Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱-۱(کتاب الطہارۃ)
18 - 123
مسئلہ اختلافیہ
1_1.jpg
فقد التأمت الکلمات الصحیحۃ المعتمدۃ جمیعا علی ان المقلد لیس لہ الا تقلید الامام وان افتی بخلافہ مفت او مفتون، فان افتاء ھم جمیعا بخلافہ فی غیر صور الثنیا ماکان وما یکون۔ والحمد للہ رب العٰلمین وصلاتہ الدائمۃ علی عالم ماکان وما یکون وعلی اٰلہ وصحبہ وابنہ وحزبہ افضل ماسأل السائلون۔ ھذا ما تلخص لنا من کلما تھم وھوا المنھل الصافی الذی وردہ البحر فاستمع نصوص العلماء کشف اللہ تعالی بھم العماء وجلابھم عنا کل بلاء وعناء۔
تو تمام صحیح معتمد کلمات اس پر متحد ثابت ہوئے کہ مقلد کو بہر صورت امام ہی کی تقلید کرنا ہے اگرچہ کسی ایک مفتی یا چند مفتیوں نے اس کے خلاف فتوی دیا ہو کیونکہ سب کے سب مفتیوں کا خلاف امام افتا بجز صور استثنا ۔۔۔۔۔ نہ کبھی ہوا ہے نہ ہوگا ۔ اور تمام تر ستائش خدا کے لئے جو سارے جہانوں کا پرور دگار ہے ، اوراس کا دائمی درود ہو عالم ماکان ومایکون پر ، اور ان کی آل ، اصحاب فرزند اور گروہ پر ، ان درو دوں میں سب سے افضل درود جن کا سائلوں نے سوال کیا، 

یہ ہے وہ جو کلمات علما ءکی تلخیص سے ہمیں حاصل ہوا اور یہی وہ چشمہ صافی ہے جس پر '' بحر'' اتر ے ۔

اب علماء کے نصوص ملاحظہ ہو ں ، ان حضرات کے طفیل اللہ تعالی نابینائی زائل کرے اور ان کے صدقے میں ہم سے ہر تکلیف وبلا دور کرے ،
خمسۃ واربعون نصا علی المدعی
فــی محیط(۱)الامام السرخسی ثم الفتاوی(۲) الھندیۃ لابد من معرفۃ فصلین احدھما انہ اذا اتفق اصحابنا فی شیئ ابو حنیفۃ وابویوسف ومحمد رضی اللہ تعالی عنھم ینبغی للقاضی ان یخالفھم برأیہ والثانی ا ذا اختلفوا فیما بینھم قال عبداللہ  (۳) بن المبارک رحمہ اللہ تعالی یؤخذ بقول ابی حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ لانہ فـــ کان من التابعین و زاحمھم فی الفتوی ۱؎ اھ
مد عا پر ۴۵ نصوص
 (۱۔۔۔۔۔۔۳) امام سر خسی کی محیط پھر فتاوی ہندیہ میں ہے ، ان دو ضابطوں کی معرفت ضروری ہے اول یہ ہے کہ جب ہمارے اصحاب ابو حنیفہ ، امام ابو یوسف اور امام محمد کسی بات پر متفق ہوں تو قاضی کو یہ نہیں چاہئے کہ اپنی رائے سے ان کی مخالفت کرے ، دوم یہ کہ جب ان حضرات میں باہم اختلاف ہو تو عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کا قول لیا جائے گا ، اس لئے کہ وہ تا بعین میں سے تھے اور تا بعین کے مقابلہ میں فتوی دیا کرتے تھے اھ۔
 (۱؎الفتاوی ہندیہ، بحوالہ محیط السرخسی کتاب اد ب القاضی الباب الثالث نورانی کتب خانہ پشاور    ۳ /۳۱۲)
ف: امامنا رضی اللہ تعالٰی عنہ من التابعین وقد زاحم ائمتہم فی الفتوی
زاد العلامۃ (۴) قاسم فی تصحیحہ ثم (۵) الشامی فی ردالمحتار فقولہ اسد واقوی مالم یکن اختلاف عصر وزمان ۱؎ اھ
 (۴۔۔۔۔۔۵) یہاں علامہ قاسم نے تصحیح میں پھر علامہ شامی نے رد المحتار میں یہ اضافہ کیا : تو ان کا قول زیادہ صحیح اور زیادہ قوی ہوگا جب کہ عصر وزمانہ کا اختلاف نہ ہو ۔
 (۱؎ ردالمحتار مقدمۃ الکتاب مطلب رسم المفتی داراحیاء التراث العربی بیرو ت ۱ / ۴۸)
Flag Counter