فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱-۱(کتاب الطہارۃ) |
فاقول ان ھذا الشرط کان فی زمانھم اما فی زماننا فیکتفی بالحفظ کمافی القنیہ وغیرھا فیحل الافتاء بقول الامام بل یجب وان لم نعلم من این قال وعلی ھذا فما صححہ فی الحاوی مبنی علی ذلک الشرط وقد صححوا ان الافتاء بقول الامام فینتج من ھذا انہ یجب علینا الافتاء بقول الامام وان افتی المشائخ بخلافہ لانھم انما افتوا بخلافہ لفقد شرطہ فی حقھم وھوالوقوف علی دلیلہ واما نحن قلنا الافتاء وان لم نقف علی دلیلہ،
(صاحب بحر فرماتے ہیں ) میں کہتا ہوں یہ شرط حضرات مشائخ کے زمانے میں تھی لیکن ہمارے زمانے میں بس یہی کافی ہے کہ ہمیں امام کے اقوال حفظ ہوں جیسا کہ قنیہ وغیرہ میں ہے تو اب اگر چہ ہمیں قول امام کی دلیل معلوم نہ ہو ، قول امام پر فتوی دینا جائز بلکہ واجب ہے اس تفصیل کے پیش نظر تصیح حاوی کی بنیا د وہی شرط ہے جو حضرات مشائخ کے لئے اس زمانے میں تھی اور اب علماء نے اسی کو صحیح قرار دیا کہ قول امام پر ہی فتوٰی ہوگا جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہم پر یہی لازم ہے کہ قول امام پر فتوٰی دیں اگر چہ مشائخ اس کے پر خلاف فتوی دے چکے ہوں اس لئے کہ اس کے خلاف افتا ئے مشائخ کی وجہ یہ ہے کہ خود قول اما م پر فتوٰی دینے کے لئے اس کی دلیل سے باخبر ہونے کی جو شرط ان کے حق میں تھی وہ مفقود تھی ( وہ اس کی دلیل سے با خبر نہ ہوسکے اس لئے اس پر فتوٰی نہ دے سکے ) اور ہمارے لئے یہ شرط نہیں ، ہمیں قول امام پر ہی فتوی دینا ہے اگرچہ ا سکی دلیل سے آگاہی نہ ہو،
وقد وقع للمحقق ابن الھمام فی مواضع الرد علی المشائخ فی الافتاء بقولھما بانہ لا یعدل عن قولہ الا لضعف دلیلہ وھو قوی فی وقت العشاء لکونہ الاحوط وفی تکبیر التشریق فی اٰخر وقتہ الی اٰخرھا ذکرہ فے فتح القدیر ولکن ھو اھل للنظر فی الدلیل ومن لیس باھل للنظر فیہ فعلیہ الافتاء بقول الامام والمراد بالاھلیۃ ھنا ان یکون عارفا ممیزا بین الاقاویل لہ قدرۃ علی ترجیح بعضھا علی بعض ۱؎ ا ھ
او رمحقق ابن ہمام نے تو متعد د جگہ قول صاحبین پر فتوٰی دینے سے متعلق مشائخ پر رد کیا ہے اور فرمایا ہے کہ قول امام سے بجز اس کے اس کی دلیل ضعیف ہو انحراف نہ ہوگا اور وقت عشا سے متعلق قول امام کی دلیل قوی ہے اس لئے کہ اسی میں زیادہ احتیاط ہے ۔ اسی طر ح تکبیر تشریق کے آخری وقت کی تعیین میں بھی قوت دلیل اس طر ف ہے اس کے آگے فتح القدیر میں مزید بھی ہے لیکن امام ابن الہام کو دلیل میں نظر وفکر کی اہلیت حاصل تھی ، جو دلیل میں نظر کی اہلیت نہیں رکھتا اس پر تو یہی لازم ہے کہ قول امام پر فتوی دے ۔ یہاں اہلیت کا مطلب یہ ہے کہ اقوال کی معرفت اور ان کے مراتب میں امتیاز کی لیاقت کے ساتھ ایک کو دوسرے پر ترجیح دینے کی قدرت حاصل ہو۔
