اقــول: ومن ذلک افتاء فــــــــ السید بنقل انقاض مسجد خرب ما حولہ واستغنی عنہ الی مسجد اٰخر قال فی ردّالمحتار وقد وقعت حادثۃ سئلت عنھا فی امیر اراد ان ینقل بعض احجار مسجد خراب فی سفح قاسیون بدمشق لیبلط بھا صحن الجامع الاموی فافتیت بعدم الجواز متابعۃ للشر نبلالی ثم بلغنی ان بعض المتغلبین اخذ تلک الاحجار لنفسہ فندمت علی ما افتیت بہ ۱؎ اھ
اقول : اسی میں سے یہ بھی ہے کہ علامہ شامی نے فتوی دیا کہ ایسی مسجد جس کے ارد گر د آبادی نہ رہی اور اس کے سامان بے کار ہو گئے جن کی اب ضرورت نہ رہی تو وہ دوسری مسجدمیں دی جاسکتے ہیں ۔رد المحتار میں فرماتے ہیں: ایک نیا مسئلہ درپیش آیا جس سے متعلق مجھ سے یہ استفتاہوا کہ دمشق کے اندر جبل قاسیون کے دامن میں ایک ویران مسجد ہے جس کے کچھ پتھرو ں کو امیر جامع اموی کے صحن میں فر ش بنانے کی خاطر لے جانا چاہتا ہے میں نے علامہ شرنبلالی کی متا بعت میں فتوی دیاکہ ناجائز ہے کچھہ دنوں بعدمجھے معلوم ہواکہ ایک چیرہ دست ظالم ان پتھروں کو اپنے لئے اٹھالے گیا یہ سن کر اپنے فتوے پر ندامت ہوئی اھ۔
فـ : مسئلہ : جو مسجد ویران ہو اور اس کی آبادی کی کوئی صورت نہ ہو اور اس کے آلات کی حفاظت نہ ہو سکے تو اب فتوی اس پر ہے کہ اس کے کڑی تختے وغیرہ دوسری مسجد میں دیے جاسکتے ہیں ۔
(۱؎ ردالمحتار کتاب الوقف دار احیاء التراث العربی بیروت ۳ / ۳۷۲)
ومـن ذلک فـــ افتاء جد المقدسی بجواز اخذ الحق من خلاف جنسہ حذار تضییع الحقوق قال فی ردالمحتار قال القھستانی وفیہ ایماء الی ان لہ ان یأخذ من خلاف جنسہ عند المجانسۃ فی المالیۃ وھذا اوسع فیجوز الاخذ بہ وان لم یکن مذھبنا فان الانسان یعذر فی العمل بہ عندالضرورۃ کما فی الزا ھدی اھ قلت وھذا ما قالوا انہ لامستندلہ لکن رأیت فی شرح نظم الکنز للمقدسی من کتاب الحجر قال ونقل جد والدی لامہ الجمال الاشقر فی شرحہ للقدوری ان عدم جواز الاخذ من خلاف الجنس کان فی زمانھم لمطاوعتھم فی الحقوق والفتوٰی الیوم علی جواز الاخذ عند القدرۃ من ای مال کان لا سیما فی دیارنا فی مداومتھم للعقوق ۱؎ اھ
اسی میں سے یہ بھی ہے کہ علامہ مقدسی کے نانا نے بربادی حقوق سے بچانے کے لئے یہ فتوی دیاکہ صاحب حق اپنا حق خلاف جنس سے لے سکتا ہے (مثلا کسی ظالم نے کسی کے سو روپے دبالئے اور ملنے کی امید نہیں تو مظلوم بجائے سو روپے کے اتنے ہی کی کوئی او رچیز جو ظالم کے مال سے ہاتھ آئے لے سکتا ہے ) رد المحتار میں ہے ،قہستانی نے کہا اس میں یہ اشارہ ہے کہ وہ خلاف جنس سے بھی لے سکتا