فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱-۱(کتاب الطہارۃ) |
رسالــــہ اَجلَی الاِعلام اَنّ الفتوٰی مُطلقاًعلٰی قولِ الاِمام ۳۴ ۱۳ھ (روشن تر آگاہی کہ فتوٰی قولِ امام پر ہے)
فـــ بسم اللہ الرحمن الرحیم
فـــ : رسالہ جلیلہ اس امر کی تحقیق عظیم میں کہ فتوٰی ہمیشہ قول امام پر ہے اگر چہ صاحبین خلاف پر ہوں اگرچہ خلاف پرفتوٰی دیا گیا ہو ، اختلاف زمانہ ضرورت وتعامل وغیرہا جن وجوہ سے قول دیگر پر فتوٰی مانا جاتا ہے وہ درحقیقت قول امام ہی ہوتا ہے ۔
الحمد للہ الحفی، علی دینہ الحنفی، الذی ایدنا بائمۃ یقیمون الاود، ویدیمون المدد، باذن الجواد الصمد، وجعل من بینھم امامنا الاعظم کالقلب فی الجسد،والصّلوۃ والسلام علی الامام الاعظم للرسل الکرام الذی جاء نا حقا من قولہ المأمون، استفت عـــہ قلبک وان افتاک المفتون،وعلیہم وعلی اٰلہ واٰلھم وصحبہ وصحبھم وفئا مہ وفئامھم، الی یوم یدعی کل اناس بامامھم، اٰمین
ہر ستا ئش خدا کے لئے جو دین حنفی پر نہایت مہربان ہے ، جس نے ہمیں ایسے ائمہ سے قوت دی جو جو د وسخا والے بے نیاز رب کے اذن سے کجی درست کرنے والے او ر ہمیشہ مدد پہنچا نے والے ہیں ، او ران کے درمیان ہمارے امام اعظم کو یوں رکھاجیسے جسم میں قلب کو رکھا،اور درودو سلام ہو معز ز رسولوں کے امام اعظم پر جن کا یہ ارشاد گرامی بجا طور پر ہمیں ملا،کہ اپنے قلب سے فتوٰی دریافت کر اگر چہ مفتیوں کا فتوٰی تجھے مل چکا ہے ۔ اور (درود و سلام ہو) ان رسولو ں پر یوں ہی سرکارکے آل واصحاب وجماعت پر اورحضرات رسل کے آل واصحاب اور جماعت پر بھی اس روز تک جبکہ ہر گر وہ کو اس کے امام و پیشوا کے ساتھ بلایا جائے گا الہٰی ! قبول فرما ،
عـــہ جعل الامام الاعظم کالقلب ثم ذکر ھذا الحدیث (استفت قلبک وان افتاک المفتون، فاکرم بہ من براعۃ استھلال، والحدیث رواہ الامام ۱؎ احمد والبخاری فی تاریخہ عن وابصۃ بن معبد الجھنی رضی اللہ تعالی عنہ بسند حسن بلفظ استفت نفسک۲؎ وروی احمد بسند صحیح عن ابی ثعلبۃ الخشنی رضی اللہ تعالی عنہ عن النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم البر ما سکنت الیہ النفس واطمأن الیہ القلب والاثم مالم تسکن الیہ النفس ولم یطمئن الیہ القلب وان افتاک المفتون ۳؎ ا ھ منہ غفرلہ۔
( پہلے امام اعظم کو قلب کی طرح قرار دیا پھر یہ حدیث ذکر کی '' اپنے قلب سے فتوٰی طلب کر اگر چہ مفتیوں کا فتوٰی تجھے مل چکا ہو'' اس میں کیا ہی عمدہ براعت استہلال ہے( یعنی یہ اشارہ ہوجاتا ہے کہ قلب امام اعظم کا فتوٰی راجح ہوگا اگرچہ دو سرے فتوے اس کے بر خلاف ہوں حدیث مذکور امام احمد نے مسند میں اور امام بخاری نے تا ریخ میں وابصہ بن معبد جہنی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بسند حسن روایت کی ہے اس کے الفا ظ میں '' استفت نفسک''ہے یعنی خود اپنی ذات سے فتوٰی طلب کر اور امام احمدنے بسند صحیح ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ تعالی عنہ کے ذریعہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے یوں روایت کی ہے نیکی وہ ہے جس میں نفس کو سکون اور قلب کو اطمینا ن ملے اور گناہ وہ ہے جس سے نفس کو سکون او ر قلب کو اطمینان نہ ہو اگر چہ فتوٰی دینے والے(اس کی درستی کا ) فتوٰی دے دیں ) (ت)
