فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱-۱(کتاب الطہارۃ) |
اقول : انما فـــ ۱ مشی فی صدرالکتاب وفی کتاب القضاء معا علی ان الفتوی علی قول الامام مطلقا کما سیأتی وقولہ اما نحن فعلینا اتباع مارجحوہ فما خوذ من التصحیح کما افد تموہ فی ردالمحتار۲؎ وقد کان صدر کلام الدر ھذا وحاصل ماذکرہ الشیخ قاسم فی تصحیحہ۳؎ الخ وقد علمت ماھو مراد التصحیح الصحیح والحمد للہ علی حسن التنقیح ۔
اقول : در مختار کے شروع میں اور کتاب القضاء میں دونوں جگہ وہ اسی پر گام زن ہیں کہ فتوی مطلقا قول امام پر ہے جیساکہ آگے ان کا کلام آرہا ہے ، رہی ان کی یہ عبارت '' اما نحن فعلینا اتباع مار جحوہ ، ہمیں تو اسی کی پیروی کرنی ہے جسے ان حضرات نے راجح قرار دیا '' تو یہ تصحیح علامہ قاسم سے ماخوذ ہے جیسا کہ رد المحتار میں آپ نے افادہ فرمایا خود درمحتار ابتدائے کلام اسی طر ح ہے اور اس کا حاصل جو شیخ قاسم نے انپی تصحیح میں بیان کیا الخ عبارت تصحیح کا صحیح مطلب کیا ہے یہ پہلے معلوم ہوچکا ہے ، اس خوبی تنقیح پر ساری حمد خداہی کے لئے ہے ۔
فــــ۱ : معروضۃ علیہ
(۲؎ ردالمحتار خطبۃ الکتاب احیاء التراث العربی بیروت ۱ / ۵۳) (۳؎ الدرالمختار خطبۃ الکتاب مطبع مجتبائی دھلی ۱ / ۱۵)
اتینا علی ماوعدنا من سرد النقول علی ماقصدنا۔
اب ہم اپنے مقصودوموعود ، ذکر نقول ونصوص پر آتے ہیں۔
اقــــول : وباللہ التوفیق، ما ھوالمقرر عند ناقد ظھر من مباحثنا وتفصیلہ ان المسألۃ اما ان یحدث فیھا شیئ من الحوامل الست اولا علی الاول الحکم للحامل وھو قول الامام الضروری المعتمد علی الاطلاق سواء کان قولہ الصوری بل وقول اصحابہ وترجیحات المرجحین موافقالہ اولا علما منا ان لوحدث ھذا فی زمانھم لحکموا بہ فقول الامام الضروری شیئ لانظر معہ الی روایۃ ولا ترجیح بل ھوالقول الضروری للمرجحین ایضا فــــــ ولا یتقید ذلک بزمان دون زمان قال فی شرح العقود فان قلت العرف یتغیر مرۃ بعد مرۃ فلو حدث عرف اٰخرلم یقع فی الزمان السابق فھل یسوغ للمفتی مخالفۃ المنصوص واتباع المعروف الحادث؟ قلت نعم فان المتأخرین الذین خالفوا المنصوص فی المسائل المارۃ لم یخالفوہ الا لحدوث عرف بعد زمن الامام فللمفتی اتباع عرفہ الحادث فی الالفاظ العرفیۃ وکذا فی الاحکام التی بناھا المجتہد علی ما کان فی عرف زمانہ وتغیر عرفہ الی عرف اٰخر اقتداء بھم لکن بعد ان یکون المفتی ممن لہ رأی ونظر صحیح ومعرفۃ بقواعد الشرع حتی یمیز بین العرف الذی یجوز بناء الاحکام علیہ وبین غیرہ۱؎