(۱؎ بحرالرائق کتاب القضاء فصل فی التقلید ۶ /۲۶۹، ۲۷۵)
وتعقبہ العلامۃ ش فی شرح عقودہ بقولہ لایخفی علیک مافی ھذا الکلام من عدم الانتظام ولھذا اعترضہ محشیہ الخیر الرملی بان قولہ یجب علینا الافتاء بقول الامام وان لم نعلم من این قال مضاد لقول الامام لا یحل لاحد ان یفتی بقولنا حتی یعلم من این قلنا اذھو صریح فی عدم جواز الافتاء بغیر اھل الاجتھاد فکیف یستدل بہ علی وجوبہ فنقول مایصدر من غیر الاھل لیس بافتاء حقیقۃ وانما ھو حکایۃ عن المجتھد انہ قائل بکذا واعتبار ھذا الملحظ تجوز حکایۃ قول غیرالامام فکیف یجب علینا الافتاء بقول الامام وان افتی المشاْئخ بخلافہ ونحن انما نحکی فتوٰیھم لاغیر فلیتأمل انتھی ،
اس کلام بحر پر علامہ شامی نے شرح عقود میں یوں تنقید کی ہے اس کلام کی بے نظمی ناظرین پر مخفی نہیں ۔ اسی لئے اس کے محشی خیر الدین رملی نے اس پر اعتراض کیاہے کہ ایک طر ف ان کا کہنایہ ہے کہ ''ہمیں قول امام پرفتوٰی دینا واجب ہے اگرچہ اس قول کی دلیل او رماخذہمارے علم میں نہ ہو ''دوسری طر ف امام کا ارشاد یہ ہے کہ '' کسی کے لئے ہمارے قول پر فتوی دینا حلا ل نہیں جب تک اسے یہ علم نہ ہوجائے کہ ہم نے کہا ں سے کہا ۔'' یہ دونوں میں تضاد ہے اس لئے کہ قول امام سے صراحۃ واضح ہے کہ اہلیت اجتہاد کے بغیر فتوٰی دینا جائز نہیں ۔ پھر اس سے اس شرط کے بغیر وجوب افتا ء پر استدلال کیسے ہوسکتا ہے؟تو ہم یہ کہتے ہیں کہ غیر اہل اجتہاد سے جو حکم صادر ہوتا ہے وہ حقیقۃ افتا ء نہیں ، وہ تو امام مجتہد سے صرف اس بات کی نقل وحکایت ہے کہ وہ اس حکم کے قائل ہیں جب حقیقت یہ ہے تو غیر امام کے قول کی نقل وحکایت بھی جائز ہے پھر ہم پر یہ واجب کیسے رہا کہ قول اما م ہی پرفتوٰی دیں اگر چہ مشائخ نے اس کے بر خلاف فتوٰی دیا ہو ، حالانکہ کہ ہم تو صرف فتوائے مشائخ کے ناقل ہیں او رکچھ نہیں یہاں تامل کی ضرورت ہے ، انتہی ،(کلام رملی ختم ہوا )
(وتوضیحہ) ان المشائخ اطلعوا علی دلیل الامام وعرفوا من این قال واطلعو اعلی دلیل اصحابہ فیرجحون دلیل اصحابہ علی دلیلہ فیفتون بہ ولا یطّن بھم انھم عدلوا عن قولہ لجہلھم بدلیلہ فانا نرٰہم قدشحنو اکتبھم بنصب الادلۃ ثم یقولون الفتوی علی قول ابی یوسف مثلا وحیث لم نکن اھلا للنظر فی الدلیل ولم نصل الی رتبتھم فی حصول شرائط التفریح والتاصیل فعلینا حکایۃ ما یقولونہ لانھم ھم اتباع المذھب الذین نصبوا انفسھم لتقریرہ وتحریرہ باجتھادھم (وانظر) الی ما قدمناہ من قول العلامۃ قاسم ان المجتھدین لم یفقدوا حتی نظروا فی المختلف ورجعوا وصححوا الی ان قال فعلینا اتباع الراجع