ہے جب کہ مالیت یکسا ں ہو ، اس حکم میں زیادہ گنجائش ہے تو ہمارے مذہب میں اگرچہ یہ حکم نہیں مگر اسے لیا جاسکتا ہے اس لئے کہ انسا ن وقت ضرورت اس پر عمل کرلینے میں معذور ہے ، جیساکہ زاہد ی میں ہے اھ ، میں کہتا ہوں اس حکم سے متعلق لوگو ں نے کہا کہ اس کی کوئی سند نہیں ، لیکن میں نے علامہ مقدسی کی شرح نظم الکنز ،کتاب الحجر میں دیکھا ، وہ لکھتے ہیں کہ میرے والد کے نانا جمال اشقر نے اپنی شرح قدوری میں نقل کیا ہے کہ ، خلاف جنس سے نہ لینے کاحکم ان حضرات کے دور میں تھا کیوں کہ اس وقت حقوق کے معاملے میں شریعت کی فرمانبرداری ہوتی تھی اور آج فتوی اس پر ہے کہ جب قدرت مل جائے تو کسی بھی مال سے لینا جائز ہے خصوصا ہمارے دیا ر میں۔کیونکہ اب پیہم نافرمانی ہو رہی ہے اھ۔
(۱؎ ردالمحتار کتاب السرقۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۲۰۰)
ف :مسئلہ جس کے کسی پر مثلا سو روپے آتے ہوں اور اس نے دبالئے یا اور کسی وجہ سے ہوئے اور اسے اس سے روپیہ ملنے کی امید نہیں تو سو روپے کی مقدار تک اس کا جو مال ملے لے سکتا ہے آج کل اس پر فتوٰی دیا گیا ہے مگر سچے دل سے بازار کے بھاؤ سے سو روپے ہی کا مال ہو زیادہ ایک پیسہ کا ہو تو حرام در حرام ہے ۔
ومن ذلک فـــ۱ـ افتائی مراراً بعدم انفساخ نکاح امرأۃ مسلم بارتدادھا لما رأیت من تجاسرھن مبادرۃ الی قطع العصمۃ مع عدم امکان استرقاقھن فی بلادنا ولا ضربھن وجبرھن علی الاسلام کما بینتہ فی السیر من فتا وینا وکم لہ من نظیر وعلی الثانی ان لم تکن فیھا روایۃ عن الامام فخارج عما نحن فیہ ولا شک ان الرجوع اذ ذاک المجتہدین فی المذھب وانکانت فاما مختلفۃ عنہ اولا علی الاول الرجوع الیھم وکیف ماکان لایکون خروجا عن قولہ رضی اللہ تعالی عنہ ولا اعنی بالاختلاف مجیئ النوادر علی خلاف الظاھر فان ماخرج فــــ۲ـ عن ظاھر الروایۃ مرجوع عنہ کما نص علیہ البحر والخیر والشامی ۱؎ وغیرھم وما رجع عنہ لم یبق قولا لہ فتثبت ۔
اسی میں سے یہ بھی ہے کہ میں نے با رہا فتوی دیا کہ کسی مسلمان کی بیوی مرتد ہوجائے تونکاح سے نہ نکلے گی کیوں کہ میں نے یہ دیکھا کہ رشتہ نکاح منقطع کرنے کی جانب پیش قدمی میں ان کے اندر ارتداد کی جسارت پیدا ہوجاتی ہے اور ہمارے بلاد میں نہ انہیں با ند ی بنایا جاسکتا ہے نہ مار پیٹ کر اسلام لا نے پر مجبور کیا جاسکتا ہے ، جیسا کہ اسے ہم نے اپنے فتاوی کی کتاب السیرمیں بیان کیا ہے ، اس کی دوسری بہت سی نظیریں ہیں ۔