اقول : وباللہ التو فیق، ہمارے نزدیک جو مقرراور طے شدہ ہے وہ ہماری بحثوں سے ظاہر ہوگیا ، اس کی تفصیل یہ ہے کہ مسئلہ میں ان چھ اسباب تغیر سے کوئی رونما ہے یا نہیں ،اور برتقدیر اول حکم اس سبب کے تحت ہوگا ، اور یہ امام کاقول ضروری ہوگا جس پر مطلقا اعتماد ہے خواہ ان کا قول صوری ، بلکہ ان کے اصحاب کا قول اور مرجحین کی ترجیحات بھی اس کے موافق ہوں یا نہ ہوں کیونکہ ہمیں یہ معلوم ہے اگر یہ سبب ان حضرات کے زمانے میں رونما ہوتا وہ بھی اسی پر حکم دیتے ، اما م کا قول ضروری ایسا امر ہے جس کے ہوتے ہوئے نہ روایت پر نظر ہوگی نہ تر جیح پر بلکہ وہی مرجحین کا بھی قول ضروری ہے اس میں کسی زمانے کی پابندی بھی نہیں (فلاں زمانے میں سبب رونما ہو تو قول ضروری ہوگا اور فلاں زمانے میں نہ ہوگا ) علامہ شامی کی شر ح عقود میں ہے ، اگر یہ سوال ہو کہ عرف با ربار بدلتا رہتا ہے ، اگر کوئی ایسا عرف پیدا ہوجو زمانہ سابق میں نہ تھا تو کیا مفتی کے لئے یہ رواہے کہ منصوص کی مخالفت کرے اور عرف جدید کا اتبا ع کر ے ؟ میں جواب دو ں گا کہ ہا ں اس لئے کہ گزشتہ مسائل میں جن متا خرین نے منصوص کی مخالفت کی ہے ان کی مخالفت کی وجہ یہی ہے کہ زمانہ امام کے بعد کوئی اور عرف رونما ہوگیا ، تو ان کی اقتدا ء میں مفتی کا بھی یہ حق ہے کہ عرفی الفاظ میں اپنے عرف جدید کا اتباع کرے اسی طر ح ان احکام میں بھی جن کی بنیاد مجتہد نے اپنے زمانے کے عرف پر رکھی تھی او ر وہ عرف کسی اور عرف سے بدل گیا ، لیکن یہ حق اس وقت ملے گا جب مفتی صحیح رائے و نظر اور قواعد شرعیہ کی معرفت کا حامل ہو تا کہ یہ تمیز کرسکے کہ کس عرف پر احکام کی بنیاد ہوسکتی ہے اور کس پر نہیں ہوسکتی ۔
(۱؎ شرح عقود رسم المفتی من رسائل ابن عابدین سہیل اکیڈمی لاہور ۱ /۴۵)
فــــ : حدث وحکم ضروری لاحدی الحوامل الست لایتقید بزمان ۔
قال وکتبت فی ردالمحتارفی باب القسامۃ فیما لوادعی الولی علی رجل من غیر اھل المحلۃ وشھد اثنان منھم علیہ لم تقبل عندہ وقالا تقبل الخ نقل السید الحموی عن العلامۃ المقدسی انہ قال توقفت عن الفتوی بقول الامام ومنعت من اشاعتہ لما یترتب علیہ من الضرر العام فان من عرفہ من المتمر دین یتجاسر علی قتل النفس فی المحلات الخالیۃ من غیر اھلھا معتمدا علی عدم قبول شہادتھم علیہ حتی قلت ینبغی الفتوی علی قولھما لاسیما والاحکام تختلف باختلاف الایام انتھی ۱؎
فرماتے ہیں :میں نے رد المحتار باب القسامۃ میں ، اس مسئلہ کے تحت کہ اگر غیر اہل محلہ کے کسی شخص پر قتل کا دعوی ہوا اور اہل محلہ میں سے دو مردوں نے اس پر گواہی دی تو حضرت امام کے نزدیک یہ گواہی قبول نہ کی جائے گی ، اور صاحبین فرماتے ہیں کہ قبول کی جائے گی الخ ، یہ لکھا ہے کہ سید حموی ، علامہ مقدسی سے نقل فرماتے ہیں کہ ان کابیان ہے کہ میں نے قول امام پر فتوی دینے سے تو قف کیا اور اس قول کی اشاعت سے منع کیا ، کیوں کہ اس سے عام نقصان وضرر پیدا ہوتا ، اس لئے کہ جو سر کش اسے جان لے گا وہ ان محلوں میں جو غیر اہل محلہ سے خالی ہوں جان مارنے میں جری اور بے باک ہوجائے گا اس اعتماد پر کہ اس کے خلاف خود اہل محلہ کی شہادت قبول نہ ہوگی ، یہاں تک کہ میں نے یہ کہا کہ فتوی قول صاحبین پر ہونا چاہئے خصوصا جب کہ احکام زمانے کے بد لنے سے بدل جاتے ہیں ، انتہی۔