والعمل بہ کمالو افتوا فی حیاتھم (وفی) فتاوی العلامۃ ابن الشلبی لیس للقاضی ولا للمفتی العدول عن قول الامام الا الا اذا صرح احد من المشائخ بان الفتوی علی قول غیرہ فلیس للقاضی ان یحکم بقول غیرا بی حنیفۃ فی مسئلۃ لم یرجح فیھا قول غیرہ ورجحوا فیھا دلیل ابی حنیفۃ علی دلیلہ فان حکم فیھا فحکمہ غیر ماض لیس لہ غیرالا نتقاض انتھٰی ۱؎ اھ کلامہ فی الرسالۃ ۔
علامہ شامی فرماتے ہیں : اس کی توضیح یہ ہے کہ مشائخ کو دلیل امام سے آگاہی حاصل ہوئی ،انھیں علم ہواکہ امام نے کہاں سے فرمایا ،ساتھ ہی اصحاب امام کی دلیل سے بھی وہ آگاہ ہوئے ،اس لیے وہ دلیل اصحاب کو دلیل امام پر ترجیح دیتے ہوئے فتوی دیتے ہیں ۔اور ان کے بارے میں یہ گمان نہیں کیا جاسکتا کہ انھوں نے قول امام سے انحراف اس لیے اختیار فرمایا کہ انھیں ان کی دلیل کا علم نہ تھا ۔اس لیے کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ حضرات مشائخ نے دلائل قائم کرکے اپنی کتابیں بھر دی ہیں اس کے بعد بھی یہ لکھتے ہیں کہ فتوی مثلا امام ابویوسف کے قول پر ہے ۔اور ہمارا حال یہ ہے کہ نہ دلیل میں نظر کی اہلیت ،نہ تاسیس اصول وتخریج فروع کی شرائط کے حصول میں رتبہ مشائخ تک رسائی ،تو ہمارے ذمہ یہی ہے کہ حضرات مشائخ کے اقوال نقل کر دیں اس لیے کہ یہی حضرات مذہب کے ایسے متبع ہیں جنھوں نے اپنے اجتہاد کی قوت سے مذہب کی تقریر وتحریر (اثبات وتوضیح ) کی ذمہ داری اٹھا رکھی ہے ۔ملاحظہ ہو علامہ قاسم کی عبارت جو ہم پہلے پیش کر آئے ،وہ فرماتے ہیں :مجتہدین پیداہوتے رہے یہاں تک کہ انھوں نے مقام اختلاف میں نظر فرما کر ترجیح وتصحیح کا کام سر انجام دیا تو ہمارے اوپر اسی کی پیروی اور اسی پر عمل لا زم ہے جو راجح قرار پایا جیسے ان حضرات کے اپنی حیات میں فتوی دینے کی صورت میں ہوتا علامہ ابن شلبی کے فتاوی میں مرقوم ہے کہ :قاضی یا مفتی کو قول امام سےانحراف کی گنجائش نہیں مگر اس صورت میں جب کہ مشائخ میں سے کسی نے یہ صراحت فرمائی ہو کہ فتوی امام کے سواکسی اور کے قول پر ہے ۔تو قاضی کو امام کے سوا دوسرے کے قول پر کسی ایسے مسئلہ میں فیصلہ کرنے کا حق نہیں جس میں دوسرے کے قول کو ترجیح نہ دی گئی ہو اور خود امام ابوحنیفہ کی دلیل کو دوسرے کی دلیل پر ترجیح ہو،اگر ایسے مسئلہ میں قاضی نے خلاف امام فیصلہ کر دیا تو اس کا فیصلہ نافذ نہ ہو گا بے ثباتی کی وجہ سے آپ ہی ختم ہو جائے گا ۔انتہی کلام ابن الشلبی اھ رسالہ شامی کی عبارت ختم ہوئی
(۱؎ شرح عقود رسم المفتی رسالہ من رسائل ابن عابدین سہیل اکیڈمی لاہور ۱ / ۲۹)