برتقدیر ثانی : (اس مسئلہ میں اسباب ستہ میں سے کوئی سبب نہیں) اگر اس میں امام سے کوئی روایت ہی نہ آئی تو یہ صورت ہمارے مبحث سے خارج ہے ، اور بلاشبہ اس صورت میں مجتہدین فی المذہب کی جانب رجوع ہوگا ، اگر روایت ہے تو اما م سے روایت مختلف آئی ہے یا بلا اختلاف آئی ہے پہلی صورت میں رجوع ان ہی حضرات کی جانب ہوگا ، اور جیسے بھی ہو قول امام رضی اللہ تعالی عنہ سے خروج نہ ہوگا ۔ او راختلاف سے میری مراد یہ نہیں کہ روایات نوادر ، ظاہر الروایہ کے خلاف آئی ہو اس لئے کہ جو ظاہرالروایہ سے خارج ہے مرجوع عنہ ہے (اس سے خود امام نے رجوع کرلیا )جیسا کہ بحر ، خیر رملی ، شامی وغیرہ نے اس کی تصریح فرمائی ہے ، او رامام نے جس سے رجوع کرلیا وہ ان کا قول نہ رہ گیا ، اس تحقیق پر ثابت قدم رہو۔
ف۱ : مسئلہ اب فتوی اس پر ہے کہ مسلمان عورت معاذاللہ مرتد ہوکر بھی نکاح سے نہیں نکل سکتی وہ بدستور اپنے شوہر مسلمان کے نکاح میں ہے مسلمان ہوکر یا بلااسلام دوسرے سے نکاح نہیں کرسکتی ۔
فــــ۲ـفائده: ماخرج عن ظاھر الروایۃ فھو مرجوع عنہ
وعلی الثانی اما وافقہ صاحباہ اواحدھما اوخالفاہ علی الاول العمل بقولہ قطعا ولا یجوز لمجتھد فی المذھب ان یخالفھم الا فی صور الثنیا اعنی الحوامل الست فانہ لیس خلافھم بل فی خلافہ خلافھم وکذلک علی الثانی کما نصوا علیہ ایضا ۔
بصورت دوم(جب کہ روایت، امام سے بلا اختلاف آئی ہے) (۱)ــــ یا تو صاحبین امام کے موافق ہوں گے (۲)یا صرف ایک صاحب موافق ہوں گے (۳) یا دو نوں حضرات مخالف ہونگے ۔ پہلی صورت میں قطعا قول امام پر عمل ہوگا اور کسی مجتہد فی المذہب کے لئے ان حضرات کی مخالفت رو ا نہیں ، مگراستثنا یعنی اسباب ستہ والی صورتوں میں کہ یہ ان حضرات کی مخالفت نہیں ، بلکہ اس کے خلاف جانے میں ان کی مخالفت ہے ۔یہی حکم دوسری صورت کا بھی ہے ، جیسا کہ اس کی بھی مذکور ہ حضرات نے تصریح فرمائی ہے ۔
وعلی الثالث اما ان یتفقا علی شیئ واحد او خالفا وتخالفا۔ علی الثانی العمل بقولہ مطلقا وعلی الاول اما ان یتفق المرجحون علی ترجیح قولھما او قولہ اولا ولابان یختلفوا فیہ اولا یأتی ترجیح شیئ منھما ۔
بصورت سوم ، (۱) یا تو صاحبین کسی ایک حکم پر متفق ہوں گے (۲) یاامام کے مخالف ہونے کے ساتھ باہم بھی مختلف ہوں گے بصورت دوم ، مطلقا قول امام پر عمل ہوگا ، اور بصورت اول (۱) یا تو مرجحین قول صاحبین کی تر جیح پر متفق ہونگے (۲) یاقول امام کی تر جیح پر متفق ہوں گے (۳) یا یہ دونوں صورتیں نہ ہوں گی ، اس طر ح کہ ترجیح کے معاملے میں وہ با ہم اختلاف رکھتے ہوں یاسر ے سے کسی کی تر جیح ہی نہ آئی ہو۔