(۱؎ مسند احمد بن حنبل عن وابصۃ بن معبد رضی اللہ تعالی عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۴ / ۲۸۸ (اتحاف السادۃ المتقین الباب الثانی دارالفکر بیروت ا / ۱۶۰ ) (۲؎ التاریخ البخاری ترجمہ ۴۳۲ محمد ابوعبداللہ الاسدی دارالباز مکۃ المکرمۃ ۱ /۱۴۵ الجامع الصغیر حدیث۹۹۱ دارالکتب العلمیہ بیروت ۱ / ۶۶) (۳؎ مسند احمد بن حنبل حدیث ابی ثعلبۃ الخشنی المکتب الاسلامی بیروت ۴ / ۱۹۴)
اعلم رحمنی اللہ تعالی وایاک، وتولی بفضلہ ھدای وھداک، انہ قال العلامۃ المحقق البحر فی صدر قضاء البحر بعد ما ذکر تصحیح السراجیۃ ان المفتی یفتی بقول ابی حنیفۃ علی الاطلاق ۱؎
آپ کو معلوم ہو ، خدا مجھ پر اور آپ پر رحم فرمائے ، اور اپنے فضل سے مجھے اور آپ کو راہ راست پر چلائے ، کہ علامہ محقق صاحب بحر رائق نے البحر الرائق کتاب القضاء کے شرو ع میںپہلے یہ دو تصحیحین ذکر کیں (۱) تصحیح سراجیہ ،مفتی کو مطلقا قول امام پر فتوی دینا ہے ،
(۱؎ بحر الرائق کتاب القضاء فصل فی التقلید ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۶ /۲۶۹)
وتصحیح حاوی القدسی،اذاکان الامام فی جانب وھمافی جانب ان الاعتبار لقوۃ المدرک ۲؎ مانصہ فان قلت کیف جاز للمشائخ الافتاء بغیر قول الامام الاعظم مع انھم مقلدون قلت قد اشکل علی ذلک مدۃ طویلۃ ولم ارفیہ جوابا الاما فھمتہ الاٰن من کلامھم وھو انھم نقلو ا عن اصحابنا عــہ انہ لایحل لاحد ان یفتی بقولنا حتی یعلم من این قلنا حتی نقل فی السراجیۃ ان ھذا سبب مخالفۃ عصام للامام وکان یفتی بخلاف قولہ کثیرا لانہ لم یعلم الدلیل وکان یظھرلہ دلیل غیرہ فیفتی بہ،
(۲) تصحیح حاوی قدسی اگر امام اعظم ایک جانب ہوں او رصاحبین دو سری جانب تو قوت دلیل کا اعتبار ہوگا ، اس کے بعد وہ یوں رقم طراز ہیں : اگر یہ سوال ہو کہ مشائخ کو یہ جواز کیسے ملا کہ وہ امام اعظم کے مقلد ہوتے ہوئے ان کا قول چھوڑ کر دو سرے کے قول پر فتوٰی دیں ؟ تو میں کہوں گا کہ یہ اشکال عرصہ دراز تک مجھے در پیش رہا او راس کا کوئی جواب نظر نہ آیا ، مگر اس وقت ان حضرات کے کلام سے اس اشکال کا یہ حل سمجھ میں آیا کہ حضرات مشائخ نے ہمارے اصحاب سے یہ ارشاد نقل فرمایا ہے کہ کسی کے لئے ہمارے قول پر فتوی دینا روا نہیں جب تک اسے یہ علم نہ ہو جائے کہ ہمارا ماخذا ور ہمارے قول کی دلیل کیا ہے ، یہاں تک کہ سراجیہ میں منقول ہے کہ اسی وجہ سے شیخ عصام سے امام اعظم کی مخالفت عمل میں آئی ، ایسا بہت ہو تا کہ وہ قول امام کے بر خلاف فتوٰی دیتے کیونکہ انہیں دلیل امام معلوم نہ ہوتی اور دو سرے کی دلیل ان کے سامنے ظاہر ہوتی تو اسی پر فتوٰی دیتے،
(۲؎ بحر الرائق کتاب القضاء فصل فی التقلید ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۶ /۲۶۹)