وذکر نحوہ فی ردالمحتار من القضاء وزاد فی منحۃ الخالق انت تری اصحاب المتون المعتمدۃ قد یمشون علی غیر مذھب الامام و اذا افتی المشائخ بخلاف قولہ لفقد الدلیل فی حقہم فنحن نتبعھم اذ ھم اعلم وکیف یقال یجب علینا الافتاء بقول الامام لفقد الشرط وقد اقر انہ قد فقد الشرط ایضا فی حق المشائخ فھل تراھم ارتکبوا منکرا والحاصل ان الانصاف الذی یقبلہ الطبع السلیم ان المفتی فی زماننا ینقل ما اختارہ المشائخ وھو الذی مشی علیہ العلامۃ ابن الشلبی فی فتاواہ حیث قال الاصل ان العمل علی قول ابی حنیفۃ رضی اللہ تعالی عنہ ولذا ترجع المشائخ دلیلہ فی الاغلب علی دلیل من خالفہ من اصحابہ ویجیبون عما استدل بہ مخالفہ وھذا امارۃ العمل بقولہ وان لم یصرحوا بالفتوی علیہ اذا الترجیع کصریح التصحیح لان المرجوع طائح بمقابلتہ بالراجح وحینئذ فلا یعدل المفتی ولا القاضی عن قولہ الا اذا صرح ۱؎ الی اٰخر ما مر،
اسی طر ح کی بات علامہ شامی نے رد المحتار کتا ب القضاء میں ذکر کی ہے او رمنحۃ الخالق حاشیۃ البحر الرائق میں مزید بر آں یہ بھی لکھا ہے کہ : آپ دیکھتے ہیں کہ متونِ مذہب کے مصنفین بعض اوقات مذہب امام کے سوا کوئی اور اختیار کرتے ہیں اور جب مشائخ مذہب نے اس دلیل کے فقدان کی وجہ سے جو ان کے حق میں شرط ہے ، قول امام کے خلاف فتوی دے دیا تو ہم ان ہی کا اتباع کریں گے اس لئے کہ انہیں زیادہ علم ہے یہ بات کیسے کہی جاتی ہے کہ ہمارے اوپر قول امام پر ہی فتوی دینا واجب ہے ا س لئے کہ ہمارے حق میں(قول امام پر افتاکی) شرط مفقود ہے ، حالاں کہ یہ بھی اقرار ہے کہ وہ شرط مشائخ کے حق میں بھی مفقود ہے توکیا یہ خیال ہے کہ ان حضرات نے کسی ناروا امر کا ارتکاب کیا ؟ حاصل یہ کہ طبع سلیم کے لئے انصاف کی قابل قبول بات یہ ہے کہ ہمارے زمانے کے مفتی کا کام یہی ہے کہ مشائخ نے جو فتوی دیا ہے اسے نقل کردے ۔اسی بات پر علامہ ابن شلبی اپنے فتا وی میں گام زن ہیں ، وہ فرماتے ہیں ، اصل یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کے قول پر عمل کیا جائے اسی لئے مشائخ اکثر ان ہی کی دلیل کو ان کے مخالف کی دلیل پر ترجیح دیتے ہیں اور مخالف کے استدلال کا جواب بھی پیش کرتے ، یہ اس بات کی علامت ہے کہ عمل قول امام پر ہوگا اگرچہ ایسی جگہ حضرات مشائخ نے یہ صراحت نہ فرمائی ہو کہ فتوی قول امام پرہے ، اس لئے کہ ترجیح خود صراحۃ تصحیح کا حکم رکھتی ہے ،کیونکہ مرجوع راجح کے مقابلے میں بے ثبات ہوتا ہے ۔ جب معاملہ یہ ہے تو قاضی یا مفتی کو قول امام سے انحراف کی گنجائش نہیں مگر اس صورت میں جب کہ مشائخ میں سے کسی نے یہ صراحت فرمائی ہو (آخر عبارت تک جو فتاوی ابن شلبی کے حوالے سے پہلے گزری )
(۱؎ منحۃ الخالق علی بحرا لرائق کتاب القضاء فصل یجوز تقلید من شاء ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۶ /۲۶۹)