ : اولا ان اخذ العامی عن المجتھد تقلید فما معنی الاستدراک علیہ بقولہ لکن العرف الخ
خامسا: جب ابتداء یہ فیصلہ کردیا کہ عامی کا مجتہد سے اخذ کرنا تقلید ہے تو بعد میں بطور استدراک یہ عبارت لانے کاکیا معنی ؟'' لیکن عرف اس پر ہے کہ عامی ، مجتہد کا مقلد ہے ۔''
فــــ۲ـــــــ :معروضۃ علیہ
وسادسا: لیس فــــ۳ـــ : نفس الرجوع تقلیدا قط والا لکان رجوعنا الی کتب الشافعیہ لنعلم ما مذھب الامام المطلبی فی المسألۃ تقلید الہ ولا یتوھمہ احد،
سادسا: نفس رجوع تقلید ہر گز نہیں،ورنہ کسی مسئلے میں امام شافعی مطلبی علیہ الرحمہ کا مذہب معلوم کرنے کے لئے کتب شافعیہ کی جانب ہمارا رجوع کرنا امام شافعی کی تقلید ٹھہرے ، حالانکہ کسی کو یہ وہم بھی نہیں ہوسکتا۔
فــــ۳ـــــــ :معروضۃ علیہ
وسابعا :مثلہ فــــ۱ـــ : اوا عجب منہ جعل اخذ القاضی بشھادۃ الشہود تقلیدا منہ لھم فانہ تقلید لا یعرفہ عرف ولا شرع ومن یتجاسر فـــــ۲ــــ ان یسمی قاضی الاسلام ولوایا یوسف عـــــہ مقلد ذمیین اذا قضی بشھادتھما علی ذمی بل الحق فی حل المتن مارأیتنی کتبت علیہ ھکذا (التقلید) الحقیقی ھو (العمل بقول الغیر من غیر حجۃ) اصلا (کاخذ العامی) من مثلہ وھذا بالا جماع اذلیس قول العامی حجۃ اصلا لا نفسہ ولا لغیرہ (و) کذا اخذ (المجتھد من مثلہ) علی مذھب الجمہور من عدم جواز تقلید مجتھد مجتھدا اٰخر وذلک لانہ لما کان قادرا علی الاخذ عن الاصل فالحجۃ فی حقہ ھوا لاصل وعدولہ عنہ الی ظن مثلہ عدول الی مالیس حجۃ فی حقہ فیکون تقلیدا حقیقیا فالضمیر فی مثلہ الی کل من العامی والمجتھد عـــــہ لا الی المجتھد خاصۃ،
سابعا : اسی کے مثل یا اس سے بھی زیادہ حیرت خیز بات یہ ہو ئی کہ اگر قاضی نے گواہوں کی شہادت لے لی تو اسے یہ ٹھہرایا کہ قاضی نے گواہوں کی تقلید کرلی ، ایسی تقلید سے نہ کوئی عرف آشنا ہے نہ شریعت میں کہیں اس کانام ونشان کسے جرات ہے کہ قاضی اسلام کو خواہ وہ امام ابو یوسف ہی ہوں ایسے دو ذمیوں کا مقلد کہہ دے جن کی شہادت پر اس نے کسی ذمی کے خلاف فیصلہ کر دیا ہو ؟
بلکہ متن مذکور کے حل میں حق وہ ہے جو ا س عبارت پر خود میں نے کبھی لکھا تھا وہ اس طر ح ہے (قوسین میں متن کے الفاظ ہیں ۱۲م) (تقلید) حقیقی (دوسرے کے قول پر )اصلا کسی بھی( دلیل کے بغیر عمل کرنا ، جیسے عامی کا اخذ کرنا) اپنے ہی جیسے عامی سے ،یہ بالاجماع ہے ، اس لئے کہ عامی کا قول سرے سے دلیل ہی نہیں ، نہ خود اس کے لئے نہ کسی اور کے لئے (اور)اسی طرح(مجتہد کا اپنے ہی جیسے شخص سے) اخذ کرنا۔یہ حکم اس مذہب جمہور پرہے کہ ایک مجتہد کے لئے دوسرے مجتہد کی تقلید جائز نہیں ، یہ اس لئے کہ جب وہ اصل سے اخذ کرنے پر قادر ہے تو اس کے حق میں حجت وہی اصل ہے ، اسے چھوڑ کر اپنے ہی جیسے شخص کے گمان کی جانب رجوع کرنا ایسی چیز کی طرف رجوع ہے جو اس کے حق میں حجت نہیں ، تو یہ بھی تقلید حقیقی ہوگی ،اس سے معلوم ہو اکہ '' مثلہ'' میں ضمیر عامی او ر مجتہد ہر ایک کی جانب راجع ہے ، صرف مجتہد کی طرف نہیں،
فــــ۱ـــــــ :معروضۃ علیہ

فــــ۲ـــــــ :معروضۃ علیہ
عــــہ بل وامراء المؤمنین الخلفاء الراشدین رضی اللہ تعالی عنھم وانت تعلم فـــ۳ـــ انہ لیس الاثقۃ بقول الشہود فیما اخبروا بہ عن واقعۃ حسیۃ شھدوھا ولو کان ھذا تقلیدا لم یسلم من تقلید احادالناس امام ولا صحابی ولا نبی وفی مسلم قولہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم حدثنا تمیم الداری اھ منہ غفرلہ۔ (م)
بلکہ کوئی شخص جرات کرسکتا ہے کہ خلفائے راشدین کو ذ میوں کا مقلد کہے ؟ اور آپ جانتے ہیں کہ قاضی تو صرف گواہوں کے اس قول سے وثوق حاصل کرتا ہے اس معاملہ میں جس واقعہ حسیہ کا انہوں نے مشاہد ہ کیا ہو اگر اس چیز کا نام تقلید ہے تو کوئی امام صحابی اورنبی تقلید سے سالم نہ رہے گا اور مسلم شریف میں حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا قول ہے کہ ہمیں تمیم داری نے حدیث بیان کی ا ھ۔
فــــ۳ :معروضۃ علیہ

عــــہ کما لا یخفی فــ۔ـــ علی کل ذی ذوق فضلا عن النظر الی ما یلزم ۱۲ منہ۔ (م)
جیسا کہ ہر صاحب ذوق پرظاہر ہے ، قطع نظر اس خرابی سے جو صرف مجتہد کی جانب راجع ٹھہرانے میں لازم آتی ہے ،

فــــ :معروضۃ علیہ
Flag Counter