(۱؎ شرح عقودرسم المفتی رسالہ من رسائل ابن عابدین سہیل اکیڈمی لاہور ۱ /۴۷)
وقالوا اذا زرع صاحب الارض ارضہ ما ھو ادنی مع قدرتہ علی الاعلی وجب علیہ خراج الاعلی قالوا وھذا یعلم ولا یفتی بہ کیلا یتجرأ الظلمۃ علی اخذ اموال الناس قال فی العنایۃ و رد بانہ کیف یجوز الکتمان ولواخذوا کان فی موضعہ لکونہ واجبا، واجیب بانا لوافتینا بذلک لادعٰی کل ظالم فی ارض لیس شأنھا ذلک انھا قبل ھذا کانت تزرع الزعفران مثلا فیاخذ خراج ذلک وھو ظلم وعدوان۲؎ انتھی
ائمہ نے فرمایا : جب زمین والا اپنی زمین کے اندر اعلٰی چیز کی کاشت پر قدرت رکھنے کے با وجود ادنی چیز کی کا شت کرے تو اس کے اوپر اعلٰی کا خراج واجب ہوگا ، علماء نے فرمایا: یہ حکم جاننے کا ہے ، فتوی دینے کا نہیں تاکہ ظالم حکام لوگو ں کا مال لینے کی جرات نہ کریں عنایہ میں ہے اس قول پر یہ رد کیا گیا ہے کہ علم کا چھپا نا کیونکر جائز ہوگا جب کہ وہ اگر لے ہی لیں تو بجا ہوگا کیوں کہ یہی واجب ہے ، ا س کے جواب میں یہ کہا گیا کہ اگر ہم اس پر فتوی دے دیں تو ہر ظالم ایسی زمین جو اعلی کے قابل نہ ہو یہ دعوی کرتے ہوئے کہ پہلے تو اس میں زعفران وغیرہ کی کاشت ہوتی تھی ، زعفران کا خراج وصول کرلے گا اور یہ ظلم وعدوان ہوگا ، انتہی ۔
(۲؎ شرح عقودرسم المفتی رسالہ من رسائل ابن عابدین سہیل اکیڈمی لاہور ۱ /۴۶ ،و ۴۷)
وکذا فی فتح القدیر قالوا لایفتی بھذا لما فیہ من تسلط الظلمۃ علی اموال المسلمین اذ یدعی کل ظالم ان الارض تصلح لزراعۃ الزعفران ونحوہ وعلاجہ صعب انتھی فقد ظھرلک ان جمود المفتی او القاضی علی ظاھر المنقول مع ترک العرف والقرائن الواضحۃ والجھل باحوال الناس یلزم منہ تضییع حقوق کثیرۃ وظلم خلق کثیرین۱؎ اھ
اسی طرح فتح القدیر میں ہے کہ اس پر فتوی نہیں دیا جاتا کیو نکہ اس کے تحت مسلمانوں کے مال پر ظالموں کی چیرہ دستی ہوگی اس لئے کہ ہر ظالم دعوی کرے گا کہ یہ زمین زعفران وغیرہ بوئے جانے کی صلاحیت رکھتی ہے ، او ر اس ظلم کاعلاج دشوارہے ۔ انتہی اس تفصیل سے واضح ہوگیا کہ اگر مفتی یا قاضی عرف او رقرائن واضحہ چھوڑ کر او رلوگو ں کے حالات سے بے خبر ہو کر نقل شدہ حکم کے ظاہر پر جمود اختیار کر لے تو اس سے بہت سے حقوق کی بر بادی اور بے شمار مخلوق پر ظلم وزیادتی لازم آئے گی اھ۔
(۱؎ شرح عقودرسم المفتی رسالہ من رسائل ابن عابدین،سہیل اکیڈمی لاہور ۱ /۴۷)