الاول: لاکان ولا یکون قط ابدا الا فی احدی الحوامل الست وحینئذ نتبعھم لانہ قول امامنا بل ائمتنا الثلثۃ رضی اللہ تعالی عنھم صوریا لھما وضروریا لہ، وان جھد احد غایۃ جہدہ ان یستخرج فرعا من غیر الست اجمع فیہ المرجحون عن اٰخرھم علی ترک قولہ واختیار قولھما فلن یجدنہ ابدا وللہ الحمد۔
پہلی صورت: (صاحبین امام کے مخالف ، با ہم متفق ہوں اور تمام مرجحین بھی ان ہی کی ترجیح پر متفق ہوں) نہ کبھی ہوئی نہ کبھی ہوسکتی ہے مگر ان ہی چھ اسباب میں سے کسی ایک سبب کی صورت میں اگر ایسا ہے تو ہم مرجحین کا اتباع کریں گے ، کیونکہ یہی ہمارے امام کا بلکہ ہمارے تینوں ائمہ رضی اللہ تعالی عنہم کا قول ہے ، صاحبین کا قول صوری بھی ہے ، اور امام کا قول ضروری ، اور اگر کوئی اپنی انتہائی کوشش اس بات کے لئے صرف کر ڈالے کہ اسباب ستہ والی صورتوں کے علاوہ کوئی ایک جزئیہ ایسا نکال لے جس میں سب کے سب مرجحین نے قول امام کے ترک اور قول صاحبین کی تر جیح پر اجماع کر رکھا ہو تو ہر گز ہرگز کبھی ایسا کوئی جزئیہ نہ پاسکے گا ، وللہ الحمد۔
الثانی: ظاھران العمل بقولہ اجماعا لا ینبغی ان ینتطح فیہ عنزان فالمسائل الی ھنا لا خلاف فیھا وفیھا جمیعا العمل بقول الامام مھما وجد۔ بقی الثالث وھو ثامن ثمانیۃ من ھذہ الشقوق فھو الذی اتی فیہ الخلاف فقیل ھنا ایضا لا تخییر حتی المجتھد بل یتبع قول الامام وان ادی اجتہادہ الی ترجیح قولھما وقیل بل یتخیر مطلقا ولو غیر مجتہد والذی اتفقت کلماتھم علی تصحیح التفصیل بان المقلد یتبع قول الامام واھل النظر قوۃ الدلیل ۔
دوسری صورت: (صاحبین مخالف امام ہیں ، مرجحین قول امام کی تر جیح پر متفق ہیں) میں ظاہر ہے کہ قول امام پر عمل ہوگا بالاجماع اس میں کسی دو فرد کا بھی باہم نزاع نہیں ہوسکتا ، یہا ں تک جو مسائل بیان ہوئے ان میں کوئی اختلاف نہیں اور سب میں یہی ہے کہ عمل قول امام ہی پر ہے جہان بھی قول امام موجود ہو۔
تیسری صورت رہ گئی ، یہ ان شقوں کی آٹھ صورتو ں میں سے آٹھویں صورت ہے ، اسی میں اختلاف وارد ہے ، ایک قول ہے کہ یہاں بھی کوئی تخییر نہیں یہاں تک کہ مجتہد کے لئے بھی نہیں ، بلکہ اسے قول امام ہی کی پیروی کرنا ہے اگرچہ اس کا اجتہاد قول صاحبین کو ترجیح دیتا ہو ، ایک قول ہے کہ مطلقا تخییر ہے اگر چہ غیر مجتہد ہو ، اور کلمات علماء جس کی تصحیح پر متفق ہیں وہ یہ ہے کہ مجتہد اور غیر مقلد کا حکم یہاں الگ الگ ہے ۔ مقلد قول امام کی پیروی کرے گا ، اور صاحب نظر قوت دلیل کی پیروی کرے گا ۔