عــہ قال الرملی ھذا مروی عن ابی حنیفۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ وکلامہ ھنا موھم ان ذلک مروی عن المشائخ کما ھو ظاھر من سیاقہ ۱؎ اھ اقول: ای فـــ۱ حرف فی کلامہ یوھم روایتہ عن المشائخ وای سیاق یظھرہ انما جعل خلاف المشائخ لانھم منھیون عن الافتاء بقول الاصحاب مالم یعرفوا دلیلہ فھم منھیون لانا ھون اما الاصحاب فــــ۲ فنعم روی عنھم کما روی عن الامام رضی اللہ تعالی عنھم فی مناقب الامام للامام الکردری عن عاصم بن یوسف لم یرمجلس انبل من مجلس الامام وکان انبل اصحابہ اربعۃ زفرو ابو یوسف وعافیۃ واسد بن عمرو وقالوا لا یحل لاحد ان یفتی بقولنا حتی یعلم من این قلنا ولا ان یروی عنا شیئا لم یسمعہ منا وفیھا عن ابن جبلۃ سمعت محمدا یقول لایحل لاحد ان یروی عن کتبنا الا ما سمع اویعلم مثل علمنا۲ ۱۲ منہ غفرلہ۔ (م)
یہا ں خیر الدین رملی اعتراض فرماتے ہیں کہ یہ با ت اما م ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے ، اور کلام بحر سے یہ وہم پیداہوتا ہے کہ یہ بات حضرات مشائخ سے مروی ہے جیسا کہ اس کے سیاق سے ظاہر ہےاقول: میں کہتا ہوں کلام بحر کے کس حرف سے یہ وہم پیدا ہوتا ہے او رکس سیاق سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ قول حضرات مشائخ سے مروی ہے ؟ بحرنے تو بس یہ بتا یا ہے کہ مخالفت مشائخ کی وجہ یہ ہے کہ انہیں معرفت دلیل کے بغیر قول اصحاب پر فتو ی دینے سے ممانعت تھی جس سے معلوم ہوا کہ مشائخ اس کا م سے ممنوع تھے نہ یہ کہ وہ خود مانع تھے اب رہی یہ بات کہ قول مذکور نہ صرف امام اعظم بلکہ ان کے اصحاب سے بھی منقول ہے تو ہاں واقعہ یہی ہے حضرات اصحاب سے بھی اسی طر ح منقول ہے جیسے حضرت امام سے منقول ہے رضی اللہ تعالی عنہم ، امام کردری کی تصنیف مناقب امام اعظم میں عاصم بن یوسف سے یہ روایت ہے کہ امام اعظم کی مجلس سے زیادہ معزز کوئی مجلس دیکھنے میں نہ آئی ، اور ان کے اصحاب میں زیادہ معزز و بزرگ چار حضرات تھے (۱) زفر (۲) ابو یوسف(۳) عافیہ(۴) اسد بن عمرو ان حضرات نے فرمایا : کسی کے لئے ہمارے قول پر فتوی دینا اس وقت تک روا نہیں جب تک اسے یہ نہ معلوم ہوجائے کہ ہم نے کہا ں سے کہا ہے ، نہ ہی اس کے لئے یہ روا ہے کہ ہم سے کوئی ایسی بات روایت کرے جو ہم سے سنی نہ ہو اسی کتاب میں ابن جبلہ کا یہ بیان مروی ہے کہ میں نے امام محمد کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کسی کے لئے ہماری کتابوں سے روایت کرنا روا نہیں مگر وہ جو خود اس نے سنا ہو یا وہ جو ہماری طرح علم رکھتا ہو ۱۲منہ (ت)
فــ۱تطفل علی العلامہ الرملی والشامی فــ ۲تطفل علیہما
(۱؎ منحۃ الخالق علی بحرا لرائق فصل یجوز تقلید من شاء ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۶ /۲۶۹) (۱؎ المناقب الکردری ذکر عافیتہ بن یزید الاودی الکوفی مکتبہ اسلامیہ کوئٹہ ۲ / ۲۱۴) (۲؎ المناقب الکردری اقوال الامام الشافعی فی تعظیم الامام محمد بن الحسن مکتبہ اسلامیہ کوئٹہ ۲ / ۱۵۲)